ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
گزشتہ ہفتے دہلی پولس کی اسپیشل ٹیم نے دہلی کے جمناپار علاقے سے دس مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیاجب کہ تین مسلم نوجوان دیوبند سے گرفتار کیے اوریہ دعویٰ کیاکہ ان سب لوگوں کا تعلق جیش محمدسے ہے اوراین آئی اے سے ملی رپورٹ کے مطابق یہ لوگ دہلی میں کوئی بڑی واردات انجام دینے والے تھے ۔چار دن کی حراست اورسخت پوچھ تاچھ کے بعد ان میں سے دس لڑکوں کو پولس نے یہ کہہ کر رہاکردیاکہ ان کے خلاف کوئی وافر ثبوت نہیں ملے لیکن ان سے پوچھ تاچھ کا سلسلہ جاری رہے گاجب کہ تین لڑکوں کو عدالت میں پیش کرکے ان سے مزید پوچھ تاچھ کے لیے پولس حراست میں ابھی تک رکھاگیاہے اوران پر ملک سے غداری اوربغاوت کے الزامات لگائے گئے ہیں۔کہاجارہاہے کہ ان میں سے ایک اظہر مسعود کے بھائی طلحہ سے ملاتھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق جیش محمد سے تو نہیں البتہ تبلیغی جماعت سے ضرور ہے۔ حسب معمول جب ان لڑکوں کو گرفتار کیاگیاتو ہمارے قومی میڈیامیں ایک طوفان مچ گیااورطرح طرح کی باتیں اورالزامات بلاثبوت ان کے اوپر چسپاں کردیے گئے ،گویاملک کے سب سے بڑے دشمن یہی لوگ تھے لیکن چار دن کے بعد جب یہ لڑکے رہاہوگئے تب ایک بار پھر حسب معمول اسی میڈیاکو سانپ سونگھ گیا۔ظاہر ہے کہ دہشت گردی کے نام پر فرقہ وارانہ منافرت پیداکرنے کا ہدف ہمارامیڈیاہمیشہ ہی حاصل کرلیتاہے ۔
حیرت کی بات ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے نام پر آج تک ہزاروں لڑکوں کو گرفتار کیاجاچکاہے ،ان میں سے سینکڑوں لڑکے ایک طویل مدت جیل میں گزارنے کے بعد باعزت بری بھی کردیے گئے ہیں ۔اپنی عمر کے بہترین ایام جیل میں گزارنے کے بعد یہ لوگ جب رہاہوتے ہیں تو ان کے اوپر ایک سماجی دباؤ ہوتاہے جس کے تحت ان کا کیریئرچوپٹ ہوجاتاہے ۔رشتے ،کنبے دار ،دوست احباب ،گاؤں محلے والے سب کی بے اعتنائی جھیلنی پڑتی ہے ۔نوکری دینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا،اورپرائیوٹ جاب بھی مشکل سے ملتاہے ۔ایسے میں پوراخاندان تباہی کا شکار ہوجاتاہے اوریہ لڑکے اپنی ذات میں شرمندہ شرمندہ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔حکومت کی جانب سے ان بے قصور لڑکوں کا کیریئر تباہ کرنے پر نہ کوئی اظہار ندامت ہوتاہے اورنہ سرمشاری اورنہ ان کی بازآبادکاری کی کوئی کوشش،ہر جانب سے بے یارومددگار یہ لوگ کسی صورت بس پیٹ بھرنے بھر کی جدوجہد کرپاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیاسیکولرجمہوریہ کا قانون ان کے لیے انصاف کا کوئی پیرایہ نہیں رکھتا؟ہماراقانون جو دنیاکا بہترین قانون کہلایاجاتاہے اورجس کے انصاف کے ڈنکے ہر چہار جانب بجتے ہیں ،اس قانون کے پاس ان لڑکوں کے لیے انصاف کا کیاکوئی معیار مقررنہیں ہے ۔ابھی گزشتہ ماہ مالیگاؤں بم بلاسٹ کے سلسلے میں ۹؍لڑکوں کو مہاراشٹر کی ذیلی عدالت نے ۸؍سال کے بعد بری کیاہے ۔یہ بات پہلے سے معلوم تھی کہ اس بلاسٹ میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھابلکہ آرایس ایس سے وابستہ ابھینوبھارت اوردیگر تنظیموں کے اراکین ان میں ملوث تھے ۔اس کے باوجود ایک لمبے عرصے تک ان لوگوں کو جیل میں رکھاگیااوران کا مستقبل تباہ کردیاگیا۔آج یہ لڑکے ،ان کے اہل خاندان اورپوری مسلم امت سوال کناں ہے کہ ان بے قصوروں کے آٹھ سال کون واپس دے گا۔ہندوستان ٹائمس کو دیے گئے ایک انٹرویونے ان میں سے ایک ملزم ڈاکٹر مخدومی نے بجاطور پر پوچھاہے کہ جن افسران نے ان کو جھوٹے طور پر پھنسایاتھاکیاان کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی اوران لوگوں کی بازآبادکاری کے لیے کیاکوئی سرکاری اقدامات کیے جائیں گے ۔انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ ملک کی خدمت کرناچاہتے ،کیاان کو اس خدمت کا موقع دیاجائے گا۔ایک قدم آگے بڑھ کر مخدومی نے کہاہے کہ انھیں راجیہ سبھاکا رکن نامزد کیاجائے تاکہ وہ پارلیمنٹ کے ممبر کی حیثیت سے ملک وقوم کی خدمت کرسکے۔ظاہر ہے کہ اس قسم کے مطالبات نقار خانے میں طوطی کی صداہی ثابت ہوں گے۔اس سے قبل مکہ مسجد بلاسٹ اورسمجھوتہ بلاسٹ کا بھی یہی حشر ہواتھا۔ان تینوں واقعات میں آرایس ایس سے وابستہ تنظیموں کے افراد کا ملوث ہوناتقریباطے ہوچکاہے اور جلد ہی سپریم کورٹ کے حکم کے بعد این آئی اے ان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے والا ہے۔ لیکن ان واقعات کے فورابعد ان کی ذمہ داری سیمی کے اراکین پر ڈال دی گئی تھی اوراصل مجرمین کی شناخت پر پردہ ڈال دیاگیاتھا۔ وہ تو بھلا ہو ہیمنت کرکرے کا کہ جنہوں نے اپنی جان نچھاور کر کے ان حقیقی دہشت گردوں کو بے نقاب کر دیا وگرنہ مسلمان تو پہلے بھی مطالبہ کرتے آ رہے تھے کہ اس قسم کے واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیق ہونی چاہیئے ۔حیدرآباد کی مکہ مسجد بلاسٹ کے فورابعد اس الزام میں ۷۰؍نوجوانوں کو گرفتار کیاگیاتھااورچند سال بعد جب وہ تمام لڑکے باعزت بری ہوگئے تو سرکار سے معاوضے کی اپیل کی گئی تھی اس کے نتیجے میں اس وقت کی آندھراپردیش سرکار نے فی کس ایک لاکھ روپیہ معاوضہ طے بھی کیاتھا جو ظاہر ہے کہ اتنانامعقول تھا کہ سب نے اسے لینے سے انکار کردیاتھااوریہ واقعہ بھی ہے کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو آٹھ آٹھ دس دس سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل کر بری کردینے کے بعد ایک لاکھ روپیہ کا معاوضہ کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے۔اگر یومیہ آمدنی کے حساب سے بھی دیکھاجائے تو اتنے لمبے عرصے میں یہ معاوضہ اونٹ کے منہ میں زیرے کی حیثیت رکھتاہے ۔
اس قسم کے واقعات ملک کے عوام اورخصوصاامت مسلم ہند کو غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ کیاواقعی طور پر دہشت گردی اس ملک کا مسئلہ ہے ؟یا اس مسئلے کی آڑ میں ملک کی حکمراں جماعتیں کچھ دیگر مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں؟واضح رہے کہ ۲۰۰۴میں یوپی اے کی سرکار کے فورابعد اس قسم کے واقعات میں بہت تیزی آئی ۔یوں تو ۱۹۹۰سے ہی دہشت گردی کے نام پرکچھ نہ کچھ ہوتارہاہے اورگرفتاریاں بھی ہوتی رہی ہیں ۔مسلم تنظیموں پر پابندی بھی لگتی رہی ہے لیکن کبھی بھی حکومت ہند نہ ان واقعات کی مکمل تحقیقات کرانے میں کامیاب ہوسکی ،نہ گرفتار شدگان کو قصوروار ثابت کرنے میں کامیاب ہوسکی اورنہ ملک میں مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں کامیاب ہوسکی۔کسی بھی غیر ملکی دہشت گرد تنظیم سے وابستگی کا کوئی ثبوت آج تک بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے مہیانہیں کیاجاسکا،حتی کہ عبدالکریم ٹنڈا جس پر پاکستانی دہشت گرد ہونے کا الزام تھا،اس کو بھی بالآخر باعزت بری کرناپڑا۔سہراب الدین ،عشرت جہاں اوربٹلہ ہاؤس میں عاطف اورساجد کو انکاؤنٹر کے ذریعے قتل کردیاگیالیکن ان میں سے کسی کو بھی آج تک دہشت گرد نہیں ثابت کیاجاسکا۔ مسلمان نہ صرف یہ کہ عدالتوں میں بری ہوتے رہے بلکہ ملک کی تین بڑی سراغ رساں ایجنسیاںآئی بی،سی بی آئی ،این آئی اے بھی آپس میں ان میں سے کسی کو دہشت گرد ثابت کرنے میں ناکام رہی ہیں اورتینوں ایجنسیوں کی رائے ان کے بارے میں عمومامختلف پائی گئی ہے ۔اس کے باوجود ملک کا میڈیایہ تأثر دینے کی کوشش کرتارہاہے گویااس ملک میں مسلمانوں کے سواکوئی اور دہشت گرد ہے ہی نہیں۔اس تأثر کو تقویت دینے میں ملک کی دوبڑی حکمراں جماعتوں کانگریس اوربی جے پی نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے ۔۲۰۰۲میں ملک کے اس وقت کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ ملک کے سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں لیکن سارے دہشت گرد مسلمان ہی ہیں۔یہ کہتے وقت اڈوانی جی کو نہ نکسل وادی یاد آئے ،نہ ماؤوادی یاد آئے ،نہ شمال مشرقی ریاستوں کے ہتھیار بند قبیلے یاد آئے،نہ پنجاب کی خالصتان تحریک یاد آئی اورنہ تمل ناڈو کی ٹائیگرس فورس یاد آئی۔اسی جھوٹ نے میڈیاکے حوصلے بھی بلند کیے کہ وہ مسلمانوں کو دہشت گرد کی صورت میں پیش کرے۔ایساکرتے وقت میڈیابھی یہ بھول جاتاہے کہ اس قسم کے الزامات میں گرفتارشدہ نوجوانوں کو عدالتوں کو بری کیے جانے کا تناسب آج بھی ۹۸؍فیصد ہے اورجن ۲؍فیصد لوگوں کو سزائیں دی گئی ہیں ان میں بھی عدالتوں میں اپنے فیصلے میں لکھاہے کہ وہ قوم کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کی خاطر سزادے رہی ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ دہشت گردی اس ملک کا اصل مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مفروضہ ہے جس کا استعمال ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دینے کے لیے حکمراں جماعتیں کرتی رہتی ہیں۔
اس بات کو یوں بھی سمجھاجاسکتاہے کہ ابھی گزشتہ دومہینے کے دوران عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر پر ملک میں ایک طویل بحث ہوئی ہے ۔حالانکہ اس بحث کا نہ تو کوئی موقعہ تھا،نہ کوئی محرک تھااورنہ کوئی ضرورت تھی ۔سات سال پرانے وزیرداخلہ کے دوحلف ناموں کو لے کر ایک عبث بحث چھیڑ دی گئی ،جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔اس کے بعد انھیں حلف ناموں میں چدمبر م کے دستخط ہونے کو لے کر ایک بار پھر میڈیامیں بحث کی گئی ،ظاہر ہے اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلناتھا۔ملک کے معروف برقی میڈیاچینلوں پر اس بحث میں میں نے بھی حصہ لیااوربارہایہ مطالبہ کیاکہ اگر واقعی کوئی ثبوت موجود ہیں تو میڈیامیں بحث کرنے کے بجائے حکومت کو کارروائی کرنی چاہیے ۔حکومت کے وہ سابق افسران جنھوں نے اس بحث کو اپنے بیانات کے ذریعہ مہمیز دی تھی ،ان سے بھی بار بار کہاکہ اگر ان پر کوئی دباؤ تھایاانھیں ٹارچر کیاجارہاتھاتو انھیں پولس میں ایف آئی آر درج کرنی چاہیے یا عدالت میں حلف نامہ دیناچاہیے ۔لیکن انھوں نے ایسانہیں کیا۔اسی طرح حکومت کے نمائندے بھی بار بار یہ کہتے رہے کہ ہم کارروائی کریں گے لیکن ظاہر ہے کہ کسی کارروائی کی کوئی توقع نہیں تھی اورکوئی کارروائی کی بھی نہیں گئی ۔ظاہر ہے کہ اس بے موقع بحث کے مقاصد مختلف تھے اورایک بڑامقصد یہ تھاکہ ملک میں بدعنوانی ،گرانی اورحکومت کی ناکامیوں کی جانب سے توجہ ہٹاکر ملک کی داخلی سلامتی کی جانب توجہ مرکوز کردی جائے اوراس بہانے فرقہ وارانہ منافرت میں بھی اضافہ کیاجائے تاکہ کسی بھی انتخاب میں ووٹوں کو تقسیم کیاجاسکے۔ نیز یہ بھی مقصود تھا کہ اس بہانے آرایس ایس کی ذیلی تنظیموں کی جانب سے بپا کی جانے والی دہشت گردی کے ملزمین کو بھی بچایا جا سکے اور ایک بار پھر الزام مسلم نوجوانوں پر عائیدکرنے کا جواز فراہم کیا جا سکے۔ یہ ایک خطرناک عمل ہے جو سراسرملک دشمنی پر مبنی ہے اوراس کے مرتکبین مسلمان نہیں ہیں ،ہندوبھی نہیں ہیں بلکہ اس ملک کی سیاسی جماعتیں ہیں جو محض حکمرانی کی غرض سے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔اس سلسلے میں مزید کچھ بیانات کو ذہن میں رکھناچاہیے۔
جنوری ۲۰۱۳میں کانگریس کے وزیرداخلہ سشیل کمار شنڈے نے ملک میں آرایس ایس اوربی جے پی کے ذریعے کی جانے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی جانب انگشت نمائی کی تو ایک طوفان کھڑاہوگیااورایک ہفتہ کے اندر ان کو اپنابیان واپس لیناپڑا۔حالانکہ آرایس ایس سے وابستہ اراکین اس وقت بھی بم دھماکوں کے الزام میں جیلوں میں موجود تھے ۔اس سے قبل جب عبدالرحمن انتولے نے یہی بات کہی تھی تو انھیں بھی وزارت سے ہاتھ دھوناپڑاتھا۔حال ہی میں غلام نبی آزاد نے جب یہی بات کہی تو انھیں بھی پارلیمنٹ میں جواب دہی کرنی پڑی،حیرت کی بات ہے کہ ایک زندہ وجاوید مسلم الثبوت حقیقت کا اظہار اس ملک کے بڑے سے بڑے آدمی کو بھی مہنگاپڑتاہے اورعوامی حلقوں سے لے کر میڈیاتک ان سچائیوں کے اظہار پر آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں،لیکن جب بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیاجاتاہے تو کسی بڑے سے بڑے لیڈر میں بھی یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ سچ بول سکے،حد یہ ہے کہ مسلم ایم پی اورایم ایل اے تک کو سانپ سونگھ جاتاہے۔دلی میں عام آدمی پارٹی جیسی سیکولر سرکار کے مسلم ایم ایل اے بھی مینڈکوں کی طرح کوئیں میں داخل ہوجاتے ہیں اورٹرٹرانابند کردیتے ہیں۔ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنالائحہ عمل خود طے کریں،ملک کا جمہوری نظام اس سلسلے میں ان کے لیے سب سے زیادہ معاون ثابت ہوسکتاہے۔۲۰۰۸میں بٹلہ ہاؤس فرضی مڈ بھیڑ کے فورابعد اس وقت کے وزیرداخلہ پی چدمبرم سے ایک ملاقات کے دوران میں نے خود یہ مطالبہ کیاتھاکہ باعزت بری لڑکوں کی بازآبادکاری کا ذمہ حکومت ہند خود لے ،ان کو پھنسانے والے پولس افسران کے خلاف کارروائی کرے اورپولس کی ذہنیت کو بدلنے کے لیے ان کی تربیتی اوراصلاحی پروگرام منعقد کرے۔وزیرداخلہ نے وعدہ بھی کیاتھاکہ وہ اس پر عمل کریں گے لیکن جو کچھ عمل ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔۲۰۰۸کے انھیں ایام میں میں نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے مسلمانوں سے یہ اپیل بھی کی تھی کہ ان لڑکوں کو انتخابات کے ذریعے اسمبلی اورپارلیمنٹ میں بھیجاجائے تاکہ ان کے روزگار کا مسئلہ بھی حل ہو،یہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال بھی کرسکے اوران کے خاندانوں پر لگاہواکلنک بھی دھل سکے،نیز امت مسلمہ ہند کو ایک جرأت مند سیاسی قیادت بھی میسر آجائے ۔افسوس کہ اس بات کو ابھی تک سنجیدگی سے نہیں لیاگیا،آج ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرنااس لیے ضروری محسوس ہوتاہے کہ مالیگاؤں بلاسٹ سے باعزت بری ہوئے ایک ملزم ڈاکٹر فروغ مخدومی نے بھی یہی بات کہہ کر میری بات کو تقویت پہنچائی ہے۔انھوں نے راجیہ سبھاجانے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔میں ایک بار پھر یہ اپیل کرتاہوں کہ اگر امت مسلمہ ہند مستقبل میں اپنے بے قصور لڑکوں کو محفوظ رکھناچاہتی ہے تو بری ہوجانے والے ان نوجوانوں کو آزاد امید وار بناکر اسمبلیوں اورپارلیمنٹ کے لیے منتخب کرنے کا سلسلہ شروع کردے،تاکہ بے حس سیاست داں اورمسلمانوں کی دشمن نیز ملک کی دشمن طاقتیں یہ سمجھ لیں کہ جن لڑکوں کو نشانہ بناکر وہ ملک میں بدامنی اورعلیحدگی کی فضاقائم کرناچاہتی ہیں ،ان کی امت ان کو ہیروبناکر ان ناپاک عزائم کو ناکام کردے گی۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں )