جہاں پناہ! کروٹ تو بدل لیجئے

قاسم سید 
کہا جاتا ہے کہ گدھ اور عقاب ایک ہی نسل کے تھے، اس لئے دونوں میں کافی مشابہت اور بعض معاملات میں یکسانیت ہے۔ بڑی بڑی نوکیلی چونچ، لمبے لمبے پر، قوت مدافعت بے پناہ، بلند نگاہ لیکن بعض عادت و خصلت میں نمایاں فرق ہے، مثلاً زبردست ہاضمہ کے ساتھ سڑے جانور کو چٹ کرنے میں گدھ کا کوئی جواب نہیں، عقاب خود شکار کرکے کھاتا ہے، جبکہ گدھ کسی دوسرے کے شکار کے مردار، اس کے چھوڑے ہوئے باقیات یا مرے گالے جانور پر گزارا کرتا ہے۔ ایک قناعت پسند، سہولت پسند اور دوسروں کے رحم و کرم پر جینے کے لئے جانا جاتا ہے، جبکہ عقاب محنت، جدوجہد اور خودداری کے ساتھ زندگی گزارنے اور اپنے قوت و بازو پر بھروسہ کرنے کے لئے شہرت رکھتا ہے۔ ممکن ہے کہ اونچی اڑان کی خواہش، بلند نگاہی اور جنون گدھ میں بھی کہیں موجزن ہو، مگر اس نے خود پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا اور مردار کو پیٹ بھرنے کا ذریعہ بنالیا۔ ظاہر ہے اپنا شکار خود کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں ہلانا پڑتے ہیں، تپتی دھوپ میں کئی منزلیں طے کرنی ہوتی ہیں، شکار پر مسلسل نظر رکھنی ہوتی ہے، پسینہ بہانے کے بعد ہی ہدف تک پہنچا جاتا ہے۔ محنت مردار تک پہنچنے کے لئے بھی کرنی پڑتی ہے، لیکن اپنا شکار خود کرنے اور کسی کے مارے ہوئے شکار کے باقیات کو نوچنے یا مردار کا سڑا گلا گوشت نوچنے والوں کے لئے الگ الگ نام دیے جاتے ہیں۔
قوموں کی زندگی بھی اسی فلسفہ سے عبارت ہے، انھیں یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ سماج کی خدمت، معاشرہ کی تشکیل و تعمیر میں اپنا رول ادا کرنا چاہتی ہیں یا اس پر بوجھ بن کر رسوائی کا سامان پیدا کریں گی، وہ دینے والی بنیں گی یا صرف لینے کا حق استعمال کریں گی، اپنے فرائض کو ادا کریں گی یا صرف حقوق کا واویلا کریں گی، سر اٹھاکر اپنی شرطوں پر جئیں گی یا صرف نوحہ گیری، سینہ کوبی اور ماتم کو اپنا شعار بنائیں گی۔ اپنی کمزوری، محرومی اور حق تلفی کا قصوروار دوسروں کو قرار دے کر خود کو بے گناہ، پاکدامن اور بے قصور سمجھنے کی خودفریبی میں مبتلا رہیں گی یا اپنی ذمہ داریاں دوسروں کی گردن پر ڈال کر راہ فرار اختیار کریں گی یا خوداحتسابی کے ساتھ اپنا جائزہ لینے کی جرأت کو زیور بنائیں گی۔ کل ملاکر اپنا شمار خود شکار کرنے والوں میں کرائیں گی یا کسی کے مارے ہوئے چھوڑے ہوئے شکار کو نوچنے والوں میں ہندوستانی سیاست ان دنوں تیزی کے ساتھ کروٹیں بدل رہی ہے، یہ شناخت مشکل تر ہوگئی ہے کہ کون اپنا ہے کون پرایا، اس لئے کہ رنگ ڈھنگ کچھ اور ہی ہوتے جارہے ہیں۔ گزشتہ نوے سال کی کوششیں ناآسودہ خوابوں کی تعبیر بن کر سامنے آنا چاہتی ہیں، یعنی آر ایس ایس کی مانجھی جیسی محنت نے سیکولرازم اور جمہوریت کی پتھریلی زمین پر راشٹرواد اور ہندوتو کی سڑک بنادی ہے کہ اب کوئی اور راستہ بظاہر بچتا نظر نہیں آرہا ہے۔ پہلے سیکولرازم کا ڈھونگ اور نمائش تو تھی، شیر کی کھال سب اوڑھے ہوئے تھے، بھلے ہی اندر سے ہندوتو وادی رہے ہوں، لیکن اب اصلی و نقلی ہندو بننے کا شور اس قدر ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مندروں کے پھیرے، کیلاش مانسروور کی یاترا، ماتھے پر بڑا سا تلک، شیوبھکتی کے اسلحوں کے ساتھ رام بھکتی، ہندوتو وادی فکر کا مقابلہ کرنے کا جنون سیکولر اقدار و روایات کو کہیں دور چھوڑ آیا ہے۔ اس شور میں اصل مسائل تو دب ہی گئے ہیں۔ اقلیتیں جس کا مطلب صرف مسلمان ہے، پاؤں تلے بے دردی سے روندی جارہی ہیں، سیاسی پارٹیاں ان کو چمٹے سے بھی چھونا پسند نہیں کرتیں۔ بی جے پی اور اس کے قبیلہ کی دیگر پارٹیاں گھیرکر اسی باڑے میں لانا چاہتی ہیں اور سیاسی حریفوں کو مجبور کردیتی ہیں کہ وہ اس معاملہ پر بول کر دکھائیں تو ان کی اقلیت نوازی کا ڈھول پیٹا جائے اور خاموش رہیں تو اقلیت نوازی کے ڈرامہ کی پول کھولی جائے۔ احتیاط کا یہ عالم ہے کہ کانگریس نے اپنے کیڈر کو صاف ہدایت دی ہے کہ وہ اپنی تقریروں میں لفظ مسلمان کہنے سے گریز کریں، اس کی جگہ اقلیت کا لفظ استعمال کریں، مسلم مسائل پر نہ بولیں۔ یہ اس پارٹی کا حال ہے جس کے نصیبن بدنام ہوئی اپنے مقدر کی گائے کو دہائیوں تک اس کے کھونٹے سے باندھ دیا اور اب بھی اس کے لطف و عنایات، جود و کرم اور بخششوں کے ممنون احسان ہیں۔ حالات کتنے ہی بدتر کیوں نہ ہوگئے، مجال ہے کہ اس کے حکم سے سرتابی کا خیال بھی ذہن میں آیا ہو، اس ذہنی غلامی نے بخششوں پر زندگی گزارنے کا عادی بنادیا۔ محنتی، جنگجو قوم کو اپاہج، بھکاری، گند ذہن اور عنایات کا مریض کردیا، یہی وجہ ہے کہ ہم کروٹ لینے اور پہلو بدلنے کے بھی تیار نہیں ہیں۔ بستر پر پڑے مریض کو کروٹ نہ دلائی جائے اور وہ مسلسل ایک پوزیشن سے لیٹا رہے تو اس جگہ زخم ہوجاتے ہیں جو پھوڑے بن جاتے ہیں۔ سیاسی نقطہ نظر سے ایک پہلو سے لیٹے لیٹے ہمارے جسم میں بھی زخم ہوگئے ہیں۔ اصلی نقلی ہندو کے جنونی مقابلہ نے راشٹرواد اور ہندوتو کو ترجیجی ایجنڈا بنادیا ہے۔ راشٹرواد اور ہندو راشٹر کے علم برداروں نے بڑی بڑی قربانیاں دیں، حالات کے اعتبار سے رویوں میں تبدیلی کی سیاسی بیساکھی ضرورت ہوئی تو جنتا پارٹی میں ضم ہوگئے، موقع ملا تو جنتادل کے شانہ بشانہ انتخابات میں حصہ لیا اور وی پی سنگھ سرکار کو حمایت دے کر سیاسی میدان کو اپنے لئے مزید وسیع کیا۔ کمنڈل نے ہندوتو پر چرکا لگایا تو منڈل لے کر نکل پڑے، گاندھیائی سوشلزم کا چولا پہننے سے بھی گریز نہیں کیا اور جب حالات موافق ہوتے گئے تو پھر اصل ایجنڈے کو سرکاری سرپرستی میں مشتہر کرنے اور نافذ کرنے میں سرعت کا مظاہرہ کیا، چنانچہ آج راشٹرپتی بھون سے لے کر پی ایم او اور وزیر سے لے کر چپراسی تک اثر و نفوذ ہے، ہر اہم عہدے پر نظریاتی لوگوں کو بٹھادیا اور ملک کا سرمور بنا سیکولرازم ستر سال تک گول گول آنکھیں مٹکاکر حکمرانی کرتا رہا ہے۔ بڑے سلیقہ کے ساتھ لپیٹ کر رکھ دیا کہ اب ہر پارٹی ہندو وادی کہنے کی دوڑ میں شامل ہونے پر مجبور کردی گئی ہے۔ اکھلیش یادو نے اپنے کارکنوں کو سخت ہدایت دے رکھی ہے کہ وہ ان کی کوئی ایسی تصویر استعمال نہ کریں جس میں ٹوپی یا رومال ہو۔ ہر سال تزک و احتشام سے افطار پارٹی کرانے والی سماجوادی پارٹی نے اس سال افطار سے گریز کیا تھا، حالانکہ مسلمان خود ٹوپی، رومال، افطار پارٹی جس ڈھونگی سیاست سے بیزار تھا، بی جے پی نے یہ ضرور کیا اور اچھا کیا کہ اس نے ڈھونگی سیاست کو بے نقاب کردیا، گرچہ اس میں بدنیتی کو دخل تھا، لیکن بے وقوف بنانے کی تمام علامتوں کو ختم کرنے پر مجبور کردیا۔ حج سبسڈی بھی اس سیاست کا حصہ تھی، جس کا مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں تھا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندو راشٹر اور ہندوتو پر یقین رکھنے والے اپنے رویوں اور جذبوں کے تئیں سو فیصد مخلص رہے، ان کے ہدف میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں۔ ہاں حالات کے اعتبار سے سکڑتے سمٹتے اور پھیلتے گئے۔ انھوں نے کئی نسلیں تیار کردیں، دوسری طرف سیکولر اقدار پر یقین رکھنے والے اپنے رویوں میں کبھی مخلص نہیں رہے۔ انھوں نے ہر گام پر منافقت، ڈھونگ اور نمائش عیاری و مکاری کا مظاہرہ کیا۔ اقتدار کے لئے ہر کھیل جائز مانا، ضرورت ہوئی تو فرقہ پرستوں سے ہاتھ ملالیا، انھیں اپنے ساتھ شریک کرلیا۔ جے پرکاش نرائن سے لے کر وی پی سنگھ اور ملائم و نتیش کمار مکروہ گھناؤنی تاریخ ہے، اب اژدہا ان سانپوں کو نگل رہا ہے تو قیامت سی مچی ہے۔ ہندوتو اور سیکولرازم کے درمیان موٹی لکیر تھی جو دھیرے دھیرے چھوٹی ہوتی گئی اور اب تقریباً مٹ گئی ہے۔ ہاں ہندوستانی عوام کی اکثریت آج بھی تنوع پسند ہے، کثرت میں وحدت پر یقین رکھتی ہے اور ملک کی اس خوبی کو ضائع ہونے دینا نہیں چاہتی، مگر وہ خاموش طبع اور ڈرپوک ہے۔ اس کو موب لنچنگ جیسی وارداتوں سے ڈرایا جارہا ہے تاکہ وہ زبان نہ کھولے، ملک کی وزیر دفاع جے این یو کو ایسی طاقتوں کا گڑھ بتاتی ہیں جو ملک کے خلاف سازش کرتی ہیں، اربن نکسلزم عام شہریوں کے لئے دہشت کا نیا حربہ ہے کہ اپنی زبان خاموش رکھیں، سرکار اور حکمراں پارٹی کے خلاف بولنا بھی دیش دروہ کی فہرست میں داخل کرلیا گیا ہے، اب یہ خاموش زبان 2019 میں کھلتی ہے یا نہیں دیکھنا ہوگا۔
جہاں تک ہمارا تعلق ہے 2019 کا کوئی خاکہ اور لائحۂ عمل ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ ہر طرف خاموشی اور پرہول سناٹا ہے، البتہ اپنا سر پھوڑنے، دست و گریباں سے شغل جاری ہے۔ جہاں پناہ کو خواب دیکھنے اور بستر پر سامان استراحت کی عادت ہوگئی ہے۔ این آر سی، طلاق، حلالہ، تعدد ازدواج اور اب طلاق آرڈیننس ہماری جان لینے کے لئے کافی ہیں۔ این آر سی جو قومی ایشو ہے، اس کو مسلم ایشو بنانے کی دعوت بھی ہم نے دے ڈالی ہے۔ شریعت میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے، کامن سول کوڈ ہماری لاشوں پر بنے گا، جیسے جذباتی نعروں کی قلعی کھل رہی ہے۔ وہ سب کچھ ہورہا ہے جس کو برداشت نہ کرنے کی دھمکیاں دیتے آئے ہیں اور ہم کچھ نہیں کرپارہے ہیں، کیونکہ سیاسی طاقت صفر ہوگئی ہے، ووٹ کو زیرو کردیا گیا ہے، اب ہمارے ووٹ کی کسی کو ضرورت نہیں رہی۔ ہم حالات کے اعتبار سے سیاسی موقف میں لچک نہیں لاسکے، یہی ساری بیماری کی جڑ ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ کچھ بھی ہوجائے تھوڑا سا شور مچے گا، جیسے ایک مرغی نکالنے پر دربے کی دیگر مرغیاں کڑکڑاتی ہیں، پھر سناٹا چھا جاتا ہے، شام تک دربہ خالی ہوجاتا ہے۔ ایک سازش کے ساتھ سیاست میں حصہ داری کم کی گئی، پھر اقتدار میں حصہ داری میں کٹوتی ہوئی۔ ہماری قیادت کے ایک حصہ کی کچھ خواہشات کی ضروریات کا ضرور خیال رکھا گیا تاکہ وہ شور نہ مچائیں، ہم ادھر سے ادھر بکتے رہے، بولی لگتی رہی، خریدار بدلتے گئے۔ جب برادران یوسف ہوں تو بے چارا یوسف کیا کرے۔ جب دلتوں کے ساتھ ہاتھ ملانے کا وقت تھا، ہم کف لگے کپڑے کی طرح اکڑے رہے کہ اب چماروں کے ساتھ بیٹھیں گے، اب وہ اتنے طاقتور ہوگئے ہیں کہ برابر بٹھانے کی بجائے ان کو اقتدار تک پہنچانے کا مطالبہ مسلمانوں سے کررہے ہیں۔
مولانا آزاد، اللہ بھلا کرے، آزادی کے بعد عقاب سے گدھ بننے کی تلقین کرگئے تھے۔ اس وقت وہ حکمت عملی درست اور مطلوب تھی، لیکن پانی کی موجودگی میں تیمم کالعدم ہوجاتا ہے۔ آنحضورؐ کی مکی و مدنی زندگی حکمت عملی کی تبدیلی کے لئے رہنمائی کرتی ہے۔ جہاں پناہ اس بنیادی غلطی کو سدھار لیجئے، مسائل کی گتھی سلجھتی جائے گی۔ ذرا سوچئے، سب نوچنے کے لئے تیار، نہ اقتدار، نہ اختیار، نہ حصے داری، کب تک کریے گا انتظار اور دوسروں پر انحصار۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں