شکست خوردگی کا احساس بدترین زوال 

نقطہ نظر : ڈاکٹر محمد منظور عالم 

بابری مسجد کی تعمیر 1527 عیسوی میں ہوئی تھی ۔ اٹھارہویں صدی کے اختتام تک کسی بھی تحریر ،تقریر شاعری اور کسی طرح کے کلام میں ایسا کوئی تذکرہ اور اشارہ نہیں ملتاہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ اجودھیا رام کی جائے پیدائش ہے ۔ بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی ہے ۔اس سلسلے میں سب سے پہلا شوشہ 1822 میں چھوڑا گیا جس کے مطابق رام چندر جی کی جنم استھان پر مسجد کی تعمیر کا ذکر ملتا ہے ہے ۔ یہ دستاویز 1822 میں داروغہ عدالت حفیظ اللہ نے فیض آباد کی عدالت میں پیش کیا تھا۔ انیسویں صدی کے آخری حصے میں اس معاملے میں بڑی تیزی آئی اور اس تنازعے کی کچھ روایتوں میں فرض شدہ مندر کو ایک مقام مل گیا۔ تاہم 1860 کی دہائی تک یہ روات کمزور ہی رہی ۔ بیسویں صدی کی آمد پر یعنی 1905 میں اس فرضی قصے نے فیض آباد کے ڈسٹرکٹ گزیٹیئر میں جگہ پا لی اگرچہ ابھی بھی ” ایک قدیم مندر “ کے انہدام کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس قضیے کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ۔ 1949 میں مسجد کے اندر زبردستی مورتیاں رکھ دی گئی اور مسلسل اسے ہوا دی گئی۔1986 میں ہندوؤں کو متنازع مقام پر اجودھیا کی مقامی عدالت نے پوجا کی اجازت دے دی اور پھر 6 دسمبر 1992 کا وہ سیاہ دن بھی آیا جب آئین اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے شرپسندوں نے مسجد شہید کردی اور ملک بھر میں ہندو مسلم فساد کے دوران تین ہزار بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔
تاریخی شواہد بتارہے ہیں کہ اجودھیا میں رام کی جائے پیدائش کا انیسوی صدی سے قبل کوئی تذکرہ نہیں تھا ،کبھی بھی کسی ہندو نے یہ نہیں کہاکہ اجودھیا رام کی جائے پیدائش ہے نہ ہی کسی نے وہاں مندر پائے جانے یا اسے توڑ کر مسجد بنائے جانے کی بات کی۔ انیسوی صدی میں ایک سازش کے تحت بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا ایشو چھیڑا گیا اس کے پس پردہ برہمن وادکو فروغ دینا ، دلتوں کو غلام بنائے رکھنا اور اس نام کا استعمال کرکے مذہبی طور پر ہندوؤں کے جذبات کو بھڑ کانا تھا ۔اکیسوی صدی کی دوسری دہائی میں آج یہ بات بغیر شک و شبہ یقینی ہوچکی ہے ، عوام کو بھی احساس ہوچکاہے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا دعوی اور مندر بنانے کا وعدہ محض چناوی جملہ ہے ۔ جذبات بھڑکا کر الیکشن لڑنے اور اپنی بالادستی برقرار رکھنے کا اس سے کوئی بہتر نہیں ہے ۔ مذہبی بنیاد پر اس کا استعمال صرف سیاست میں آنے اور حکومت بنانے کیلئے کیا جارہا ہے اور اس طرح برہمنوں نے اپنے مشن میں بآسانی کامیابی حاصل کرلی کیوں کہ جس چیز کا اجودھیا میں کوئی وجود نہیں تھا آج پورے دعویٰ کے ساتھ اسی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اجودھیا رام کی جائے پیدائش ہے ۔ بابری مسجد کی تعمیر رام مندر منہدم کرکے ہوئی تھی ۔ یہ بات عام ہندوؤں کو ذہن نشیں کرادی گئی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہر ہندو یہی سمجھتا ہے کہ واقعی بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی تھی اور اس طرح وہ رام مندر کے نام پر جذباتی ہوجاتا ہے اور کوئی بھی شرپسندی کرنے سے باز نہیں آتا ہے ۔
ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے ۔ آئین اور دستور پر اس کی بنیاد ہے لیکن ایک طبقہ اور گروہ ایسا بھی ہندوستان میں پایا جاتا ہے جس نے آج تک دل سے آئین ہند کو قبول نہیں کیا ہے ۔ یہ آر ایس ایس اور برہمنوں کا گروہ ہے ۔ یہ خود کو آئین اور قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں ۔دوسری طرف یہ بھی تلخ سچائی ہے کہ ہمیشہ آئین اور قانون کو تسلیم کرنے سے گریز کرنے والے تشدد اور انتہاء پسندی کی راہ اپناتے ہیں جبکہ قانون اور آئین پر بھروسہ رکھنے والے قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہوتے ہیں۔ عموماً معاشرہ میں ایک گروہ وہ ہوتا ہے جس کا قانون اور آئین پر بھروسہ ہوتا ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہوتا ہے جسے آئین پر اعتماد نہیں ہوتا ہے ۔ قانون کے دائر ے میں آنے کی کوشش نہیں کرتاہے ۔ یہ گروہ عموماً تشدد اور انتہاء پسندی کی راہ کو اپناتا ہے ۔ چناں چہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازع کے سلسلے میں ان دنوں جس طرح آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ۔ سپریم کورٹ کی توہین اور تنقید کی جارہی ہے اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ دوسرے فریق کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ قانون پر عمل کرنے کی صورت میں ان کی سیاست ختم ہوسکتی ہے اس لئے وہ قانونی دائرہ میں آنے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے اکثریت کے زعم میں قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور جب کسی بھی ریاست میں قانون کی حکمرانی ختم ہوجاتی ہے تو وہاں انارکی اور خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے ۔
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا دعویٰ ،مسجد توڑنے کا عمل اور اب وہاں زبردستی رام مندر بنانے کا منصوبہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے، انہیں دوسرے درجہ کے شہری ہونے کا احساس دلانے کی مکمل سازش اور پلاننگ ہے ۔ یہی وقت ہماری آزمائش اور صبر کا ہے ۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جن قوموں نے ایسے مواقع پر حکمت عملی سے کام لینے کے بجائے خود پر خوف اور دہشت کو سوار کرلیا تھا ان کا انجام انتہائی افسوسناک اور تباہ کن رہا ۔ اجودھیا جانا ،وہاں اجتماع کرنا ۔ میڈیا کے ذریعہ لاکھوں کی بھیڑجمع ہونے کا پیروپیگنڈہ کرنے کا واضح مقصد مسلمانوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنا تھا ایسے موقع پر اگر کوئی خوف زدہ ہوجاتا ہے ۔ سلینڈر کرجاتاہے تو پھر آئندہ اس میں کچھ بولنے اور حق بات کہنے کی جرات باقی نہیں رہ پاتی ہے ۔ اپنی جان بچانے کی فکر میں اسے ہربات تسلیم کرنی پڑتی اور بالآخر ایک دن اس کی جان بھی محفوظ نہیں رہ پاتی ہے ۔ اندلس اور دیگر خطوں میں مسلمانوں کے زوال کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ پہلے انہیں طاقت کا استعمال کرکے خوف زدہ کیا گیا ۔پھر اپنی شرطوں کے مطابق جھکنے پر مجبور کیا گیا ۔ جان کی امان دیکر ان سے ان کے حقوق چھین لئے گئے پھر ایک دن وہ بھی آیا جب انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔
ہندوستان میں بابری مسجد کا قضیہ اور وہاں رام مندر کا دعوی در اصل مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے او رانہیں اکثریت کی طاقت کا خوف دلاکر اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی سازش کو عملی جامہ پہنانا ہے تاکہ مسلمان پھر اس ملک میں کبھی سر نہ اٹھاسکیں ۔ وہ اکثریت کی طاقت کے سامنے ان کی تمام شرطوں پر کو ماننے کیلئے مجبور ہوجائیں ۔ ایسے مواقع کی حقیقت جاننے ۔ سچائی تک پہونچنے اور سازشوں کا علم حاصل کرنے کیلئے تین چیزیں ضروری ہوتی ہے ۔ مختلف مذاہب کی فطرت سمجھنا ۔ قانون کو سمجھنا اور سماج کی فطرت کو سمجھنا ۔
آج جولوگ بابری مسجد سے دستبر دار ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں اس امید پر کہ آئندہ کسی اور مسجد پر دعویٰ نہیں ہوگا ۔ مسلمانوں کو پریشان نہیں کیا جائے گا انہیں مذکورہ تینوں باتو کو سمجھنا اور اس پر غور وفکرنا چاہیئے تبھی حقیقت سے واسطہ پڑے گا ۔ عقل و فراست کام کرے گی اور اندازہ ہوگا کہ اس کے پس پردہ کیا سازش ہے ؟ کیوں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا دعویٰ کیا گیا ہے ؟ کیوں مسلمانوں کو بابری مسجد سے دستبردار ہوجانے کا مشورہ دیا جارہا ہے اور جب ایک مرتبہ مسلمان خوف زدہ ہوجائیں گے ۔ اکثریت کی طاقت کے سامنے جھک کر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر شروع ہوجائے گی تو کیا مسلمانوں کیلئے آئندہ اکثریت کا مقابلہ کرنا ،ان کا سامنا کرنا اور اپنے حق پر قائم رہنے کا حوصلہ برقرار رہے گا ! نہیں یہ ممکن نہیں ہے ۔ آئندہ جرأت ختم ہوجائے گی ۔ ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی اور چار ہ نہیں ہوگا کیوں کہ نفسیاتی طور پر شکست خوردگی کا احساس کرلینے کے بعد کوئی بھی قوم سر اٹھانے کی جرأت نہیں کرپاتی ہے ۔ ہمیشہ اسے اپنی جان کی فکر ہوتی ہے اور اس کے تحفظ کیلئے وہ ہر چیز گروی رکھ دینے اور تمام شرطوں کو مان لینے کیلئے تیار ہوجاتی ہے ۔ بالآخر ایک دن وہ بھی آتا ہے جب اس کی جان بھی لے لی جاتی ہے۔ اس لئے سوچنا ہوگا، غور وفکر کرنا ہوگا اور اپنے اندر سے شکست خوردگی کے احساس اور خوف و دہشت کو نکال کر پوری قوت کے ساتھ قانونی جنگ لڑنی ہوگی ۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہندوستان کا آئین بہت جامع ہے ۔ تمام طبقہ اور مذاہب کو مکمل نمائندگی دی گئی ہے ۔ اس لئے قانونی جنگ لڑکر انہیں آئینہ دکھانا ضروری ہے۔ مسلم قائدین کی کامیابی بھی اسی میں ہے کہ قانون کا سہارا لیکر مسلم عوام اور قوم کو اعتماد میں رکھیں ۔ تاریخی حقائق اور شواہد سے انہیں مطلع کریں اور حوصلہ رکھیں ۔ حالات سے مقابلہ کرنے کی جرأت رکھیں ۔ ورنہ خودسپردگی کے بعد ابھی سے ہماری تباہی و بربادی کی شروعات ہوجائے گی ۔
ایک اہم سوال ملک کے انصاف پسند ، سیکولر اور سول سوسائٹی سے بھی ضروری ہے کہ مضبوط ترین قانون ، مکمل تاریخی شواہد اور حقائق ہونے کے باوجود کیا یہ صرف مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اجودھیا میں انہدام کی گئی بابری مسجد کی تعمیر کیلئے جدوجہد کرے ، کیا اس ملک کے انصاف پسند اورسیکولر طبقہ کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے ۔ آئین کے وقار کو بلند کرے اسے مجروح ہونے سے بچائے اور ان لوگوں کے خلاف جنگ لڑے جو ہندوستان کی جمہوریت اور آئین کیلئے خطرہ بن چکے ہیں او رسرے عام اسے چیلنج کررہے ہیں ؟۔ آئین ہند کے اہم ترین بانی با بابھیم راؤ امبیڈکر ہیں ۔تمام قوموں اور مذاہب کے رہنما نے ان کا ساتھ دیا تھا ۔ لیکن آج جب قانون کے تحفظ اور آئین بچانے کی بات چل رہی ہے تو صرف مسلمانوں سے ہی کیوں قربانیاں طلب کی جارہی ہیں؟ ۔ بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر قانون کی بالادستی کی شناخت ہوگی اور اس کیلئے ان تمام طبقہ کو میدان میں آنا ہوگا جس کا آئین اور دستور پر یقین ہے ۔
 تعداد اور بھیڑ اکٹھا کرنے کی بات کرنے والے ہندو اور مسلمان کے اس گروپ کو بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیئے کہ تعداد اور بھیڑ ہمیشہ تخریب کاری کرتی ہے ، مسمار کرتی ہے کبھی بھی وہ تعمیر نہیں کرتی ہے ۔ اگر تعداد سے کام ہوتاتو اکثریت کا دعوی کرنے والی کمیونٹی بہت پہلے رام مندر تعمیر کرلیتی ۔ عقل مندی اور فہم و فراست کا تقاضا یہی ہے کہ آئین کا سہارا لیا جائے ۔ سپریم کورٹ میں مضبوطی کے ساتھ قانونی جنگ لڑی جائے ۔ اپنے دلائل اور تاریخی شواہد پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں ۔ ہر گز کسی کے دباؤ میں آنے کے بجائے مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف کو دنیا کے سامنے پیش کریں ۔

(مضمون نگار معروف اسلامی اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)
media.millicouncil@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں