قاسم سید
کہا جاتا ہے کہ گالیاں، دشنام طرازیاں، بے سروپا الزامات دراصل ذہنی افلاس اور دیوالیہ پن کی علامت ہوتی ہیں۔ جب الفاظ ساتھ چھوڑدیں، دلائل منھ چھپالیں اور معقول سوالات کا معقول جواب نہ ملے، خود کو اور اپنے پیر و مرشد کو تمام طرح کے اعتراضات سے بالاتر، مقدس اور مافوق الوری شخصیت ثابت کرنے پر اصرار ہو تو پھر گالیوں کے تھروں سے موب لنچنگ کی جاتی ہے۔ خوشامد، چاپلوسی اور وفاداری کے جوش و ولولہ میں انسانی احترام کی لازمی حدوں کو بھی پار کرنے میں خجالت محسوس نہیں ہوتی، مسلمان کا احترام تو بہت دور کی بات ہے۔ دراصل آج ہم اتنے خانوں میں بٹ چکے ہیں، عصبیتوں کے گرداب میں پھنس گئے ہیں کہ اپنے علاوہ کوئی دوسرا نظر میں بھلا اترتا ہی نہیں، کوئی کمبخت دل کو بھاتا نہیں۔ ہمارے معیارات مطلوب کے دو پیمانے ہیں، مگر خود کو کسی ضابطہ کا پابند بنانا پسند نہیں کرتے۔ کسی پر کتنے ہی اعتراضات کریں سب برحق مگر دوسرے کو یہ حق دینے کے لئے ہرگز تیار نہیں۔ اس کی نیت میں کھوٹ، نفرت، دشمنی، اختلافی نقطہ نظر کو مخالفت ماننے اور منوانے کے لئے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اندھی عقیدت کے آنگن میں عقلیت اور معقولیت کی ہواؤں کا گزر نہیں ہوتا۔ اپنی پسندیدہ شخصیت یا ملک کے بارے میں کوئی ایسی بات سنتے ہیں جو پندار عقیدت میں نشتر بن کر چبھتی ہو، تراشیدہ مزعومہ خداؤں کے پیکر جمال میں ہلکی سی خراش سے بھی بلبلا جاتے ہیں، رویوں کے اس جارحانہ پن میں ہماری بہترین صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں، کیونکہ ہمارے لئے یہ تصور بھی محال ہے کہ جس کو زندگی کی کتاب معتبر بنالیا ہے، جن کی تحریریں حوالوں کے لئے چن لی ہوں، اس میں کوئی بشری کمزور بھی ہوسکتی ہے یا وہ غلطی کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ مخالفت و حمایت کی بنیاد دلائل پر کم ذاتی پسند و ناپسند پر زیادہ ہوتی ہے۔ اس افراط و تفریط نے ہمارے ملّی وجود کو لہولہان کردیا ہے۔ دنیا کی امامت کا دعویٰ کرنے والے ایسی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے کہ خودشناسی کی روش بھی کھو بیٹھے۔ یہ فعل فطرت کے ساتھ مذاق ہے اور فطرت کے ساتھ مذاق کرنے والوں کو قدرت بھی معاف نہیں کرتی۔ اخلاق سے لے کر پہلو خان کے بے رحمانہ قتل کی طویل نہ ختم ہونے والی انسان کش کی سیریز ہو یا فلسطین میں اسرائیل کے مظالم، دابھولکر مارے جائیں یا گوری لنکیش کو سچ بولنے کی بھیانک سزا ملے، شام میں ایران و دیگر حملہ آور ممالک کے ہاتھوں نسل کشی ہو، چین کے ایغور مسلمانوں پر ظلم و ستم، اربن نکسلزم کے نام پر انسانی حقوق کارکنوں کی گرفتاری کا معاملہ ہو یا اظہار رائے کی آزادی پر بڑھتے حملے، دہشت گردی کے الزام میں بے گناہ نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوں یا لوجہاد و دیگر نان ایشوز کی آڑ میں اقلیتوں کی حقوق تلفی، لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی کا مسئلہ ہو یا پلول میں مسجد کی تعمیر میں حوالہ کا پیسہ لگانے کا الزام، ہر جگہ ہندوستانی مسلمان اور ان کی پرمغز قیادت نے صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ بنیادی حقوق اور آئین میں دیے گئے تحفظات کو یقینی بنانے کے لئے رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھایا، قومی یا بین الاقوامی سطح پر اپنی ہر ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستانی جمہوریت کو بچانے اور اس کو لاحق خطرات پر ہماری تشویش ریکارڈ پر ہیں، ہم ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے ہندوستان میں رونما سیاسی تبدیلیوں، اس کے تقاضوں اور مطالبوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ہر انسان کے بنیادی حقوق کے لئے حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کہیں کسی پر بھی ظلم ہو، ہمارا دل اس کے ساتھ دھڑکتا ہے، حتیٰ کہ اگر صحافیوں کے ساتھ زیادتی ہو تب بھی ہماری صفوں سے پرزور طاقتور آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ موجودہ سرکار کے جانبدارانہ رویوں، اقلیتوں کے تئیں امتیازی سلوک اور اس کے خطرناک ارادوں کے حوالہ سے ہماری احتیاط و حساسیت کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے ہماری قابل احترام سیاسی و مذہبی قیادت نے اس سے رابطہ کرنا اور رکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
مگر نہ جانے کیوں بعض معاملات میں ہماری یہ حساسیت، بنیادی حقوق کے تحفظ کے تئیں تحریکیت نرم و ملائم سی ہوجاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ممتاز سعودی صحافی جمال خاشقجی کے سفاکانہ اور بے رحمانہ قتل پر پراسرار خاموشی ناقابل فہم ہے، جبکہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ سعودی حکومت اس میں براہ راست ملوث ہے، ولی عہد پر سخت نکتہ چینی کرنے والے خاشقجی کو سفارت خانہ میں اذیتیں دے کر ہلاک کردیا گیا، اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اور سر کاٹ کر سعودی اہلکار کے باغیچہ میں گاڑ دیا گیا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب سعودی حکمرانوں نے مخالفت کو ٹھکانے لگایا ہو، اس سے قبل متعدد شہزادے، انسانی حقوق کارکنان اور جید علمائے دین جیلوں میں ڈال دیے گئے یا ان کو پراسرار طور پر غائب کردیا گیا۔ ترکی سمیت عالمی خلقت خاشقجی کے سفاکانہ قتل پر سراپا احتجاج ہے، مگر ہندوستانی مذہبی و سیاسی قیادت اس پر چپ شاہ کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔ کیا یہ ہمارا دہرا رویہ نہیں ہے؟ کیا ہم اس لئے خاموش ہیں کہ سعودی عرب کے حکمراں خادم الحرمین الشریفین ہیں؟ تو کیا یہ ہر طرح کی زیادتیوں کو جائز ٹھہرانے کا مذہبی سرٹیفکیٹ ہے تو کیا ان کے ہر گناہ کی تلافی ہے؟ کیا وہ سوال و جواب سے مبرا ہیں؟ کیا ان سے بازپرس اسلام کے خلاف ہے؟ ہماری اخلاقی و ایمانی جرأتیں گنگ کیوں ہوگئی ہیں؟ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ہم نے خاموشی کی چادر اوڑھ کر ضمیر کے سامنے شرمندہ ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس سے قبل بھی متعدد ایسے واقعات ہوئے جب بولنا ضروری تھا، ہم کیوں ایمان کے تیسرے درجہ کہ برائی ہوتے دیکھ کر خاموشی اختیار کرلو، مگر دل میں ضرور برا سمجھو، پر قانع ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کے اقلیت مخالف اقدامات پر ہر وقت شمشیر بکف رہنے والے اس وقت بھی خاموش رہنے کو بہتر سمجھے جب شاہ سلمان نے ہمارے وزیراعظم کو اپنے ملک کا اعلیٰ ترین سول اعزاز بخشا، جنھیں ہم گجرات کے خون سے معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جب سعودی عرب نے اپنے آسمان کے اوپر ہندوستانی طیاروں کو اسرائیل جانے کی اجازت مرحمت فرمائی، ہماری پیشانی پر شکن تک نہیں آئی۔ جب سعودی عرب نے حج کی نگرانی اس کے سپرد کی خاموش رہنا بہتر سمجھا۔ جب اعتدال پسند اسلام کی طرف تیزی سے قدم بڑھانے کے فیصلے کے تحت فلم فیسٹول منعقد ہونے لگے، مقدس سرزمین پر گلوکارائیں اور رقاصائیں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے آنے لگیں، سنیما گھر کھولنے، مخلوط مجالس کی اجازت ملی تو بھی ہماری صفوں میں ہلکا سا بھی ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔ جب نوخیز متلون مزاج ولی عہد نے ایک ایسے اسلام سے متعارف کرانا شروع کیا کہ اگر ہندوستان میں اس کا تذکرہ شروع ہوجائے تو ایسے لوگوں کو دائرۂ اسلام سے ہی خارج کردیا جائے، مگر پھر بھی ایمانی حرارت کی چنگاریاں نہ بھڑکیں۔ ایک ایسا شہر بسانے کا منصوبہ زیر عمل ہے جہاں ہر طرح کی خرافات کی اجازت ہو کہ جو کام سعودی شہری باہر جاکر کرتے ہیں وہ اپنے ہی ملک میں انجام دے سکیں تو بھی احتجاج کی ہلکی سی آواز بلند نہ ہو۔ اختلاف کو ریکارڈ نہ کرایا جائے۔ جب عالم اسلام کے ممتاز عالم یوسف القرضاوی کو دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیا گیا، مصر کے نئے فرعون السیسی کو نجات دہندہ کہہ بلایا گیا اور منتخب صدر کو معزول کرکے جیل میں ڈال دینے کے قدم کو تباہی سے بچانے والا قدم قرار دے کر السیسی کی تعریف کی گئی تو بھی ہمارے رونگٹے کھڑے نہیں ہوئے۔ کیا ان باتوں کو صرف ایرانی پروپیگنڈہ اور صیہونی سازش قرار دے کر مسترد کردیا جانا کافی ہے۔ یہ سوال تو دل میں پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہندوستانی قیادت جو انسانی حقوق کے تئیں بہت بیدار اور حساس ہے، ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کے خلاف مسلسل متحرک رہتی ہے، اسلام کے نئے ناقابل فہم ایڈیشن کے اجرا جیسے اقدامات پر بھی خاموش رہنا کیوں پسند کرتی ہے۔
وہ کون سا خوف ہے جو زباں بندی پر مجبور کئے رہتا ہے، مصلحت کی وہ کون سی زنجیریں ہیں جو قدم بڑھنے نہیں دیتیں۔ جب ہم ہر ملک میں ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج درج کرانا ضروری سمجھتے ہیں، اس ملک کے نام پر مہر بہ لب کیوں ہوجاتے ہیں؟ آخر عوام کو اعتماد میں لے کر بتایا جائے کہ سعودی عرب میں معمولی سے واقعہ پر تڑپ جانے والی روحیں جمال خاشقجی کے سفاکانہ قتل پر بھی چپ ہیں۔ اس ملک کے مقدس شہروں سے ہی اسلام کی کرنیں پھوٹیں، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا آفاقی پیغام پیش کیا، جابر کے سامنے کلمہ حق کو جہاد قرار دیا۔ انسانی حقوق کا پہلا چارٹر اسی سرزمین سے جاری ہوا۔ اس سرزمین سے رقص موسیقی کی عبا میں نئے اسلام کا تعارف ہورہا ہے اور ہم پھر بھی خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ انسانی حقوق پیروں سے روندے جارہے ہیں، لبوں پر حرکت تک نہیں ہوتی۔ آخر عوام کو اعتماد میں لے کر بتایا تو جائے کہ وہ کون سی مجبوریاں ہیں، کیا وہی ہیں جن کو ہر خاص و عام سمجھتا ہے۔ تو یہ عذر شرعی تو نہیں ہوسکتا۔ اس سوال کو اٹھانے والے کو اسرائیلی و صیہونی ایجنٹ نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ مقدس مملکت ان ملکوں سے خصوصی تعلقات استوار کئے ہوئے ہے۔ اسرائیل اب دشمن کی جگہ اسٹریٹجک پارٹنر ہے اور امریکہ مملکت کی بقا کا رکھوالا۔ کیا ایک خالص صحیح العقیدہ سنی یہ سوال کرنے کا جواز نہیں رکھتا۔ اظہار رائے کی آزادی کا حق تہذیب و شرافت کے دائرے میں اسے ملے گا یا نہیں۔ کوئی ہے جو دل مضطر کو سکوں دے اور بتائے کہ مسلم جماعتوں کی اکثریت کی خاموشی کا سبب مصلحت یا کوئی خوف تو نہیں اور کیا یہ کھلا راز تو نہیں!
qasimsyed2008@gmail.com