طلاق ثلاثہ مخالف، بی جے پی اور بورڈ 

 ڈاکٹر محمد منظور عالم

بی جے پی حکومت نے ایک مرتبہ پھر مسلم خواتین سے ہمدردی کے نام پر طلاق بل کا مسئلہ اٹھا دیا ہے ۔ سال گذشتہ دسمبر 2017 میں غیر ضروری طور پر مودی سرکار پالیمنٹ میں ایک بل لیکر آئی تھی مسلم خواتین کے شادی کا تحفظ بل۔ لوک سبھا میں یہ بل بآسانی پاس بھی ہوگیا تھا تاہم راجیہ سبھا میں یہ بل پاس نہیں ہوسکا ۔ جس کے بعد اسی سال ستمبر 2018 میں حکومت نے آرڈیننس جاری کردیا۔ اب حالیہ سرمائی اجلاس میں 17 نومبر کو مودی سرکار نے کچھ ترمیمات کے ساتھ دوبارہ لوک سبھا میں بل پیش کردیا ہے ۔

بی جے پی حکومت کو ایسا لگتاہے کہ طلاق کا مسئلہ چھیڑ نے اور مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کرنے کی وجہ سے اس کا ہندو ووٹ بینک خوش ہوگا۔ انتخابات میں کامیابی ملے گی نیز مسلم خواتین بھی بی جے پی کو اپنا مسیحا مان کر ووٹ کریں گی اس لئے وہ مسلسل طلاق ثلاثہ مخالف بل کو موضوع بنائے ہوئی ہے۔ جبکہ یہ بی جے پی کی محض خام خیالی ہے ۔پانچ ریاستوں کے آئے انتخابات کے نتائج نے واضح طور پر بتادیاہے کہ ہندوستان کی عوام سمجھدار ہیں۔ و ہ مذہبی مسائل میں الجھنے اور جذباتی موضوعات کے بجائے بنیادی مسائل کو اہمیت دیتے ہیں ۔ ووٹ دینے کی ترجیحات ان کے یہاں مسجد ، مندر ، قبرستا ن ، شمسان گھاٹ ، پاکستان، حب الوطنی ، مسلم پرسنل لاء میں مداخلت اور طلاق جیسے ایشوز نہیں ہیں بلکہ وہ تعمیر و ترقی کے ایجنڈہ پر ووٹ دیتے ہیں ۔

طلاق ثلاثہ مخالف بل کا مقصد بی جے پی ہمیشہ یہ بتاتی ہے کہ اس کے ذریعہ وہ مسلم مردو خواتین کے درمیان تفریق ختم کرنا چاہتی ہے۔ مسلم خواتین کو انصاف دلانا مقصد ہے۔ ان کا مانناہے کہ مسلمان اپنے خواتین کو برابری کا حق نہیں دیتے ہیں۔ پی ایم مودی لاقلعہ کی فصیل سے بھی اس کا تذکرہ کرچکے ہیں ۔ملک کی میڈیا بھی بی جے پی کی اس مہم میں ان کا بھرپور ساتھ دیتی ہے۔ ہر ممکن کوشش ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایسے مسائل اٹھائے جائیں، ان کے جذبات کو بھڑکایا جائے ، اشتعال دلایا جائے لیکن مسلمانوں نے ہمیشہ صبر سے کام لیا ہے ۔ دانشمندی کا ثبوت پیش کیاہے۔ جہاں تک بات مساوات اور انصاف کی ہے تو یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے خواتین کو سب سے زیادہ عزت واحترام ،وقار اور مساوات دیا ہے ۔اسلا م میں مردو خواتین کے درمیان کوئی تفریق نہیں برتی گئی ہے ۔ جہاں بظاہرتفریق نظر آتی ہے تو وہ صنفی تخلیق کے پیش نظر ہے اور ایسے تمام مواقع پر خواتین کا احترام ،ان کا وقار اور ان کی عصمت کو ترجیح دی گئی ہے ۔ کشادہ ذہن ، وسیع قلب اور صحیح سوچ و فکر رکھنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں ۔ جو سمجھنا نہیں چاہتے ہیں ، جنہیں ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کرنا سکھایا گیا ہے ۔ جن کا مزاج میں عصبیت بھر ی ہوئی ہے انہیں یہ سب سمجھایا بھی نہیں جاسکتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کو کیا حقوق حاصل ہیں جس کی نظیر دنیا کی کسی اور قوم اور تہذیب میں نہیں ملتی ہے۔ مسلمانوں پر خواتین کو یکساں حقوق نہ دینے والوں کو ذرا اپنا بھی جائزہ لینا چاہیئے کہ جس مذہب کے وہ پیروکار ہیں وہاں عورتوں کی کیا حیثیت ہے، انہیں سماج میں کیا عزت دی جاتی ہے۔ منواسمرتی میں عورتوں کے بارے میں کیا کہا گیا ہے۔ حال ہیں میں سبر یمالہ مندر پر سپریم کورٹ کے آئے فیصلہ کی بی جے پی نے جس طرح مخالفت کی ہے اس سے حقیقی چہرہ دنیاکے سامنے عیاں ہوگیا ہے کہ بی جے پی خواتین کے تئیں کتنی ہمدرد ہے، وہ خواتین کس طرح کا مساوی حق اور یکساں حق دینا چاہتی ہے اور اس کا اصل ایجنڈا کیاہے ۔

مودی سرکار کے طلاق بل پر متعدد مرتبہ بحث ہوچکی ہے ، اس بل کی خامیوں اور خرابیوں کی ایک طویل فہرست ہے جس سے ذرہ برابرہ بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا ہے تاہم اس سلسلے میں ہندوستانی مسلمانوں کے مشترکہ باوقار پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو بھی اپنی ذمہ داریاں کچھ بہتر انداز میں نبھانی ہوگی۔ یہ بات مان لیجئے کہ بی جے پی اس بل کو پاس کرانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی، کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں بھی اس بل کی مخالفت نہیں کررہی ہیں ان کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ اس میں کچھ ضروری ترمیمات کی جائیں۔ اگر 2019 میں حکومت بدل بھی جاتی ہے تو بہت ممکن ہے کہ نئی سرکار اسے موضوع بحث بنائے۔ ایسے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو چاہئے کہ و ہ خود اپنا ایک مسودہ تیار کرے۔ ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کریں اور ان کے سامنے یہ مسئلہ پیش کریں۔ گفت وشنید کا سلسلہ شروع کریں کیوں کہ طلاق کے مسئلہ کو جس طرح سے گذشتہ چند سالو میں ملک کے کچھ لیڈران اور میڈیا ہاؤسز نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے وہ اتنا آسانی سے سرد پڑنے والا نہیں ہے اس لئے یہ بھی ایک صورت ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ خود ایک مسودہ تیا رکرے۔ ارکان پارلیمنٹ اورمتعدد پارٹیوں سے ملاقات کرکے کہے کہ ہم خود یہ چاہتے ہیں کہ طلاق کے نام پر مسلم خواتین کو پریشانیاں نہ ہوں، تین طلاق کی شرح کم سے کم ہوں اوراس کے سد باب کیلئے ہمارے پاس یہ ایجنڈا اور لائحہ عمل ہے ۔ 

(مضمون نگار معروف اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل جنرل سکریٹری ہیں)  

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں