مودی سرکار کا دوسرا سال وعدوں اور خوابوں کے نام

مودی سرکا ر کے دو سال مکمل ہونے پر خصوصی تحریر
اشرف استھانوی کے قلم سے
نریندر مودی حکومت کا دو سال پورا ہو چکا ہے۔ کسی بھی حکومت کی خوبیوں اور خامیوں کو پرکھنے کے لیے دو سال کی مدت بہت زیادہ نہیں ہوتی ہے مگر چونکہ خود مودی حکومت نے ہی اپنی دو سال کی حکومت کی حصولیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے اور دو سال بنام دس سال کا نعرہ دے کر اس کا سابقہ حکومت سے موازنہ بھی شروع کر دیا ہے، ایسے میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس کی حصولیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیا جائے اور حکومت کی کارگزاریوں کا محاسبہ کرتے ہوئے اسے حقیقت کا آئینہ دکھایا جائے۔
نریندر مودی اور ان کی پارٹی نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ملک کی عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے تھے اور لوگوں خاص طور سے نئی نسل کے لوگوں کو سبز باغ اور سنہرے خواب دکھائے تھے۔ سب سے بڑا وعدہ مہنگائی ختم کرنے کا تھا جس سے عام انتخابات کے وقت ملک کے لوگ پریشان تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیا مہنگائی ختم ہو گئی؟ ارے ختم ہونے کی بات تو دور رہی، اس میں کوئی کمی نہیں آئی اور چونکہ ہم نہیں خود مودی حکومت بھی اپنے کاموں کا موازنہ گزشتہ دس برسوں کے دوران ہوئے کاموں سے کر رہی ہے اس لیے ہم بھی ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مہنگائی ختم یا کم ہونے کی بجائے کئی گنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔ پٹرول و ڈیزل کے دام انتہائی تیزرفتاری کے ساتھ بڑھ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں عام استعمال کی چیزیں لگاتار مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں تخفیف یا اضافہ کن حالات میں ہوتا ہے یہ ہم بھی جانتے ہیں مگر چونکہ مودی اور ان کی پارٹی کے لوگوں نے قبل ہونے والے اضافہ کے لیے کانگریسی حکومت کو ذمہ دار قرار دیا تھا بعد میں جب اس میں تخفیف کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو اس کا سہرا بھی اپنے سر باندھتے ہوئے اپنی حکومت کو خوش قسمت قرار دیا تھا۔ اس لیے اب یہ سوال ان سے یہ ہونا لازمی ہے کہ آپ کی خوش قسمت حکومت میں پٹرول اور ڈیزل کے دام کیوں بڑھ رہے ہیں؟ آپ اسے روکنے میں کیوں ناکام ہیں؟ مہنگائی کے لیے کسی حد تک قدرتی آفات بھی ذمہ دار ہیں مگر پھر وہی سوال آئے گا کہ مثالی خوش قسمت حکومت کے آتے ہی قدرتی آفات کا سلسلہ کیسے شروع ہوگیا اور ہر مسئلہ کو چٹکی بجا کر حل کر لینے والی پارٹی اب ہر محاذ پر خود کو کمزور بلکہ بے بس کیوں پا رہی ہے؟
دوسرا بڑا وعدہ غیر ملکوں میں چھپا کر رکھے گئے کالے دھن کو مقررہ مدت میں واپس لانے اور ہر ہندستانی کے اکاؤنٹ میں ۱۵ سے ۲۰ لاکھ روپے جمع کرانے کا تھا۔ ۱۵ پیسے بھی ابھی تک واپس نہیں آئے اور نہ ہی کسی ہندستانی ا کاؤنٹ میں کچھ جمع ہوا۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت دینے کا وعدہ خود مودی حکومت نے آتے ہی آتے واپس لے لیا تھا اور ایک سال کی پابندی عائد کر دی تھی مگر دو سال حکومت کو ہو گئے اس سمت میں کوئی خاص پیش رفت نہیں پائی ہے۔
Modiایک محاذ پر یقیناًتمام سابق وزرائے اعظم کو نریندر مودی نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ا نھوں نے دو سال کے اندر وزیر خارجہ کے رہتے ہوئے تقریباً ۶۰ غیرملکی دورے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کے وزیر اعظم یا سربراہِ مملکت کے غیرملکی دوروں کے دو اہم مقاصد ہوتے ہیں۔ پہلا تعلقات کو استوار بنانا اور باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس محاذ پر بھی حکومت کو ناکامی ہی ہاتھ آئی ہے۔جو دورے ہو رہے ہیں وہ مذہبی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔ مودی حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کو مذہبی رنگ دے دیا ہے۔ پھر بھی اُن کا دعوی ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی اب تک کی سب سے بہتر خارجہ پالیسی ہے۔ اُن کے دوروں میں مذہبی شدت پسندی صاف دکھائی پڑتی ہے۔ وہ خود کو ہندستان جیسے سیکولر ملک کا نمائندہ نہ ظاہر کر کے ہندوتوا کا نمائندہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں، جس سے ملک کی سیکولر شناخت متاثر ہو رہی ہے۔ اقلیتی فرقہ ملک کے اندر تو نظرانداز تو ہے ہی بیرونی ممالک کے دوروں میں بھی اقلیتی فرقہ یا ان کی تہذیب و ثقافت پوری طرح نظرانداز رہتی ہے۔ ملک کی ۲۰ کروڑ مسلم آبادی مشکوک نظروں سے دیکھی جا رہی ہے۔ دوسالہ مودی حکومت میں فرقہ پرستوں نے فرقہ وارانہ ایشو اٹھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ہندو مذہبی کتاب بھگوت گیتا کو قومی کتاب کا درجہ دےئے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ بنگالی مسلمانوں کو بنگلہ دیشی بتایا گیا اور پنک ریولیوشن پر زوردار بحث ہوئی۔ عدم رواداری میں اضافہ ہوا، آئینی اداروں میں ایک خاص نظریے کے لوگوں کو مسلط کیا جاتا رہا۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں گورنروں کی جو تقرری ہو ئی ہے ان میں اکثریت آرایس ایس نظریات کے لوگوں کو عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔
دو سالوں میں پڑوسی ممالک سے ہمارے تعلقات میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ اس کے برعکس حالات خراب ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ جس طرح کے تعلقات واجپئی حکومت کے دوران تھے، آج تو اس کا تصور بھی محال ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس معاملے بھی اپنے تمام پیش رو وزرائے اعظم کو پیچھے چھوڑ دینے کا دعویٰ کرتے ہوں۔ جن ممالک کے دورے ہوئے ان کے ساتھ کتنے ایم او یو سائن ہوئے یا اُن ملکوں کے ساتھ تجارتی روابط کس حد تک استوار ہوئے۔ یا ملک میں سرمایہ کاری کی راہیں کس حد تک ہموار ہوئیں یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب موجودہ حکومت دینے سے قاصر رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کا دورہ بھی کیا ہے مگر اُن کا دورہ بھی مایوس کن رہا۔ سرحدی تنازعہ سلجھنے کی بجائے مزید اُلجھ گیا۔ پڑوسی ملک نیپال سے بھی ملک کے تعلقات انتہائی ناخوشگوار ہیں۔ نیپال میں آئے تباہ کن زلزلے کے بعد وہاں کے مصیبت زدہ عوام کی مدد کے نام پر جس طرح مودی حکومت نے ڈرامہ کیا اور میڈیا نے اس میں جس طرح کا تڑکا لگایا، اُس نے نیپال کی عوام کو مشکور و ممنون ہونے کی بجائے انھیں ذلیل و رُسوا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ نیپال کے مصیبت زدہ عوام اپنا درد و غم بھول کر گو بیک انڈیا کا نعرہ دینے پر مجبور ہوگئے۔ ہندستانی حکومت اور عوام کی مدد کے بدلے اتنی بڑی تذلیل کی کوئی اور مثال نہیں ہو سکتی ہے۔ نیپال کا نیا آئین بن گیا ہے۔ ملک سیکولر ملک قرار دے دیا گیا ہے مگر مدھیشی اپنی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نیپال حکومت کا کہنا ہے کہ نریندر مودی حکومت مدھیشیوں کی سرپرستی کر رہی ہے اس کے باعث نظم و نسق کی صورتحال کو قابو کرنے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہاں کی حکومت نے اقوام متحدہ میں حکومت ہند کے خلاف ایک عرضداشت بھی پیش کر کے نریندر مودی حکومت کو اپنے دائرے میں رہنے کی اپیل کی ہے۔
ملک کے بڑبولے وزیر اعظم نریندر مودی ۵۶ انچ کا سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ان کی دو سالہ حکومت میں کوئی داغ نہیں لگا ہے، کوئی گھوٹالہ نہیں ہوا، کوئی سوالیہ نشان نہیں لگا۔ مودی اور ان کی ٹیم کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ سابقہ حکومت کے دوران کوئی بھی خرابیاں عوام کا مقدر بنی ہوئی تھیں وہ سب ان دو سالوں میں دور کر دےئے گئے۔ اب ملک میں نہ کوئی گھوٹالہ ہے، نہ کوئی کرپشن ہے اور نہ کوئی دھوکہ اور فریب ہے یعنی بُرے دن گزر چکے ہیں۔ لیکن لوگوں کو پتہ ہے کہ سنگھ پریوار کی چہیتی اور مودی حکومت کی وزیر خارجہ ششما سوراج، راجستھان کی وزیراعلیٰ بسوندھرا راجے سندھیا، وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی اور پنکجا منڈے جیسے کئی اہم لیڈروں کے خلاف معاملے آگئے ہیں اور کئی معاملے آنے کے لیے بیتاب ہیں۔
۲۰۱۵ میں ہوئے بہار اسمبلی انتخابات میں نریندر مودی اینڈ کمپنی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ ۲۰۱۶ میں اختتام پذیر پانچ ریاستوں میں ہوئے انتخابات کے نتائج بی جے پی کے لیے بہت حوصلہ بخش نہیں ہے۔ خواہ آسام میں علاقائی پارٹی کے اتحاد کی بدولت اور سیکولر ووٹوں کے منتشر ہونے کے باعث بی جے پی کی حکومت بن گئی ہے لیکن چار دیگر ریاستوں میں پارٹی کا مظاہرہ بہت ہی خراب رہا ہے۔ کئی ریاستو ں میں تو اس کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا۔
نریندر مودی حکومت اس وقت جن باتوں کا بطور خاص ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے اُس میں پلاننگ کمیشن کا نام بدل کر نیتی آیوگ بنا کر اسے فعال کرنے کی بات کہی ہے۔ حالانکہ نام بدلنے سے کام نہیں بدل جاتا۔ ملک کی معاشی حالت اچھی نہیں ہے۔ منموہن سنگھ حکومت میں شرح نمو 7.9 ہوا کرتا تھا وہ اب گھٹ کر 5.8 پر آگیا ہے۔ ماہر اقتصادیات اور بی جے پی کے قد آور لیڈر ارون شوری وزیر اعظم نریندر مودی کو ملک کا سب سے ناکام وزیر اعظم قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منموہن سنگھ اور مودی میں کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔
نریندر مودی حکومت میں وزراء بے وقعت ہو گئے ہیں۔ اُن کے سارے اختیارات پی ایم او نے سلب کر رکھا ہے۔ ان کی مرضی و منشا کے مطابق محکمے کے سکریٹری نہیں دستیاب کرائے جاتے۔ خلاصہ کلام یہ کہ دو سالہ مودی حکومت میں عوام و خواص کو سخت پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا ہے۔ حکومت لاکھ دعویٰ کرے کہ دن اچھے آگئے ہیں لیکن دن اچھے نہیں آئے اور مودی حکومت کے خلاف لوگ اب سڑکوں پر اترنے لگے ہیں۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینئر صحافی اور مصنف ہیں)
ashrafastanvi@gmail.com