مسلكی ہم آہنگی كے علمبردار – مولانا اسرار الحق قاسمی

ڈاكٹر ظل الرحمن تیمی
معروف قلمكار و دانشور، ایمان دار ممبر پارلیمنٹ اور ملت اسلامیہ كے مخلص و ہمدرد مولانا اسرار الحق قاسمی كے اچانك سانحہ ارتحال سے دعوتی وسماجی اور تعلیمی وسیاسی دنیا میں ایك اہم خلا پیداہوا ہے۔ آپ متواضع وخلیق ہونے كے ساتھ ساتھ اچھے قلمكار، ہر دلعزیز سیاست دان، مایہ ناز داعی ومبلغ اسلام اور حق وصداقت كے علمبردار تھے۔ پوری زندگی ملت اسلامیہ ہند كی تعلیمی ودعوتی اور سیاسی بیداری كے لیے لكھتے اور بولتے رہے اور مرنے سے چند گھنٹے پہلے بھی آپ كی زبان اپنے مشن میں رواں دواں تھی كہ موت كا بلاوا آیا اور آپ اپنے مالك حقیقی سے جاملے۔ اللہ تعالی آپ كی قبر كونور سے بھر دے اور آپ كو جنت الفردو س میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین
ہماری آپ سے ملاقات كوئی چودہ پندرہ سال قبل ہوئی جب آپ آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن كے صدر ہونے كے ساتھ كئی ساری ملی وسماجی ذمہ داریوں سے جڑے تھے۔ایك ملاقات دہلی كے دریا گنج میں ایك میٹنگ میں ہوئی جب آپ ڈاكٹر محمد لقمان السلفی حفظہ اللہ سے ملنے آئے تھے ۔آپ سے ایك یادگار ملاقات اس وقت ہوئی جب میں مجلہ طوبی كا انٹرویو لینے كےلیے آپ كے دفتر واقع ذاكر نگر پہنچا اور آپ سے تفصیلی بات چیت ہوئی جو مجلہ طوبی میں تفصیل سے شائع بھی ہوئی۔ آپ اپنے مشن میں یوں ہی رواں دواں رہے ۔ سیاست میں كچھ كرگذرنے كے آپ كے جذبے كو بھی اللہ تعالی شرمندہ تعبیر كیا اور آپ دو مرتبہ لوك سبھا میں منتخب ہوكر آئے او ر ملك وملت كی جو صدا آپ راشٹریہ سہارا اور دوسرے مجلات واخبارات میں كالمز لكھ كر لگاتے تھے ، وہی صدا آپ پارلیمنٹ كے ایوان سے بلند كرنے لگے اور پرزور طریقہ سے۔
آپ سے آخری ملاقات پارلیمنٹ ہاؤس كے باہر ہوئی۔ میری تقرری راجیہ سبھا میں بحیثیت فوری مترجم ہوئی تھی ، ایك دن میں پارلیمنٹ سے نكل كرریل بھون كی طرف جا رہا تھا، دیكھا مولانا اكیلے بغیر كسی سیكوریٹی گارڈ كے پارلیمنٹ ہاؤس كی طرف جارہے ہیں۔ یہ كوئی 2014 كے ستمبر كی بات ہے۔ یہ كسی ایم پی كے لیے انفرادی بات تھی كہ وہ پیدل اور وہ بھی كسی سیكوریٹی كے لیے پارلیمنٹ كی طرف رواں دواں ہو۔ میں نے سلام كیا، علیك سلیك كے بعدمیں نے چند دنوں كے بعد رحیق گلوبل اسكول میں منعقدہونے والے سالانہ فنكشن میں شركت كی دعوت دی۔ آپ نےمعذرت كی اور كہا كہ انہیں دنوں وہ كشن گنج میں كئی سارے پراجیكٹ كا افتتاح كریں اور اس كےلیے ڈی ایم اور دوسرے كئی افسران كے ساتھ پروگرام طے ہوچكا ہے۔ پھر میں نے لگے ہاتھوں اسكول میں تشریف لانے اور اپنے قیمتی مشورے دینے كی درخواست كی جسے آپ نے فورا قبول كرلیا اور آنے كاوعدہ كیا۔یہ تھا آپ كا تواضع اور جذبہ ملنساری اور عوامی ہمدردی ۔
آپ تمام مسالك كے علماء وعوام كی قدر كرتے تھے۔ سبھوں سے ملتے ، سبھوں كو اپنے یہاں بلاتے اور سبھوں كے یہاں جاتے تھے۔ اہل مدارس وجامعات میں حسب دعوت آپ كی زیارت اس كی واضح مثال ہے۔ ایك مرتبہ صوبہ بہار كے مشرقی چمپارن میں مسلكی فتنہ كو ہوا دینے كےلیے كچھ طاقتیں ہمہ تن مصروف تھیں ، اس وقت بھی آپ نے زبردست ملی حمیت كا ثبوت دیا اور مسلكی عناد پیدا كرنے والی طاقتوں كو كرارا جواب دیا۔ ہوا یوں تھا كہ كچھ لوگوں نے جامعہ امام ابن تیمیہ كے مؤسس ورئیس ڈاكٹر محمد لقمان السلفی صاحب كی طرف منسوب ایك جعلی خط پھیلا دیا تھا جس میں حنفی مسلك ، حنفی فقہ اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ كے خلاف نہایت ہی سخت او ر لعن طعن كی زبان استعمال كی گئی تھی۔ سازشیوں كا مقصد پورے علاقے میں مسلكی زہر گھول كر امت مسلمہ كو مسلكی لائن پر برسر پیكار كرنا اور آپس میں لڑاناتھا اسی كے ساتھ ساتھ جامعہ امام ابن تیمیہ كی دن دونی رات چوگنی ترقی كو روكنا تھا۔ اس خط كے پھیلتے ہی جیسے ڈاكٹر محمد لقمان سلفی صاحب كو اس كی خبر ہوئی آپ نے اس كی تردید كی اور مباہلہ كی دعوت دی ۔ ڈاكٹر صاحب كی تردید كے بعد حنفی مسلك كے جن چوٹی كے علماء نے اس سازش سے محتاط رہنے اور مسلكی ہم آہنگی بنائے ركھنے اور اس خط كے جعلی ہونے كا اعلان كیا ان میں آپ سرفہرست تھے۔ آپ كے كئی بیانات راشٹریہ سہارا میں شائع ہوتے ر ہے۔ آپ كے تردیدی بیانات اور وضاحتوں كا علاقہ پر بہت مثبت اثر ہوا اور دونوںمسلك كے لوگ كسی طرح كی ہنگامہ آرائی كے بجائے محبت والفت اور بھائی چارہ اور صبر كےساتھ رہے۔
حقیقت یہ ہے كہ مولانا ایك منجھے ہوئی صحافی تھے۔ اچھے داعی وخطیب اور بلند پایہ مصلح تھے۔ وقت كے نبض شناس اور عوامی لیڈ ر ہونے كے ساتھ نہایت متواضع انسان تھے۔ جو آپ سے ایك مرتبہ ملتا وہ آپ كا اسیر ہوجاتا ۔ مولانا سیاسی بصیرت میں اپنی انفرادی شان ركھتے تھے۔ مسلمانوں كو ہندوستان میں سیاسی شعور پروان چڑھانے اور تعلیمی بیداری كی دعوت تھے۔ لو ك سبھا كا آپ كا دو ٹرم اس كی واضح مثال ہے۔ آپ اچھے صحافی ، مایہ ناز خطیب اور مشہور سیاست دان ہونے كےساتھ ساتھ مسلكی ہم آہنگی كے نقیب وعلمبردار بھی تھے۔ آپ كی مسلكی رواداری كو مذكورہ واقعہ سے بخوبی سمجھا جاسكتا ہے۔ ہم اللہ تعالی سے دعا كرتے ہیں كہ وہ آپ كے حسنات كو قبول فرمائے اور آپ كی لغزشوں كو معاف فرمائے اور جنت الفردوس میں آپ كو اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔
اسسٹنٹ پروفیسر، امام محمد بن سعودیونیورسٹی ، ریاض
ڈائركٹر رحیق گلوبل اسكول ، نئی دہلی