بزدل سماج کے بڑھتے چیلنج

قاسم سید
اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی اشتعال انگریز تقریر سے فساد بھڑکنے سے متعلق معاملہ میں عدالتی لڑائی لڑنے والے 64 سالہ سماجی کارکن پرویز پرواز کو گورکھپور پولیس نے 25ستمبر کو دیر رات گرفتار کرلیا ۔اسی سال 4جون کو درج کرائے کئے گینگ ریپ معاملہ میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ یہ کیس ماضی میں ہوئی تفتیش میں فرضی پایا گیا تھا اور کلوز رپورٹ عدالت میں داخل کردی گئی تھی ،اس کو مسترد کرکے دوبارہ تفتیش کرائی گئی اور مطلوبہ ثبوت ملتے ہی پولیس نے گرفتار کرلیا ،اس سے قبل ڈاکٹر کفیل کو بھی سات سال پرانے ایک معاملہ میں پکڑ کر جیل بھیج دیا گیا ہے یہ چھوٹی سی علاقائی خبر ہے ،مگر اس کے مضمرات پر غور کیا جانا چاہئے ۔
ملک کے طاقتور ترین دو لیڈروں میں سے ایک امت شاہ کی دلیل ہے کہ ہمیں واضح اکثریت حاصل ہے اس لئے سوالوں کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں۔راجستھان میں بی جے پی کے سوشل میڈیا ونگ سے وابستہ کارکنوں سے خطاب میں وہ نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا پر ایکٹیو رہیں خبر صحیح ہو یا غلط اسے خوب پھیلائیں صرف یوپی میں بی جے پی کے 32لاکھ رضا کار واٹس ایپ پر سرگرم ہیں جس نے اکھلیش یادو کے ذریعہ ملائم سنگھ کو چانٹا مارنے کی جھوٹی اور فرضی خبر سے پورے ملک میں سنسنی پھیلا دی ، اس فیک نیوز کے پس پشت ذہنیت اور مقصد پر گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں ،انہوں نے ایک جگہ یہ بھی کہا کہ ہم اخلاق کے قتل کے بعد بھی اقتدار میں آگئے ۔کیا اس دلیل پر کچھ کیا جاسکتا ہے شاید یہ ملک کے اندر موب لنچنگ کے بڑھتے واقعات پرہونے والی تنقیدوں کا جواب ہے ۔گزشتہ چند دنوں کے یہ بیانات اور واقعات اس سوال کا جواب ہیں جو مختلف حلقوں سے کیا جاتاہے کہ آخر چار سالوں میں ایسا کیا ہوا ہے کہ جو ماضی میں نہیں ہوا۔کانگریس کے دور حکومت میں ایمرجنسی نافذ ہوئی عوام کے بنیادی حقوق چھین لئے گئے ۔آئین کی بے حرمتی ہوئی ،عدلیہ کو پامال کیا گیا ،بھیانک ترین فسادات ہوئے ،بابری مسجد مسمار کردی گئی ،گولڈن ٹمپل پر فوج کشی ہوئی ۔نیلی اور ہاشم پورہ اس دور کے قتل عام کی مثال ہیں۔ مسلم نوجوانوں کی اندھا دھند گرفتاریوں کی ناپاک مہم اس عہد کی ظالمانہ و جابرانہ ذہنیت کی عکاسی ہے جبکہ بی جے پی کے چار سالہ دور میں کوئی بڑا فساد نہیں ہوا۔ دہشت گردی کے الزام میں گرفتاریوں کا اوسط بھی کم رہا ۔سرکاری نوکریوں میں مسلم فیصد میں ماضی کے مقابلہ اضافہ ہی ہوا ۔موب لنچنگ کے واقعات ضرور بڑھے لیکن پہلے بھی ہوتے رہےہیں تو پھر وہ کونسی کسوٹی یا پیمانہ ہے جس کی بنیاد پر رواداری ، جمہوری اقدار ، آئینی ادارے، میڈیا ،شخصی آزادی ،پرائیویسی کو خطرات ہیں اور یہاں تک کہا جانے لگا کہ 2019 میں بی جے پی اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی تو یہ آخری عام انتخابات ثابت ہو سکتے ہیں ۔اقلیتوں، دلتوں قبائلیوں اور دیگر کمزور طبقات کو گولوالکر کی رہنما ہدایات اور منو شاستر کے مطابق سلوک کے حقدرا ہوں گے ۔ بھارت ہندو راشٹر جوآزادی کے بعد عملاً اعلان شدہ ہو جائے گا ۔کیا یہ محض واہمہ ہے ،خدشات کا پرتشدد اظہار ہے ،منفی ذہنیت اور پروپیگنڈہ ہے ، مایوسی و ناامیدی کا نقطہ عروج ہے یا پھر واقعی کچھ ایسی تبدیلی تیزی کے ساتھ رونما ہوئی ہے جس نے ملک کے دروبام ہلا دیے ،اس کی تنوع کی خصوصیت اور رنگا رنگ جذبہ کو زخمی کردیا ہے اور سمت سفر بدلنے کی کوشش کی ہے کہ عام آدمی سے لے کر سیاسی پارٹیاں اور میڈیا سب گونگے ہو گئے ، سب کی زبانوں کو لقوہ مار گیا، میڈیا اپنا فرض بھول کر غلامی و خوشامدی کی نئی تعبیر یں وتفسیریں تخلیق کرنے لگا، اقتدار کے حضور سر بسجود ہوگیا یہاں تک کہ مسلم حلقوں میں مصلحت اور رخصت کی شریعت زیادہ مقبول ہوگئی ،جن پر قیادت و سیادت کی ذمہ داری ہے اپنے اپنے خول میں سمٹ گئے ،شریعت پر معمولی گزند سڑکوں پرلے آتی تھی اب قانون و عدالتی فیصلوں کے احترام کی تلقین ان کے خطبات کا بنیادی عنصر بن گئی ۔سوال یہی ہے کہ کیا سماج کی رہنمائی کرنے والے عناصر ترکیبی نے بزدل انڈیا بنانے کے لئے اپنی جنس تبدیل کرلی ہے ۔
اس پورے معاملہ کو ایک اور طریقہ سے دیکھتے ہیں ۔ مذکورہ خبروں اور واقعات میں گزشتہ چار سال کی کارکردگی اور بدلتے بھارت کی گونج سنائی دے رہی ہے ،ان کے لب و لہجہ میں رعونت ، فرعونیت ، سفاکیت ، بہمیت ، دھمکی ، انتقام ،آنکھیں ملانے کی جرأت پر سبق ،موب لنچنگ کی پشت پناہی ،نوجوانوں کو تشدد کی ترغیب، آئینی اداروں کی تنزلی ،سوشل میڈیا کے جائز و ناجائز استعمال کی بھر پور حمایت ، ٹرول کرنے کی حوصلہ افزائی ،کردارکشی اور سوال وجواب کرنے والوں کے سر قلم کرنے کی روایت کا احیا جمہوریت کے بدلتے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ،ان اقدامات و بیانات سے لازما ڈر اور خوف کاماحول پیدا ہوتا ہے گھر سے نکلنے ،کچھ لکھنے اور بولنے کی دھمکیوں کے درمیاں ایسے مائی کے لال کہاں ہوں گے جوجرأت گفتار کامظاہرہ کریں ،قلم کی حرمت کےلئے خود کو بھول جائیں جو ایسا کریں گے وہ دابھولکر ، پنسارے ،گوری لنکیش ،پنیہ پرسون واجپئی اور ابھیسار شرمابنا دیے جائیں، چند کوے مارکرلٹکادینے سے اس کی پوری مخلوق خاموش تماشائی بن جاتی ہے ۔میرٹھ پولیس کے بہادر جوان ایک ہندو لڑکی کو جو ایک مسلم لڑکے سے پڑھنے آتی ہے لو جہاد کا جامہ پہنا کراسے تھانے لاتے ہیں راستے بھر اس کی ہندو ئیت پر طنز کرتے ہیں ایک ملا سے دوستی پر شرم دلاتے ہیں خاتون کانسٹبل اس حرکت پر ہندو لڑکی کو تھپڑ مارتی ہے اس کا اسکارف اتار لیتی ہے اور لڑکے کےخلاف ریپ کا مقدمہ لکھوانے پر زور ڈالا جاتا ہے ۔ یوگی کی پولیس کی’ فرض شناسی‘ بتاتی ہے امن وقانون نافذ کرنے والے کس حد تک قانون کے وفادار ہیں اور کہیں فرقہ وارانہ تشدد کی صورت میں ان کا رویہ کیا ہوسکتا ہے ۔ یہی نہیں ملک کے سب سے باوقار ادارے فوج کو راشٹر واد کی نئی تعریف کے سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش ان چار سالوں میں کی گئی سب سے خطرناک کوشش ہے ،جو فوج پر تنقید کرے وہ راشٹر دروہی ہے ۔کل کو سپریم کورٹ بھی خدا نخواستہ اس زد میں آسکتا ہے جو وقتا فوقتا قانون شکنی کے مرتکب فوجی جوانوں کے خلاف کارروائی اور تفتیش کا حکم دیتا ہے ،فوج کو قانون سے بالاتر مقدس گائے بنانے کامطلب بہت واضح ہے ،فسطائیت کے راون کی طرح بہت سے سر ہوتے ہیں وہ ہمیشہ جب الوطنی یا راشٹر واد کے ترانے بجاتے ہوئے سیاست کاحصہ بنتی ہے ۔ رفتہ رفتہ حکمرانوں کی مخالفت اور حکمراں جماعت کی مخالفت کو بھی حب الوطنی کے برخلاف بتایا جاتا ہے یعنی ان پر تنقید و راشٹر دروہ کا درجہ حاصل کرلیتی ہے اور ملک کا دشمن ملک کے اندر تخلیق کرلیا جاتا ہے ۔ پہلے عام آدمی کو چھوٹے چھوٹے بہانوں سے سڑکوں پر پیٹا جاتا ہے ،ان کے کپڑے اتارے جاتے ہیں پھر مفکرین نشانے پر آتے ہیں انہیں فکری دہشت گرد کہہ کر حوالہ زنداں کیا جاتاہے پھر سیاسی پارٹیوں پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے ان کو ملک دشمن اور دشمن ملکوں ایجینٹ کہہ کر عوام میں بدنام کرنے کی کوشش ہوتی ہے ۔
رہا میڈیا کا سوال جو جمہوریت کے چار ستونوں میں سے ایک ہے ایک ہاتھ میں شاخ زیتون دوسرے میں بندوق دکھاکر اس کے پاؤں میں وفاداری کی زنجیر ڈال دی جاتی ہے ، خیریت چاہنے کی صورت میں جاں بخشی ہوجاتی ہے اس کے عوض میں صبح و شام حکمرانوں کے تلوے چاٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے ، آواز اٹھانے یا سرکشی کامظاہرہ کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے یعنی ڈر اور خوف کے ماحول میں جمہوریت ، عدلیہ ، میڈیا ، عوام سب کتھک کرتےہیں ۔راشٹر واد کی تھاپ پر کمر ہلائی جاتی ہے تو کیاگزشتہ چا سالوں میں ملک کی تصویر میں یہی رنگ نہیں بھرے گئے ہیں معصوم کو معتوب ، ظالم کو مظلوم اور حکمرانوں کو قابل پرستش بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ۔انتقامی سیاست سے عبارت یہ چار سال ہزاروں سال کے متنوع بھارت ،کثرت میں وحدت والے بھارت کو بزدل بھارت بنانے میں گذر گئے ہیں ۔جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن نہیں ملک کادشمن ہے کی جگالی تیز تر ہو گئی ہے ۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ بھی اس صورت حال سے متاثر ہیں مسلم جماعتیں اور ادارے بھی اپنا وجود بچانے کی جدو جہد میں مصروف ہیں ،سب کو اپنے اپنے وجود کی پڑی ہے ۔ تصور کریں طلاق پر سپریم کورٹ کا فیصلہ کانگریس کے دور میں ہوتا تو کیا یہی رد عمل ہوتا ۔ عدالت کےفیصلوں کو سر آنکھوں پر بٹھانے کی تلقین کی جاتی ۔حالات کی جبریت اور سفاکیت اس مقام تک لے آئی ۔تو اس سے نکلنے کے لئے ہمیں انتظار کرناچاہئے کیونکہ ہم مظلوم ہیں کچھ نہیں کرسکتے ۔کیا مظلوم ہونے کی نفسیاتی بیماری ہمیں ہلاکت کی طرف نہیں لے جارہی ہے ۔کثرت میں وحدت کا تصور بچانے والوں کےلئے زندگی کے ساتھ زمین بھی تنگ کردی گئی ہے ۔ باوجود اس کے کہ ہندوستان دنیا کے تمام ممالک حضوصا مسلم ملکوں کے مقابلہ آج بھی زیادہ جمہوری، زیادہ آزاد اور حقوق کے معاملہ میں فراخ دل ہے اس کی شناخت کو بدلنے کی کوشش کی مزاحمت کرناہماری آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے ۔عافیت کے گوشے تلاش کرنا ، جائے پناہ ڈھونڈنا اور احتجاجی تحریکوں سے الگ رکھنے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔ خود کو نواب ،محترم اور حضور سمجھنے کی عادت نے پہلے بھی نقصان پہنچایا تھا آج بھی پہنچا رہی ہے ۔ملک دوراہے پرکھڑا ہے اس کو بچانے میں چوک گئے تو سب سے زیادہ خسارے میں ہم ہی رہیں گے ۔آنے والے چند ماہ اس ملک کے مقدر کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور ہمیں اپنا رول طے کرنا ہی ہوگا ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں