منزل یہی کٹھن ہے

قاسم سید
بیوقوف ثابت کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ سر میں دوسینگ ہوں، ہر گزرنے والا ایک چپت لگاجائے اور مارکھا نے والا ہر بار ردعمل میں یہ کہے کہ اب کسی نے مارا تو بتاؤں گا اور کوئی عملی قدم نہ اٹھائے ،اس پر کیا کہا جائے۔ وہ تحمل مزاج ہے،بے پناہ قوت برداشت کا مالک ہے یا پھرسادہ لوح، مسلمانوں کے ساتھ ہر پارٹی یہی رویہ اپنائے ہوئے ہے صرف ڈگری کا فرق ہے ۔ بی جے پی اور کانگریس ان کے علاوہ ہر سیکولر پارٹی کے گناہوں کی پو ٹلی بہت بھاری ہے لیکن ہم فراخ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے معافی نامہ لکھ کر دے دیتے ہیں۔ وہ گناہو ں کا کفارہ بھی ادا نہیں کرتیں ہم قصاص بھی نہیں مانگتے نہ ہی خون بہا ۔اس لئے کوئی حساب وشمار نہیں رکھتے کہ کتنے افتادگان لقمہ اجل ہوچکے ہیں۔
حالانکہ بھیڑ بکریوں کا باڑہ درندوں کی زد میں آجائے تو گوالاگنتی شمار رکھتاہے کہ کتنی بھیڑ یں خونی جبڑوں کی نذر ہوگئیں ۔ کتنی کھالی گئیں ،کتنی زخموں سے نڈھال پڑی ہیں ،لیکن سفاک حملوں کا نشانہ بننے والوں کی کوئی گنتی نہیں اور نہ ہی یہ جاننا گوارہ سمجھا گیا کہ کب کتنے گھرپیوندزمین ہوگئے ۔ کتنوں کے وسائل رزق ختم ہوگئے گوالا بھیڑیوں سے مل جائے۔ باڑے کو ایک خاص مدت کیلئے لیزپردے دے۔ اس سمجھوتہ کے تحت خصوصی مراعات حاصل کرے تو اس میں بھولی بھالی بکریاں اور بھیڑیں کیا کریں کیونکہ وہ اشاروں پر چلتی ہیں۔ انہیں اپنے گوالے پر اعتماد ہوتا ہے مگر وہ اس دوران حقائق سے آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ بے نیازی کی چادر اوڑھے اگلے میلہ کا انتظار کرتا ہے۔ خاک نشینوں کابے مایہ لہو کوئی قدرقیمت نہیں رکھتا ۔ سیاسی بازار میں برادران یوسف کی بھرمار ہے اور یوسف کے خریدار اور بہت ہیں۔ ہر پانچ سال کے بعد یہ کہانی دہرائی جاتی ہے ردیوں میں تبدیلی کا نمائشی مظاہرہ بھی نہیں ہوتا ہماری دکھتی رگوں سے سب بخوبی واقف ہیں۔
مثلاً یکساں سول کوڈ ،اس کا نام لے کر ڈراور ہیجان پیداکرنے کی کوشش ۔ ظاہر ہے کہ یہ زندگی موت کا مسئلہ بنادیاگیا ہے ہم سب کچھ بھول کر اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں جبکہ ہندوستان کے متنوع اور تکثیری سماج میں اس کا نفاذ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ سائرہ بانو کیس سوہان روح بننے والا ہے کوئی یہ غورکرنے کوتیارنہیں کہ وہ کیا حالات تھے کہ سائرہ بانو کو عدالت کا رخ کرنا پڑا ۔ ایسے حالات کو ختم کرنے کیلئے سنجیدہ کوششیں بھی نہیں کی گئیں ۔شاہ بانوکیس لے کر سائرہ بانو تک معاملہ صرف حکومتوں اور عدالتوں کا نہیں رہا بلکہ مسلمانوں نے خود عدالتوں اور حکومتوں کو مداخلت کا موقع دیا جیسا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی نے توجہ دلائی کہ سبب خود مسلمان بن رہے ہیں۔
دوسرا معاملہ دہشت گردی کے الزام میں فرضی طریقہ سے پھنسائے گئے مسلم نوجوانوں کاہے، باعزت رہا ہونے والوں کی بازآبادکاری اور قصورواروں کو قرار واقعی سزا دینے کا ۔ تیسرا مختلف میدانوں میں ریزرویشن کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ ان مسائل کا بار بارتذکرہ ہوتارہاہے ۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی ان دومسائل کو ٹھوس بنیادوں پرحل کرنے کا وعدہ کرکے برسراقتدار آئی تھی۔ اقلیتوں نے یک مشت ووٹ دے کر وعدوں پر اعتبار کیا اور ساڑھے چار سال تک انتظار کرتی رہیں کہ کب ظل الٰہی کے دل میں رحم کا دریا موجزن ہو ۔ ایک درجن وزیر علاوہ بہت سے مسلمانوں کو درجہ حاصل وزیربناکر لال بتی سے نوازاگیا مگر ہوا کیا ؟یہ غلامان سماجوادی نہ پہلے کسی کے ہوئے نہ آج۔ یہ اپنے رنگ ماسٹروں کی ہدایت پر کرتب دکھانے والے سرکس کے شیروں سے زیادہ نہ پہلے حیثیت رکھتے تھے نہ آج۔ یہ وہپ کیپچاری اس وقت بولتے ہیں جب اجازت ملتی ہے ۔ مظفر نگر فساد سے لے کر مسلم نوجوانوں کی رہائی اور ریزرویشن کے وعدے پر کس نے اپنی زبان کو حرکت دینے کی زحمت کی اور آج بھی اترپردیش کی نچلی عدالت سے دہشت گردی کے الزام سے باعزت بری 6مسلم نوجوانوں کی رہائی کے خلاف یوپی سرکارہائی کورٹ چلی گئی تو کسی کی غیرت حمیت نے جوش نہیں مارا ۔ مظفرنگر فساد کے وقت ساتھ کھڑے رہنے والے بھی خاموش ہیں ۔ ہر معاملہ پر بیان بازی جاری کرنے والوں کی قوت گویائی کو لقوہ مارگیا ۔ ہرطرف موت کا سناٹا ہے ۔ راجیہ سبھا کس کو بھیجا گیا ۔مسلمان یاد کیوں نہیں آئے پر بحث زیادہ ضروری محسوس ہورہی ہے کیا اس سے پہلے راجیہ سبھا کو جانے والے مسلمانوں میں سے کسی ایک نے جرات دکھائی کہ وہ پارٹی ہائی کمان کی مرضی کے خلاف ضمیر کی آواز پراحتجاج درج کرادیتے۔
اترپردیش میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات صرف وزیراعظم نریندر مودی ہی نہیں دیگر سیاسی پارٹیوں کیلئے2019 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی حیثیت کا پیمانہ ہوں گیاور ابھی سے مسلمانوں کو فٹ بال کی طرح استعمال کرنے کی کوشش شروع ہوگئی ہیں۔ توکیا ایسے موقع پر احتساب جائزہ نہیں ہونا چاہئے یا کوئی زیادہ متحرک بااثر اور فعال گوالا یوپی کی آبادی کے 16فیصد رپورٹ کو اگلے پانچ سال کیلئے کسی کے حوالہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا پانچ سال قبل مسلمانوں کو سماجوادی کی طرف ہنگامے کرنے والوں سے بھی پوچھناچاہئے کہ وہ کیا فرماتے ہیں۔بیچ اس استدلال کے؟
سماجوادی قیادت سے بھی معلوم کرنا چاہئے کہ حضور گستاخی معاف آپ نے جو وعدے فرمائے تھے کیا انہیں شرف قبولیت بخشیں گے۔ شاید مسلمانوں کی ناراضگی کا احساس کرکے لب دم سرکار نے جھاڑ پونچھ کر مسلم ریزرویشن کا نعرہ مستانہ بلند کیا ہے اور اب جبکہ نہ وقت ہے نہ عملی نفاذ کا امکان۔5.13فیصد ریزرویشن کامطالبہ کرتے ہوئے جلد ہی آئینی ترمیم کی تجویز مرکزی سرکار کوبھیجنے کافیصلہ کیا ہے۔ سماجوادی پارٹی نے 2012کے اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے لحاظ سے ریزرویشن کا وعدہ کرتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں میں اقلیتوں کو20فیصد حصہ داری کابھی وعدہ کیا لیکن زمینی سطح پر نتیجہ سفر ہے۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ 50فیصد سے زائد ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا ۔کیا ہم واقعی بے وقوف ہیں یا بے وقوف نظر آتے ہیں ۔ اگرنہیں تو یہ لوگ بے وقوف بنانے کی کوشش کیوں کرتے ہیں ۔
حکومت کی مدت پوری ہورہی ہے ،بے گناہ مسلم نوجوان جن پر کیس لادے گئے باہر نہیں آسکے بازآبادکاری کا سوال تو بعد میںآتا ہے۔ چھ رہاکئے گئے نوجوانوں کو دوبارہ جیل میں ڈالنے کی تیاری شروع ہوگئی ہے۔ آخر انصاف کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں معاملہ یہیں ختم نہیں ہے ۔ اردو کو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت کو سپریم کورٹ کے2013کے فیصلے سے تصدیق مل گئی ۔ اس کے باوجود اردو بھی پرائی عورت کی طرح ہے ۔ آر ٹی آئی جواب پہلے اردو میں دے جاتیتھے اب نہیں۔ انسدادفرقہ وارانہ فساد بل لانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ فرقہ وارانہ فسادات کے ملزمین آزاد گھوم رہے ہیں۔ اترپردیش اقلیتی کمیشن کی سالانہ رپورٹ تیار نہیں ہوتی ۔ خواجہ معین الدین چشتی اور عربی فارسی یونیورسٹی سے اردو عربی فارسی کے نمبرات دیگر سبجیکٹ کی طرح مارکس شیٹ میں نہ جوڑنے کا فیصلہ کیا معنی رکھتا ہے ۔ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کی تقرری میں اردو جاننے کی لازمیت کیوں ختم کردی گئی ۔ اسے مدرسوں سے نہیں جوڑا گیا ایسی بہت سی باتیں ہیں جو کارپیٹ کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ جب تک ٹھیکیداری اور ٹینڈروالی سیاست برقرار رہے گی جب تک صرف ہرانے کیلئے ووٹ ڈالتے رہیں گے، جب تک اندھے بن کر صرف لاٹھی بدلتے رہیں گے، جب تک رات کے اندھیروں میں سودے بازیاں ہوتی رہیں گی ، جب تک کبھی کسی کے نام تو کبھی کسی کے نام کا خطبہ پڑھتے رہیں گے یہ دربدری اور خانہ بدوشی کی زندگی ختم نہیں ہوگی ۔ ہندوستانی سیاست میں صرف وہ اکثریتی فرقہ کی حمایت سے حکومت سازی کا تجربہ مرکزمیں کامیاب رہا اگلی لیباریٹری آسام ہے وہاں بھی شاید یہی ہونے والا ہے اور اس رجحان نے دیگر سیاسی پارٹیوں کے اندر دلچسپی پیدا کی ہے کہ انٹونی رپورٹ اس کی مثال ہے ۔ بین السطور پیغام جتنا جلد پڑھ لیاجائے اچھا ہے، آنے والے حالات حکمت عملی پر نظرثانی کے متقاضی ہیں۔ اقتدار میں حصہ داری صرف زندہ باد مردہ باد کہنے سے نہیں ملتی اگر اترپردیش میں کچھ حاصل نہ کرسکے تو2019 میں 2014سے برا حشر ہوسکتا ہے،خدانہ کرے ایسا ہو۔(ملت ٹائمز)
qasimsyed2008@gmail.com
( مضمون نگار سینئر صحافی اور روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں)

SHARE