نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
ہندوستان کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوچکاہے ،28 نومبر سے 7 دسمبر 2018 کے درمیان مدھیہ پردیش،راجستھان ،چھتیس گڑھ ،تلنگانہ اور میزروم میں ریاستی انتخابات کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے اور 11 دسمبر کو سبھی ریاستوں کے نتائج ایک ساتھ آئیں گے ۔انتخابات جمہوریت کی سب سے بڑی علامت اور طاقت ہوتی ہے ،عوام کے پاس اپنی مرضی کے مطابق اپنا لیڈر منتخب کرنے کا اختیار ہوتاہے ۔ان کے پاس ووٹ کی طاقت ہوتی ہے جو کسی کی جیت اور ہار کا سبب بنتی ہے ۔الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری سب سے اہم ہوتی ہے کہ وہ وقت پر انتخاب کرائے ،صاف وشفاف کرائے ،ذرہ برابر بھی جمہوری نظام کو متاثر نہ ہونے دے ۔یہ اچھی بات ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن کمیشن کو ایک دستوری اور آئینی ادارہ کاحق حاصل ہے ۔وہ ایک خود مختار،آزاد ادارہ ہے اور دستور کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے وقت پرانتخابات کرانے کا فریضہ انجام دے رہاہے ۔
مذکورہ پانچ ریاستوں کے انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں،یہاں کے نتائج ملک کی اگلی سیاست پر اثر انداز ہوں گے ،ان ریاستوں کے انتخابی نتائج 2019 کا پیش خیمہ بھی بنیں گے ،ملک اور یہاں کی عوام کے رجحانات کا اندازہ بھی لگے گیا ۔سیاسی تجزیہ نگاروں ،سیاست دانوں ،صحافیوں اور ماہرین کو 2019 کے تئیں سوچنے ،سمجھنے اور تبصرہ کرنے کا ایک رخ ملے گا ۔ملک کی سیاسی فضاء کا درست اندازہ معلوم ہوسکے گا ،عوامی ذہنیت واضح طور پر سامنے آسکے گی کہ ملک کی عوام کی کیا چاہتی ہے ،کس طرح کے لیڈروں میں ان کی دلچسپی ہے ،کس پارٹی پر ان کا اعتماد ہے ،ان کے ووٹ ڈالنے کی بنیاد کیا ہے ۔جن لوگوں کو وہ ووٹ کرتے ہیں ان سے کیا توقعات وابستہ ہوتی ہیں ۔کیا پانچ صوبوں کی عوام ایسی پارٹی کو اقتدار تک پہونچائے گی جس کی حکومت میں جان ومال کو خطرات لاحق ہوتے ہیں،امن وسلامتی کا فقدان ہوتاہے ،تشدد اور قتل وغارت گری کے سامنے انتظامیہ بے بس ہوتی ہے ،انسانیت سسکتی اور آہ وبکا کرتی ہے ۔جس کی حکومت میں انسانیت حیوانت میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ مظلوموں کو انصاف نہیں ملتاہے ،ظالموں کی حوصلہ افزائی اور ستائش کی جاتی ہے ۔لیڈران مجرموں کی تعریف کرتے ہیں ۔جس حکومت میں خواتین کی عزت وعصمت محفوظ نہیں رہتی ہے ،سرعام لڑکیوں کی عصمت تار تار کردی جاتی ہے ۔جس کے لیڈران خود ریپ کے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں،ریپسٹ کی حمایت میں ریلیاں نکالتے ہیں،انہیں سزا دلانے اور قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے بچانے کی کوشش کرتے ہیں،گھناؤنے اور سنگین جرم کے باوجود ایسے لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں ۔پارٹی ہائی کمان بھی ایسے لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی ہے ۔پولس اور انتظامیہ لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی کرتی ہے ،نازیبااور شرمناک جملے ملک کی بیٹیوں کیلئے استعمال کرتی ہے ۔لڑکی کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کرتی ہے یا پھر ایسی حکومت کو منتخب کرنا ہے جو عوام کو انصاف دے سکے ۔خواتین کو تحفظ دینے کیلئے فکراور جہد کرے ظالموں کو کیفر کردار تک پہونچائے اور مظلوموں کا آنسو پوچھے یہ فیصلہ یہاں کی عوام اور رائے دہندگا ن کو کرناہے۔ انہیں اپنی سیاسی بصیرت اور شعور کا استعمال کرکے ووٹ ڈالنا ہے ۔
ملک میں بے روزگا ر کی شرح تیزی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے پانچ سال میں دس کروڑ روز گا دینے کا و عدہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کیاتھا لیکن ساڑھے چار سال گزرجانے کے باوجود دوکروڑ روزگا ر بھی نہیں مل سکاہے ۔غریب،مزدور اور ناخوندہ طبقہ کے ساتھ تعلیم یافتہ نسل بھی پریشان اور بے چین ہے ۔کہیں کوئی روزگار نہیں ہے ،ملازمت نہیں مل رہی ہے ۔حالات سے مجبور کر ہوکر پی ایچ ڈی ہولڈرز اب ڈھابا کھول کر ،ہوٹل شروع کرکے روزی روٹی کمانے پر مجبور ہیں تو کہیں پی ایچ ہولڈر پیون اور کلر ک کی جاب کرنے کی دور میں لگ گئے ہیں ۔دوسال پرانی بات ہے راجستھان سرکار نے پیون کی جاب کیلئے ایک اشتہارنکالاتھاجس کیلئے کیلئے تقریبا دس لاکھ لوگوں نے درخواست دی ،ان میں دو سو پچاس پی ایچ ڈی ہولڈرزتھے ،دولاکھ سے زائد گریجویٹ تھے جبکہ اس ملازمت کیلئے صرف آٹھویں پاس کی لیاقت شرط تھی ۔حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے عوام کو روزگا ر دینا ،انہیں سہولیات پہونچانا ،انہیں جاب فراہم کرنا لیکن پچھلے ساڑھے چار سالوں میں ملک کا نقشہ ہی بدلا سا نظر آرہاہے ،تعلیم یافتہ نوجوان مایوسی کے شکار ہیں ،بے روزگار ہوکر گھر وں پر بیٹھیں ہیں ۔ایک طرف فیملی اور اہل خانہ کی ضروریات ہے ان کے تقاضے ہیں ،روز مرہ کا خرچ ہے ،بچوں کی تعلیم وتربیت کا مسئلہ ہے ،دوسری طرف کوئی روزگا ر نہیں ہے ،آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ملک کے لاکھوں نوجوان اس طرح کے سنگین حالات کا سامنا کررہے ہیں انہیں نہ تو اپنا مستقبل روشن نظر آرہاہے اور نہ ہی فی الوقت وہ کچھ کرنے پر قادر ہیں ۔مایوسی ،ڈپریشن اور ٹینشن کی وجہ سے کئی نوجوان خودکشی کرچکے ہیں۔اب یہ فیصلہ عوام کو کرناہے ،رائے دہندگان کو اپنے ووٹ کے ذریعہ یہ بتاناہے کہ وہ کس پارٹی کی حکومت کو ملک کے نوجوانوں کیلئے بہتر سمجھتے ہیں ۔کون سی حکومت نوجوانوں کو خودکشی سے بچائے گی ،کس پارٹی میں روزگا ر کے مواقع پیداہوں گے ،بے روزگاری کے ایام ختم ہوں گے ۔غریبوں اور مزردوں کو راحت ملے گی ۔
مہنگائی آسما ن چھورہی ہے ،بنیادی اور روزہ مرہ کے ضروریات کی اشیاء سب سے مہنگی ہوچکی ہے ،غریبوں کیلئے دوقت کا کھانا ناممکن سا ہوچکاہے ،پٹرول ۔ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ نے غریبوں کیلئے جینا مشکل کردیاہے ،مہنگائی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب عام شہری کیلئے دوقت کا کھانامشکل ہورہاہے ۔جی 20 کا ممبر ہونے کے باوجود ہندوستان کی 80 فیصد آبادی غربت کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے ، ملک کے دیہاتوں میں رہائش پذیر 75 فیصد آبادی کی یومیہ آمدنی صرف 33 روپے ہے ۔50 ملین سے زائد عوام کی زندگی کشمکش کی شکارہے جبکہ ایک فیصد آبادی کا ملک کی 75 فیصد آمدنی پر قبضہ ہے ۔حکومت غریبوں کی امداد کرنے ان کی فلاح وبہبود کیلئے اسکمیں نکالنے کے بجائے صرف امیروں کی دولت میں اضافہ کرنے اور انہیں مزید مالد ار بنانے کے ایجنڈے پر کام کررہی ہے ۔ملک کے چالیس فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں،ہاتھ میں قلم اور کاغذ رکھنے والے بچے کوڑا کرکٹ چن رہے ہیں ۔دہلی کے جامعہ نگر کی کے بارے میں تازہ رپوٹ ہے جہاں ایک یوٹیوب چینل سے بات کرتے ہوئے 8 سال کی عمرکے متعدد بچوں نے کہاکہ ہم یہ کوڑاکرکٹ اس لئے چننے رہے ہیں کہ دوقت کا کھانا مل سکے ،ہمارے والدین کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ہمیں پڑھاسکیں ،ان بچوں کا کہنا تھاکہ یہ سب کرنے کا مقصد صرف اتناہے کہ صبح شام گھر میں چولھا جل سکے اور دوقت کا کھانا مل جائے ۔یہ ملک کی تصویر ہے ۔غربت اور فاقہ کشی کا یہ عالم ہے ۔ مارکیٹ میں ایک کیلو چاول قیمت کم ازکم 40 روپے ہے دوسری طرف بیشتر آبادی کی یومیہ آمدنی 33 روپے ہے ۔ملک میں غربت ،فاقہ کشی ،مجبوری اور بے روزگاری اب سنگین صورت حال اختیار کرچکی ہے ۔یہ سچائی سورج کی طرح عوام کے سامنے ہے ۔ملک اورغریبوں کی یہ پریشانیاں ہیں جس کا خاتمہ حکومت اور سرکاری کی ذمہ داری ہے ۔کس سرکارنے ان مسائل کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے اور کس کی حکومت میں کم ہونے کے بجائے اس طرح کے مسائل بڑھ گئے ہیں اس کا جاننااور اس کے مطابق سرکار منتخب کرنا جمہوری ملک میں رائے دہندگان کا ایک اہم فریضہ ہے۔
2014 میں بر سراقتدار ہونے والی حکومت نے عوام کو بہت خواب دکھایاتھا،سنہرے وعدے کئے تھے ،لندن اور پیرس بنانے کی بات کی تھی ،جن دھن یوجنا ،شائنگ انڈیا ،میک ان انڈیا جیسی دسیوں اسکمیں بھی لاؤنچ کی گئی ،لیکن کبھی ان اسکمیوں پر عمل بھی ہواہے ،انہیں عملی جامہ پہنایاگیاہے ،ضروت مندوں اور غریبوں کا مسئلہ حل کیاگیاہے ؟ جواب نہیں میں ملے گا ۔بعض دفعہ دنیا کے سامنے سر خروبننے کیلئے پیسہ دیکر عوام سے ان اسکیموں کا فائدہ پہونچنے کا اعتراف بھی کرایاگیا لیکن بعد میں تحقیق کی گئی تو خود ان شہریوں نے اعتراف کیا کہ سرکاری افسران نے پیسہ دیکر اس طرح بولنے کیلئے کہاتھا۔
خلاصہ کلام یہ کے پانچ ریاستوں کے انتخابات بہت اہم ہیں ،2019 کا الیکشن براہ راست اس سے متاثر ہوگا اس لئے رائے دہندگان کافرض بنتاہے کو وہ سو چ سمجھ کر ووٹ کریں،ان پارٹیوں کو اقتدار تک پہونچائیں جنہوں نے عوام کے ساتھ دھوکہ بازی نہیں کی ،جنہوں نے جھوٹے خواب نہیں دکھائے نیز ان پارٹیوں کو ووٹ دینے سے گریز کریں جنہوں نے انتخاب سے قبل لمبے چوڑے وعدے کئے اور بعد میں سوال کئے جانے پر کہاکہ وہ چناوی جملہ تھاہم عوامی فلاح وبہبودکیلئے ایسا کچھ نہیں کریں گے جس کا وعد ہ کیاتھا ۔پانچ سال کی مدت معمولی نہیں ہے ،عقلمند ایک مرتبہ کی ہوئی غلطی دہراتے نہیں ہیں بلکہ غلط فیصلوں سے سبق سیکھتے ہیں ۔ہندوستان کی عوام ذی شعور ،بابصیر ت اور الوالعزم ہے ۔حالات پر ان کی گہری نظر ہے اس لئے ان سے یہی امیدہے کہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کرکرے گی اور ان پارٹیوں کو اقتدار تک پہونچائے گی جنہوں نے پہلے بھی ملک کی ترقی کیلئے کام کیا ہے اور آئندہ بھی موقع ملنے پر کرنے کاجذبہ رکھتی ہے ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )