ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو کا فروغ اور عملی نفاذ

اشرف استھانوی
انقلاب زندہ باد کا انقلابی نعرہ دینے والی اور ملک کی جنگ آزادی کے دوران ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کرکے ملک کو آزاد کرانے میں نمایاں کردار ادا کرنے والی، اسی ملک میں پیدا، پلی بڑھی، سارے ہندوستانیوں کی پسندیدہ، انتہائی شاندار، جاندار، دمدار اور بلا کی خوبصورت شیریں زبان اردو آزادی کے بعد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوجائے گی۔ اس کے عاشق اس سے کیف و سرور تو حاصل کریں گے مگر اس کا حق دینے سے گریز کریں گے۔ وہ مجلسوں اور محفلوں کی تو رونق بڑھائے گی مگر گھروں اور سرکاری دفتروں سے باہر کردی جائے گی۔ تحریک آزادی کے دوران یہ بات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ مگر ہوا بالکل ویسا ہی۔ آزاد ہندوستان کی سرکاری زبان طے کرنے کا وقت آیا تو اس وقت اردو کے ہی عاشق ڈاکٹر راجندر پرشاد کے صرف ایک منفی ووٹ سے اردو ملک کی قومی زبان بننے کے حق سے محروم رہ گئی۔ اس کے باوجود اردو کی پیشانی پر شکن نہ آیا۔ وہ ہندوستانیوں کے دلوں پر پہلے ہی کی طرح راج کرتی رہی۔ مگر جیسے جیسے جنگ آزادی میں اردو کے کردار کو جاننے اور سمجھنے والوں کی نسل ختم ہوتی گئی اور نئی نسل ان کی جگہ لیتی گئی، ارد وکو نظرانداز کرنے کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔
اسی صورت حال کے پیش نظر اردو کے چاہنے والوں نے اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا مطالعہ شروع کیا۔ اس سلسلے میں بہار کے مظفرپور میں ۱۹۶۰ء میں ایک اردو کانفرنس منعقد کی گئی جس میں پہلی بار اردو کو بہار کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کانفرنس کی مجلس استقبالیہ کے صدر معروف مجاہد آزادی اور ممتاز سیاسی و ملی رہنما ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی تھے۔ اس کانفرنس میں ریاست و بیرون ریاست کے مشہور اور ممتاز مجاہدینِ اردو شریک ہوئے تھے۔ اس کے بعد بہار میں اردو کی تحریک نے آندھی کی شکل اختیار کرلی۔ پھر جب اردو کو انتخابی ایشو بنایا گیا اور ووٹ سے مشروط کیا گیا تو آندھی نے طوفان کا روپ لے لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۸۰ء میں حکومت بہار کی پہل پر بہار راج بھاشا ترمیمی بل کو بہار قانون سازیہ نے منظوری دی اور ۱۶؍جنوری ۱۹۸۱ء کو گورنر بہار کی منظوری کے بعد اسے قانونی حیثیت حاصل ہوگئی۔ لیکن جب اس قانون کے نفاذ کی کارروائی شروع ہوئی تو اُسی وقت اردو کے ساتھ امتیاز کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ چنانچہ راج بھاشا ایکٹ کے نفاذ کے لئے ۱۱؍اپریل ۱۹۸۱ء کو جب پہلا نوٹیفیکیشن جاری ہوا تو اس وقت کے غیرمنقسم بہار کے محض ۱۵؍اضلاع میں اردو کو خاص اور اہم مقاصد کے لئے دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ نوٹیفیکیشن میں درج مقاصد یہ تھے: (۱)اردو میں عرضیوں اور درخواستوں کی وصولیابی اور اردو میں ہی ان کا جواب۔ (۲)اردو میں تحریر شدہ دستاویزات کا رجسٹریشن دفاتر میں قبول کیا جانا۔ (۳)اہم سرکاری قواعد و ضوابط اور نوٹیفیکیشن کی اردو میں بھی اشاعت۔ (۴)عوامی اہمیت کے حامل سرکاری احکامات اور سرکلرس کا اردو میں بھی اجرا۔ (۵) اہم سرکاری اشتہارات کا اردو میں بھی اشاعت۔ (۶) ضلع گزٹ کے اردو ترجمہ کی اشاعت۔ (۷) اہم سائن بورڈ کا اردو میں بھی ڈسپلے۔
مذکورہ سات نکات سے صاف ظاہر ہے کہ قانون سازی کے وقت حکومت یا قانون سازوں کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں تھی مگر اس کے نفاذکے مرحلہ میں افسر شاہی نظام ہر جگہ حاوی رہا۔ پہلے تو نوٹیفکیشن میں محض ۱۵؍اضلاع کو شامل کیا گیا، پھر متعلقہ محکمہ کے مکتوب نمبر۲۳۹، مورخہ ۸۔۲۔۸۲ کے تحت ۱۵؍اضلاع کے ۲۹؍سب ڈویژنوں کے ۲۵۰؍بلاکوں میں فی دفتر ایک مترجم، ایک نائب مترجم اور ایک ٹائپسٹ کی بحالی کے لئے عہدوں کی توضیع کی گئی۔
۲۹؍جون ۱۹۸۹ء کو ستندر نارائن سنگھ کی حکومت نے دوسرا نوٹیفیکیشن جاری کیا تو مزید ۱۱؍ضلعوں میں ہی اس کا نفاذ ہوا۔ حالانکہ ۱۶؍اگست ۱۹۸۹ء کو تیسرا نوٹیفیکیشن جاری کرکے باقی ماندہ ۱۳؍ضلعوں میں بھی اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ اس وقت بہار میں جتنے بھی کلکٹریٹ، سب ڈویژن اور بلاک دفاتر تھے، ان سب میں ترجمہ یونٹ قائم کردی گئی اور ان سب کے لئے اردو ملازمین کے عہدوں کی توضیع کرتے ہوئے ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۵ء کے دوران بحالی کا عمل پورا کرلیا گیااور بہار کی اردو آبادی کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ پورے بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کے طو رپر پوری طرح نافذ کردیا گیا ہے اور اس کا حق اسے دے دیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی جس پر اردو تحریک کے سپہ سالاروں کی یا تو نظر ہی نہیں گئی یا گئی بھی تو ان کی نظر دوسری طرف پھیر دینے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اردو کے دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے نفاذ کے سلسلے میں جو بھی نوٹیفکیشن جاری کئے گئے، وہ بہار کی تقسیم سے پہلے جاری کئے گئے اور آج بہار کے جن دفاتر میں اردو کی کاغذی حیثیت برقرار ہے، ان میں صرف ۲۷؍کلکٹریٹ، ۵۱؍سب ڈویژن اور ۴۴۳؍بلاک ہیں۔ یعنی اردو راج بھاشا ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے ۳۵-۳۶ سالوں بعد بھی اردو پورے بہار کی دوسری سرکاری زبان نہیں بلکہ یہ دفاتر کی فائلوں تک محدود ہے۔ حالانکہ اسے سکریٹریٹ کے تمام محکموں، تمام کمشنری آفسوں، سبھی کلکٹریٹ، سبھی سب ڈویژن، سبھی ضلع رجسٹریشن آفس، سبھی سرکل آفس، سبھی بلاک آفس، سبھی تھانے اور سبھی سرکاری پریس اور ان تمام دفاتر میں جو عوامی سروکار سے متعلق ہیں، اردو سیل کا قیام لازمی تھا۔ کیونکہ اگر مقصد اردو میں عرضیوں اور درخواستوں کی وصولی اور اردو میں ان کے جوابات دینے اور اردو میں تحریر شدہ دستاویزات کا رجسٹری آفس میں قبول کیا جانا تھا تو آج تک کسی حکومت نے نہ تو اس کو سمجھا اور نہ ہی اہلِ اردو اسے سمجھنے پر مجبور کرسکے کہ اردو کو اس کا قانونی حق دینے کے لئے حکومت کو کیا کچھ کرنا چاہئے۔ ایسا کیوں ہوا اور اس کے لئے کون لوگ ذمہ دار ہیں، اس کا تجزیہ ضروری ہے۔
آج اردو کی حالت بہار میں قابل رحم ہوچکی ہے۔ تعلیمی سطح پر اس کی اہمیت کا گراف گرکر سنسکرت سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ حکومت اور اہلِ اردو کی اسی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے کہ آج میٹرک کی سطح پر ہر سال تقریباً سات لاکھ بچے اور انٹر کی سطح پر تقریبا دو لاکھ بچے اپنی مادری زبان چھوڑ کر امتحان دینے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ اردو کے لازمی مضمون کی حیثیت ختم کردی گئی ہے۔ اردو پڑھنے والے اردو مضمون اختیار بھی کرنا چاہیں تو وہ اسے اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھ سکتے ہیں۔ مگر لازمی اور اختیاری مضمون میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اردو کی لازمی حیثیت ختم ہونے کا اثر یہ ہوگا کہ بتدریج اردو پڑھنے والوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔ اس کے بعد موجودہ حکومت کے اعلان کے مطابق اگر تمام اسکولوں میں اردو اساتذہ کا تقرر بھی ہوجائے گا، جب بھی خاطر خواہ تعداد میں اردو کے طلبا، یونیورسٹی اور کالجوں تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ جہاں پہلے سے ہی ریشنالائزیشن کے نام پر کم طلبہ والے ڈپارٹمنٹس کو بند کیا جارہا ہے۔ اردو پڑھنے والوں کے لئے دوسری مصیبت یہ ہے کہ اردو میڈیم میں دوسرے مضامین کی کتابیں دستیاب نہیں ہیں۔ بہار ٹکسٹ بک پبلشنگ کارپوریشن دوسری سرکاری زبان اردو میں کتابیں چھاپ کر بروقت طلبا کے ہاتھوں میں پہنچانے میں ناکام ہے۔ یہ سب کچھ اس حکومت میں بھی ہورہا ہے جس نے اردو اور اہلِ اردو کے ساتھ انصاف کا وعدہ نہ صرف اپنے انتخابی منشور میں کیا گیا، بلکہ عوامی جلسوں میں بھی برملا اظہار کیا گیا تھا۔ حکومت نے پانچ سال قبل اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے اپنے۱۰؍نکاتی پروگرام میں بھی اسے شامل کیا تھا۔ ان ۱۰؍نکاتی پروگراموں میں سے کچھ میں تو عمل ہوا مگر جن کا تعلق اردو زبان کے فروغ و اشاعت سے تھا، ان پر کوئی عمل نہیں ہوسکا اور اب تو وہ پروگرام بھی بند ہوچکا ہے۔ حکومت نے اردو کے فروغ کے سلسلے میں جو بھی ادارے قائم کئے ہیں، وہ بالکل بے جان ہیں اور اپنی ذمہ داری نبھانے میں پوری طرح ناکام ہیں۔ اردو ڈائرکٹوریٹ، وزیراعلیٰ نتیش کمار کے اعلان اور اہلِ اردو کی تمام کوششوں کے باوجود بھی حقیقتاً مالی اور انتظامی اختیارات سے محروم ہے۔ بہار اردو مشاورتی کمیٹی محض ہاتھ کا دانت بن کر رہ گیا ہے اور کچھ لوگوں کو مرہونِ منت کرنے کے علاوہ اس کا کوئی اور کام نہیں رہ گیا ہے۔ اردو کے فروغ میں تو اس کا کوئی رول ہی نہیں ہے۔ رہی بات بہار اکادمی کی، تو اس کا بھی دائرۂ کار محدود ہے۔ اس کا کام بھی سوکھے پیڑ پر پانی کے چھڑکاؤ جیسا ہے۔ یہ ادیبوں اور شاعروں کی کتابوں کی اشاعت پر تو تعاون کرتی ہے مگر زبان کے فروغ میں اس کا کوئی خاص اہم رول نہیں ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اردو زبان ہی نہیں رہے گی اور اس کو پڑھنے والے اور سمجھنے والے ہی نہیں رہیں گے تو اردو کی ان کتابوں کا کیا استعمال ہوگا جس پر بہار اردو اکادمی پیسے خرچ کررہی ہے۔
اردو کی ترویج و ترقی اور اس کے فروغ کے لئے لسانی تنظیموں کو متحد ہوکر تمام اختلافات کو فراموش کرکے ایک پلیٹ فارم پر اردو کے کاؤز کے لئے آنا ہی ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ مساجد کے ائمہ حضرات کو بھی اس شیریں و لطیف زبان کے توسیع و فروغ کے لئے رائے عامہ ہموار کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ عام اردو آبادی کو بھی اپنی مادری زبان سے محبت و رغبت بڑھانا ہوگا اور اس زبان سے ویسی ہی محبت کرنی ہوگی جس طرح ہم اپنی ماں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس کے لئے گھروں میں اردو کا ماحول قائم کرنا ہوگا۔ بچوں کو اردو میں گفتگو کرنے کی ترغیب دینی ہوگی۔ اردو اخبارات، رسائل و جرائد کی سرپرستی کرنی ہوگی۔ گھریلو تقاریب میں اردو کو نمایاں مقام دینا ہوگا۔ تبھی یہ زبان زندہ رہ سکتی ہے۔
یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اردو دنیا کی دس اہم زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔ پورے ملک میں اس زبان کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اس زبان میں اتنا دم ہے کہ وہ اپنا حق منوا لے گی۔ اس کے بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے اور سرحدوں کی پروا کئے بغیر مختلف ممالک میں پھیلتی جارہی ہے۔ اردو کا منظرنامہ بھی تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہا ہے۔ نیا منظرنامہ پرنٹ میڈیا سے آگے بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ اپنی نئی نئی وسعتیں تلاش کررہا ہے۔ اس نے گلوبل ویلیج میں اپنی نئی نئی پناہ گاہیں بنائی ہیں۔ بیرونِ ممالک میں بھی اردو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ کا ذکر کریں تو بی بی سی لندن کے علاوہ وائس آف امریکہ، جرمن، فرانس، ریڈیو جاپان، روس، ایران اور سعودی عرب کے متعدد شہروں سے آج اردو کے پروگرام نشر ہورہے ہیں۔گزشتہ ۱۶؍سالوں سے اردو نے اخبارات سے ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ تک مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔ صرف اردو اخبارات کی بات کی جائے تو آج جدہ سے کئی اردو اخبارات شائع ہورہے ہیں۔ برطانیہ، اسٹریلیا، کناڈا، امریکہ، جرمن اور پاکستان سے ایک ساتھ شائع ہونے والے آن لائن اخبار عالمی اردو اخبار نے اردو کی مقبولیت اور اثرانگیزی کے نئے افق روشن کئے ہیں۔ دہلی پبلک اسکول کی جو شاخیں جدہ، ریاض اور شارجہ وغیرہ میں قائم ہیں، وہاں اردو بحیثیت ایک مضمون کے، شامل نصاب ہے۔
خود ہندوستان کی بات کی جائے تو منشی نول کشور کے بعد گرچہ ایک طویل مدت تک کوئی کارپوریٹ گھرانہ اردو کی سرپرستی کے لئے آگے نہیں آیا۔ لیکن جب اردو نے عوامی مقبولیت اور ضرورت بن کر اپنی اہمیت کا لوہا منوایا تو کئی کارپوریٹ گھرانے بیک وقت سامنے آئے اور انہوں نے اردو کی زلف پریشاں سنوارنے کا بیڑا اُٹھایا۔ انقلاب، سہارا، ای ٹی وی اردو، زی سلام اور چوتھی دنیا بالکل سامنے کی مثالیں ہیں۔ اردو کی ہمہ گیری اور ہردل عزیزی کا ہی اثر ہے کہ آج امر اُجالا اور نوبھارت ٹائمز جیسے اشاعتی گھرانے اردو ایڈیشن شروع کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ اردو لرننگ پروگرام مختلف سائٹس پر موجود ہیں۔ غیر اردو ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد، غیراردو پروگراموں میں بھی جس طرح اردو کے الفاظ اور اشعار استعمال کرنے کی کوشش کرکے اپنی بات میں وزن اور چاشنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے بھی اردو کی مقبولیت اور پسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔
بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے مگر سرکاری اداروں، دفتروں اور سرکاری افسروں کے نیم پلیٹ تک اردو میں دکھائی نہیں دیتے۔ اردو میں سرکاری حکم نامے اور پریس ریلیز بھی جاری نہیں ہورہے ہیں۔ سرکاری دعوت ناموں میں اردو کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اردو کی جگہ انگریزی نے لے لی ہے مگر حکومت کے علاوہ اردو کے نفاذ سے متعلق اداروں اور افسروں کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ مانجھی حکومت نے محکمہ راج بھاشا کے تحت1667 اردو مترجمین ،نائب مترجمین اور ٹائپسٹ کے عہدوں پر تقرری کے لئے 80 کروڑ روپے منظور کئے تھے اور کابینہ کی منظوری بھی فراہم کر دی تھی ، لیکن نتیش حکومت نے اسے سرد خانے میں ڈال رکھا ہے۔ اردو ڈائرکٹوریٹ بھی بیساکھی کے سہارے چل رہا ہے ۔ ہاں حال میں نتیش حکومت نے 36 عہدوں کی منظوری دی ہے اور 1667 عہدوں پر تقرری کے سلسلے میں خاموش ہے۔ محکمہ راج بھاشا کے تحت اردو ادیبوں ،شاعروں، صحافیوں اور نامور قلم کاروں کو ملنے والا بڑا ایوارڈ گذشتہ پانچ سالوں سے بند ہے۔ اس سلسلے میں کئی خطوط معزز وزیر اعلیٰ اور متعلقہ محکمہ کے ذمہ داران کو ارسال کیا گیا ہے ، لیکن اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے ۔
اردو کی لڑائی لڑنے والی لسانی تنظیمیں اور مجاہدینِ اردو بھی خوابِ غفلت میں پڑے ہیں۔ انجمن ترقی اردو بہار جو کسی زمانے میں آگے بڑھ کر اردو کی لڑائی لڑتی تھی، وہ آج ایک خاص فرد کی ملکیت بن کر رہ گئی ہے۔ اسے اردو کے حق کے لئے لڑنے کی نہ فرصت ہے نہ ضرورت۔ یہ صورت حال نہ صرف ریاست کے ایک کروڑ اسّی لاکھ اردو آبادی کے لئے بلکہ انصاف کے ساتھ ترقی کا دعویٰ کرنے والی نتیش حکومت کے لئے بھی ایک چیلنج ہے۔ نتیش حکومت اس چیلنج سے کس طرح نپٹتی ہے، وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینئر صحافی اور مصنف ہیں)