فکری و نظریاتی منافقت کے نئے پڑاؤ

قاسم سید  

سیاست بھی کیا تماشے کرتی ہے کہ عقل دنگ رہ جائے کہتے ہیں کہ اس کے سینہ میں دل نہیں ہے اس لئے بے رحم ہوتی ہے اپنوں کو پرایا اور غیروں کو اپنا بنانے سے گریز نہیں کرتی ۔یہ وہ ناگن ہے جو اپنے بچوں کو بھی کھا جائے ،یہ فطرت میں عبداللہ ابن ابی اور عمل میں ابو لہب و ابو جہل ہے ،شرم وحیا ، غیرت ، اصول ، قانون ، دستور، آئین ، روایات اخلاقیات ، اقدار کے لباس بوقت ضرورت پہنے اور اتارے جاتے ہیں ۔ ہندوستانی عجائب خانہ کا سب سے خاص عجوبہ سیکولرزم ہے یہ وہ جناتی ٹوپی ہے جو ہر کسی کے سر پر فٹ بیٹھتی ہے ۔ کل جو فرقہ پرست اور فسطائی تھا وہ سیکولر قرار دے دیا جاتا ہے اور جس کے سیکولر ہونے کی قسم کھائی جاتی ہے وہ فرقہ پرست اور فسطائی ہو جاتا ہے ۔ یہ لیکر تقریبا مٹ سی گئی ہے صرف ایشو ہی نہیں بدل رہے ہیں سیاسی پارٹیوں کے نظریات اور طرز عمل میں بھی حیرت انگیز تبدیلی آرہی ہے جس کو بہر کیف محسوس کیا جانا چاہئے اگر اس میں لمحات کی بھی تاخیر ہوئی تو صدیوں تک لمحات کی خطا بھگتنی پڑے گی کیونکہ آنے والے وقت میں ملک کی تقدیر اور مستقبل اس فکری و نظریاتی تبدیلی کے زیر نگیں ہوگا ۔ یقینی طور پر ہماری قیادت کی اس پر گہری نظر ہوگی کیونکہ ہر سیاسی ٹرین اتنی تیزی کے ساتھ پٹریاں بدل رہی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس منزل کی راہی ہیں ،ایک بات اور ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ موجودہ تناظر میں سب سے زیادہ فائدے میں دلت طبقہ نظر آرہا ہے اور سب سے زیادہ خسارے میں مسلمان ۔ووٹ کے شیئر مارکیٹ میں ان کی بولی لگانے والا کوئی نہیں ہے البتہ ایک کےساتھ ایک مفت کابھاؤ ضرور ہے ۔

گزشتہ دنوں میں کچھ اہم واقعات ہوئے جو کہنے کو انتخابی اچھال سے تعلق رکھتے ہیں مگر اثرات کے اعتبار سے دور رس نتائج کے حامل ہیں۔ان پر مسکرانے جذباتی تبصرہ کرنےکی بجائے گہرائی سے غور و فکر کرنے پر اپنا مقام اور موقف طے کرنے میں آسانی ہوگی ،مان سروور میں راہل ، اندور کی بوہرہ مسجد میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حاضری ، مسلمانوں کے بغیر ہندوتو کا تصور ناممکن والا بھاگوت کا بیان اور جنتا دل یو کے وزیر کا ایک جلسہ میں ٹوپی پہننے سے انکار یعنی جتنے بھی کردار ہیں ان کا عمل حیرت انگیز اور ناقابل یقین ہے ۔ یہ ان کی زمین سے مطابقت رکھنے والا تو ہرگز نہیں یہ سب کچھ انہونا اور تصور اتی نہیں ہے تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ اقتدار و سیاست کی مجبوریاں و نیرنگیاں لباس اور پوزیشن بدلنے پر مجبور کر رہی ہیں ،یہ ہندوتو کے پالن ہار کے دل میں مسلمانوں کی محبت کی کونپل کاپھوٹنا اور سیکولرزم کی آبیاری کرنے والوں کا مندر مندر بھٹکنا ،شیو بھکتی کا دعوی،رام پر بھات پھیری نکالنا ،جنیو نکال کر پہننا اور خاص اقلیت سے دوری بنا کررکھنا ،ٹوپی اور عربی رومال کےسہارے فرقہ وارانہ یکجہتی کا راگ الاپنے والوں کا ٹوپی پہننے سے انکار کردینا اور ٹوپی پہننے والے کا مسجد میں (بوہرہ ہی سہی )حاضری دینا کیا غلطی سے کیا جانے والا عمل ہے یا سوچ سمجھ کر اپنائی گئی حکمت عملی ،کیا سب اپنی پرانی امیج کی قید سے باہر آنا چاہتے ہیں اپنی غلطی سدھارنا چاہتے ہیں یا زور آزمائی کے نئے میدان تلاش کر رہے ہیں ۔ہندوستانی سیاست کے پرانے سانچوں اور کھانچوں میں تیزی کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے جو ہم نے گڑھ رکھے تھے ۔

کیا جمہوری اقتدار کے تراشے گئے بتوں کو نئے آذر مل گئے ہیں کیا نظریاتی برف نئے تقاضوں کے سورج کی حدت سے پگھل رہی ہے ۔کیا یہ منظر قابل قبول ہے کہ آر ایس ایس اور کانگریس کی بھاشا میں زمین آسمان کا فرق آگیا ہے دشمنوں کو دوست اور دوستوں کو دشمن بنانے کی سیاسی حکمت عملی کا لین دین ہو رہا ہے ۔فکر و نظریہ کی لڑائی واقعی دلچسپ ہے ۔سانپ اور نیولا اپنی فطرت بدل رہے ہیں ۔ یقیناً ہندوستانی جمہوریت میں ایک گہری غیر مرئی داخلی قوت ہے جو فکری محوروں کو نئے خیالات سے متصادم کرتی ہے ۔آر ایس ایس نے تین روزہ اجلاس میں ان سوالوں کاجواب رضا کارانہ طور پر دیا جس کو پوچھنے کا موقع کبھی نہیں دیا گیا ،ایک پر اسرار تنظیم جو اس وقت اقتدار کے مرکز پر غالب قوت ہے اپنے دبیز پردے ہٹا رہی ہے۔گولوالکر کے کٹر خیالات سے الگ ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اس کے ذریعہ مستقبل کا بھارت نئے کینوس میں بٹھا رہی ہے کیا یہ مستقبل کے چیلنجوں اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہے یا پھر چھلاوہ ،جلد بازی میں کسی نتیجہ پر پہنچنے کی ضرورت نہیں وقت کا انتظار کرنا چاہئے ۔یہ کہنا کہ ہم اگر مسلمانوں کو قبول نہیں کرتے تو یہ ہندتو نہیں ہندوتو کا مطلب سب کو ہم آہنگ کرنے کی ہندوستانیت ہے ،دائیں بازو کی کٹر فکر کا حادثاتی یو ٹرن ہے ،یعنی جس انتہا پسندی ،نفرت ،تعصب اور خوف کی سیڑھیاں لگا کر رائے سینا ہلز تک کا سفر طے کیا اس پر برقرار رہنے کے لئے ہندوستان کا تنوع پسند مزاج یو ٹرن پر مجبور کر رہا ہے ،کٹر وچار دھارا کے سہارے اونچائیاں پائی جا سکتی ہے لیکن ٹھہرا نہیں جاسکتا جیسے چڑھتا دریا ،سمندری جھاگ عارضی ہوتے ہیں انتہا پسندانہ نظریہ کی جگالی ہندوستان جیسے ملک کو بد ہضمی کا شکار بنا سکتی ہے ۔فسطائیت پر مبنی فکر و نظر یہ کو برداشت ہی نہیں کرسکتا۔کثرت میں وحدت کے علاوہ کوئی نظریہ اور فکر اس کے عناصر ترکیبی سے میل نہیں کھاتی کیا یہ سمجھا جائے کہ مسلمانوں کو غیر ملکی، درانداز سے کہنے اور ہندو سمجھنے پر اصرار کرنے والے اپنا فکری قبلہ و کعبہ بدل رہے ہیں لچک لانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ اہم سوال ہے ۔

دوسری طرف یہ سوچا جا سکتا ہے کہ دہائیوں سے سیکولر زم کا پاٹھ پڑھنے اور پڑھانے والی کانگریس جس کو ہم سب جانتے ہیں ان علامتوں پر فخر کرے گی؟ انہیں اپنائے گی جو کانگریس کے سیکولرزم میں اب تک ظاہری طور پر ممنوع تھیں ۔ راہل کی مندر یاترائیں ،گئو شالائیں بنانے کا وعدہ ،بابری مسجد توڑنے میں مدد کرنے ، اس سے قبل تالہ کھلوانے ،شیلا نیاس کرانے کا کریڈیٹ لینے کا دعوی اس کے سافٹ ہندوتو میں گرم ہندوتو کی گرم آمیزش کا عمل سنگھ کے بدلتے ہندتو کی طرح دلچسپ اور نرالا ہے ۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دوفکری طاقتیں یعنی کانگریس اور سنگھ ہندوستان کو اکثریتی اقلیتوں کا ملک مان کر مستقبل کی سیاست کی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں ۔سنگھ اب یہ مان رہا ہے کہ اکثریت واد کا نظریہ ہزاروں ذاتوں زبانوں ،تہذیبوں والے ملک میں ناقابل عمل ہے ۔اکثریت میں بے شمار اقلتیں ہیں وہیں کانگریس اقلیت نوازی کی فرد جرم سے آزادی حاصل کرنے کے ساتھ اپنے سیکولرزم کو اکثریتی فلسفہ سے جوڑنا چاہتی ہے ،انٹونی رپورٹ کا وائرس کانگریس میں پھیل گیا ہے ۔پوزیشن بدلنے کا یہ کھیل سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے یا اقتدار کی شطرنج میں نئے مہروں کی انٹری ہے ۔ سنگھ اور کانگریس کا ایک دوسرے کی پوزیشن سنبھال لینا کسی نئی ہم آہنگی کی طرف اشارہ تو نہیں کرتا ؟۔ ماضی میں کانگریس نے ہی آر ایس ایس کو پالا ہے اس کو میدان دیا ہے اور بوقت ضرورت استعمال بھی کیا ہے ۔مسلمانوں کو ڈرانے کے لئے آر ایس ایس اور پھر مودی کو تراش خراش کر اتنا بڑا کردیا کہ شیر سے سوار کا اترنا مشکل ہو گیا اب وہ اس کی جان کے درپے ہیں ایک نظریہ اور ہے کہ بی جے پی کے کانگریس مکت نعرے سے اختلاف ،کانگریس کی خدمات کی تعریف بھاگوت کی نئی سیاسی چال تو نہیں ،کیا وہ 2019 کی عبارت کو پڑھ رہے ہیں اور سنگھ کے لئے مراعات کا راستہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں ۔کیا نیو انڈیا کا مطلب یہی ہے اور اس میں مسلمان کہاں فٹ ہوں گےاور کانگریس سافٹ ہندوتو میں ان کی جگہ کہاں ہوگی ان کے ووٹ کی بے قدری اور بڑھے گی ؟ان کے دائرے کو محدود کردیا جائے گا ۔؟ان کے لئے ڈیٹینشن ہاؤس بنائیں گے یا جمہوری ثمرات سے ماضی کی طرح بھر پور استفادہ کے مواقع ملیں گے؟ اس وقت سیاسی پارٹیاں بھی اتنی کنفیوژ نہیں جتنے خود مسلمان اور ان کی قیادت۔ ہر محاذ پر مکمل پر اسرار خاموشی یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ جذباتی ایشوز پر ہلچل مچانے ،شور وغوغا کرنے کے علاوہ زمینی سطح پر ٹھوس اندازمیں خاموشی سے کام کرنے کا کوئی ایکشن پلان نہ ہے اور نہ ہی اس پر غور کرنے ،بدلتے حالات کے تناظر میں لائحہ عمل بنانے پر سوچنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے ۔بابری مسجد اور رام مندر کے نام پردونوں طرف اربوں روپے لوٹنے والوں کو اب نہ مندر سے مطلب ہے نہ مسجد سے ان تحریکوں کے روح رواں اپنی ’’خدمات جلیلہ ‘‘ کا صلہ پاکر مسرور و مطمئن ہیں ۔

پھر بھی اس راکھ میں بہت چنگاریاں ہیں مایوس ہونے کی بجائے عزم و حوصلہ کی جمع پونچی کےساتھ تیزی کے ساتھ بدلتے سیاسی منظر نامہ پر نظر رکھنی چاہئے جو نیو انڈیا کے نئے خدو خال کی طرف اشارے کر رہا ہے ۔یہ اشارے بھی طاقتور اور واضح ہیں ،ان کے مثبت اور منفی پہلو پوشیدہ نہیں ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ہماری آنے والی زندگی اسی کشاکش ،پنجہ آزمائی ۔برا بھلا کہنے اور سینہ کوبی میں گذرے گی یا ہم نیو انڈیا میں اپنا باوزن رول یقینی بنانے کے لئے وسعت نظر ذہنی کشادگی کے ساتھ حصہ داری اور ساجھیداری کی سیاست کے رموز و اسرار کی گرہیں کھولنے کی جسارت کریں گے ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں