قاضی محمد فیاض عالم قاسمی
بابری مسجد مغل سلطنت کے پہلے بادشاہ محمد ظہیرالدین بابرؒ کی طرف سے منسوب ہے۔ انھوں نے ۱۵۲۸ء میں صوبہ اترپردیش کے فیض آباد ضلع میں ایودھیا کے مقام پر وہاں کے گورنر میر باقی اصفہانی ؒ کی نگرانی میں سرکاری خزانہ سےیہ مسجد تعمیر کروائی، پوری مسجد کو پتھروں اور چھوٹی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ،جس میں صحن بھی شامل تھا۔ چھت کے ساتھ تین گنبد بنائے گئے جن میں درمیانی گنبد بڑا اور اس کےدائیں بائیں دو چھوٹے گنبد تھے۔ گنبد چھوٹی اینٹوں سے بنا کر اس پر چونا کا پلستر کیا گیا تھا۔ مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو بلند بنایا گیا روشنی اور ہوا کے لیے جالی دار کھڑکیاں نصب تھیں۔ مسجد کے مسقف حصہ میں تین صفیں تھیں اور ہر صف میں ایک سو بیس نمازی کھڑے ہوسکتے تھے، صحن میں چار صفوں کی وسعت تھی، اس طرح بیک وقت ساڑھے آٹھ سو مصلی نماز ادا کرسکتے تھے۔ اندرونی تعمیر میں ایک انتہائی خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصے میں آسانی سے سنا جا سکتا تھا۔ الغرض یہ اسلامی فن تعمیر کا شاہکار تھا۔ تعمیر مسجد کے بعد سے بلاناغہ مسلسل اذان اور نماز ہوتی رہی، امام و مؤذن بھی مقرر ہوتے رہے۔
ساڑھے تین سو سال کے بعد ۱۸۵۵ء میں جب ہندوستان پر انگریز قابض ہورہے تھے اور ان کے خلاف ہندو مسلم متحد ہورہے تھے تو انھوں ایک بدھسٹ نجومی کے ذریعہ ایک کہانی گھڑوائی کہ شری رام چندر جی کی جنم استھان (جائے پیدائش) اور شرمتی سیتا کی رسوئی (باورچی خانہ) بابری مسجد کے احاطہ میں ہے۔ اس لیے ہندؤوں نے اس مقام پر پوجا کرنا چاہا، یہیں سے اختلاف شروع ہوا، ۱۸۵۷ء کےحالات کی وجہ سے علاقہ کے مسلم رہنما جناب امیرعلی اور ہندو رہنما بابا چرن داس صاحبان نے ایک معاہدہ کیا، جس کے مطابق دونوں نے مسجد اورپوجا کی جگہ کو تقسیم کرلیا، مگر انگریز کو یہ پسند نہیں آیا اور فیض آباد پر قابض ہوتے ہی انھوں نے ان دونوں کو ایک ساتھ املی کے پیڑ پر ٹکاکر پھانسی دیدی، اور ان کی طرف سے کئے گئے معاہدہ کو کالعدم قرار دیدیا۔ مگر محض دو سال کے بعد ہی۱۸۵۹ء میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی جانب سے عبادت کی جگہ کو جنگلہ لگاکرتقسیم کر دیا گیا۔ اس طرح کے اختلافات کی وجہ سے ۱۸۶۰ء بابری مسجد کا باضابطہ طور پر رجسٹریشن کرایا گیا۔
۱۵؍جنوری ۱۸۸۵ء کو سب جج فیض آباد کی عدالت میں مسجد سے سو قدم کے فاصلے پر رگھوبر داس نامی شخص نے مندر تعمیر کرانے کی اجازت مانگی جو رد ہوگئی۔
اسی طرح۱۹۳۴ء میں ایودھیا کے قریب ایک گاؤں میں گاؤ ذبیحہ کی بنیاد پر ہندو مسلم فساد ہوگیا، ہندؤوں نے مسجد کو نقصان پہونچایا مگرانگریزحکومت نے سرکاری خزانہ سے اس کی مرمت کرادی۔۱۹۴۶ء میں وقف کمشنر کی جانب سے مسجد کو ” سنی مسجد” قرار دیا گیا۔
ہندوستان کی آزادی کےمحض دو سال کے بعد ہی یعنی ۲۲؍ اور ۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ء روز جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات میں ایودھیا کے ہنومان گڑھی مندر کے مہنت ” ابھے رام داس ” نے اپنے کچھ چیلوں کے ساتھ مسجد میں گھس کر عین محراب کے اندر ایک مورتی رکھ دی۔ صبح جب مؤذن صاحب اذان دینے کے لیے آئے تو محراب کے پاس مورتی دیکھ کر حیران ہوگئے، پھر دھیرے بات پھیلتی گئی، ہندؤوں سے پوچھنے پر انھوں نے جھوٹ کا سہارا لیا اور کہا کہ مورتی اچانک نمودار ہو گئی ہے، لیکن بااثر لوگوں کے کہنے پر مورتی ہٹادی گئی اور مسلمانوں نے فجر کی نماز جیسے تیسے ادا کرلی۔ دن کے چڑھنے کے ساتھ یہ بات پورے ملک میں پھیل گئی۔ فیض آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے وزیر اعلیٰ اترپردیش پنڈت گووند ولبھ پنت چیف سکریٹری اور ہوم سکریٹری کے نام اس مضمون کا تار روانہ کیا۔ ” ۲۳؍ دسمبر کی رات میں جب مسجد میں سناٹا تھا اچانک کچھ ہندو وہاں گھس گئے اور غیر قانونی طور سے ایک مورتی وہاں نصب کردی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے کے نائر اور سپرنٹنڈنٹ نے فوراً ہی جائے واردات پر پہنچ کر صورتحال کو قابو میں کیا۔ ” یہ بیان ایک کانسٹبل ماتا دین کی عینی شہادت پر مبنی تھا۔ مگرساتھ ہی نقض امن کے خطرہ کے پیش نظرمورتی کو دوبارہ وہیں پر رکھوادیا اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ جمعہ کی نماز دوسری جگہ پڑھ لیں۔ وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے وزیر اعلیٰ پنڈت گووند ولبھ پنت کو سخت ہدایت دی کہ مسجد کے ساتھ ناانصافی کو ختم کیا جائے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اس پر عمل کرنے کے بجائے استعفیٰ دے دیا۔
۲۹؍ دسمبر ۱۹۴۹ءکو سٹی مجسٹریٹ مارکنڈے سنگھ نے حالات کو جوں کا توں برقرار رکھتے ہوئے اس عمارت کو سرکاری تحویل میں لے لینے کا حکم دیا ۔ نیز نقض امن کا بہانہ بنا کر دفعہ ۱۴۰ کے تحت مسجد میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی عائد کردی، اور مسجد میں تالا لگوادیا، مورتی اندر رہ گئی، دوسری طرف پوجا کے لئے چار پجاری مقرر کردئے اور فیض آباد ایودھیا میونسپل بورڈ کے چئرمین بابو پریا دت رام کو رسیور مقرر کردیا، اور انھیں اختیار دیا کہ وہ دیکھ بھال کریں اورنظم و نسق کے لیے اسکیم بناکر منظوری لیں۔ چنانچہ حکم کے مطابق باہر ہی سے مورتی کی پوجا ہوتی رہی، اور مسلمان نماز پڑھنے سے محروم ہوگئے۔
۱۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کو گوپال سنگھ وکیل نے فیض آباد عدالت میں ایک اپیل دائر کر کے رام للا کی پوجا کی خصوصی اجازت مانگی۔ انہوں نے وہاں سے مورتی ہٹانے پر عدالتی روک کی بھی کوشش کی، سول جج این این چادھا نے وہاں حسبِ سابق مورتیاں رکھی رہنے اور پوجا کے عمل کو جاری رہنے کا عارضی حکم دیا۔ پھر ۱۹؍ جنوری ۱۹۵۰ء کو باضابطہ طور پرحکم دیدیا۔اسی دوران مزید تین درخواستیں فیض آبادعدالت میں آئیں، یعنی ۵؍ دسمبر۱۹۵۰ء کو مہنت پرم ہنس رام چندر داس نے پوجا جاری رکھنے اور بابری مسجد میں رام مورتی رکھنے کے لئے عرضی داخل کی۔ انھوں نے مسجد کو ڈھانچہ کا نام دیا گیا۔۱۷؍ دسمبر ۱۹۵۹ء کو نرموہی اکھاڑا نے بابری مسجد کی منتقلی کا مقدمہ دائر کیا۔ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۶۲ء کو اتر پردیش سنی وقف بورڈ نے بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمہ دائر کیا۔ ۱۹۶۴ء کو یہ چاروں مقدمات کو ایک ساتھ کردیا گیا۔ ۱۹۸۶ء تک یہ مقدمارت زیر ِالتواء رہے۔
اسی دوران ۱۹۸۴ء کو وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے بابری مسجد کا تالا کھولنے اور مندر کی تعمیر کے لئے مہم شروع کی۔ رام جنم بھومی ایکشن کمیٹی بھی قائم کیا۔
یکم فروری ۱۹۸۶ء کو مسٹر کے، ایم، پانڈے ڈسٹرکٹ جج نے رمیش پانڈے نامی شخص کی درخواست پر سرسری سماعت کے بعد یہ کہتے ہوئے کہ مورتی باہر سے بھی نظر آرہی ہے، اس لیے مسجد کو تالا بند رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، نیز اس سے مسلمانوں کو کوئی نقصان پہونچنے والانہیں ہے، ۳۵ سال سے تالا بند مسجدکو ہندوؤں کے لیے کھول دیا، اس طرح مسجد میں موجود رام للا کی مورتی کی پوجا کی عام اجازت دے دی۔ اس فیصلے کے فوراً بعد بغیر کسی تاخیر کے ۵؍ بجکر ۱۹؍ منٹ پر بابری مسجد کا تالا پوجاکے لیے کھول دیا گیا۔ ہندوؤں نے خوشیاں منائیں اور مسلمانوں میں صف ماتم بچھ گیا۔ مسلمانوں کی جانب سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا،۱۹۸۹ء میں وشو ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر اس وقت کے وزیراعظم راجیوگاندھی کی اجازت سے رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔
۲۵؍ستمبر ۱۹۹۰ء کو بی جے پی صدر لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے اتر پردیش کے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی۔ جس کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ ایل کے اڈوانی کو بہار کے سمستی پور میں گرفتار کر لیا گیا۔ ۳۰؍ اکتوبر اور ۲؍ نومبر ۱۹۹۰ء کو ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو منہدم کرنے کی کوشش کی، مگر اس وقت کے یوپی کے وزیراعلیٰ ملائم سنگھ کے حکم پر شرپسندوں کو روکنے کیلئے سی آر پی ایف نے گولی چلائی کچھ شرپسند ہلاک ہوئے ۔ مسجد کو کچھ نقصان بھی پہنچایا، مگر منہدم نہیں کرسکے، مگر اس کا اثر یہ ہوا کہ اترپردیش سے ملائم سنگھ کی حکومت ختم ہوگئی۔
۱۹۹۱ء میں بی جے پی کی حکومت بنی اور کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ مقرر ہوگئے، ہندؤوں نے اس موقعہ کا خوب فائدہ اٹھایا اور پورے ہندوستان میں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیوسینا کے کارکنان نے جلسے جلوس نکالے، ایڈوانی، سنگھل، ونے کٹیار اور اوما بھارتی وغیرہ نے ہندومسلم منافرت خوب خوب پھیلایا۔رام کے نام پر ۲؍ لاکھ ہندؤوں کو لے کر ایودھیا پہنچ گئے۔بظاہر ان کا مقصد احتجاج اورمظاہرہ کرنا تھا، اور انھوں نے اس کا یقین بھی دلایا تھا کہ مسجد کو نقصان نہیں پہونچایا جائے گا۔ مرکز سے اچھی خاصی تعداد میں فوج بھی اجودھیا پہنچ گئی، مگر اسے نامعلوم مصالح کی بنیاد پر بابری مسجد سے دو ڈھائی کلو میٹر دور رکھا گیا، صوبہ اور مرکز کے نیم فوجی دستے مسجد کی حفاظت کے لئے اس کے چاروں سمت میں متعین کئے گئے، مگر انھیں وزیراعظم کی سخت ہدایت تھی کہ ہندؤوں پرکسی حال میں بھی گولی نہ چلائی جائے۔ چنانچہ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو ایڈوانی، اوما بھارتی وغیرہ کی قیادت میں ہندو دہشت گردوں نے گیارہ بج کر پچپن منٹ پر بابری مسجد پر دھاوا بول دیا ، تباہ کن ہتھیار سےمسجد کی دیوارکو توڑنا شروع کردیا، چند انتہا درجہ کے بدقسمت لوگ چھت پر چڑھ گئے اور گنبدوں کو بھی تیز اور مضبوط آلہ سے توڑنا شروع کردیا۔ اس طرح وہ بغیر کسی مزاحمت کےشام چار بجے تک پوری مسجد کو مسمار کردیا۔ یوں ۴۶۴؍ سالہ قدیم تاریخی بابری مسجد زمین بوس ہوگئی، تمام مسلح فوج کے دستے تماشہ دیکھتے رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان فوجیوں کو مسجد کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ مسجد کو مسمار کرنے والوں کی حفاظت کے لیے متعین کیا گیا تھا۔ یوں ہندوستان کی تاریخ میں سیاہ ترین دن کا اضافہ ہوا۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستان میں کئی مقامات پر ہندو -مسلم فسادات رونما ہوئے۔ جن میں تین ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے مسجد کی تعمیر نو کا وعدہ کیا۔ مگر ابھی تک یہ وعدہ پورا نہ ہوسکا۔ اسی طرح اُس وقت کے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ اور شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اور ایل کے ایڈوانی سمیت ۴۹؍ افراد کے خلاف مقدمات درج ہوئے ۔ ۲۶؍ سال گزرنے کے باوجود کسی بھی ملزم کوسزا نہیں ہو سکی ہے۔
فیض آباد ضلع عدالت میں حق ملکیت کا مقدمہ الٰہ آباد ہائی کی لکھنؤ بنچ میں منتقل کیا گیا۔ ۱۹۹۴ء میں بابری مسجد شہادت کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا، یکم اپریل ۲۰۰۲ء میں ایودھیا کے متنازع مقام پر مالکانہ حق کو لیکر الہ آبادہائی کورٹ کے تین ججوں کی بنچ نے سماعت شروع کی۔ ۵؍ مارچ ۲۰۰۳ء کو کورٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کا حکم دیا، ۲۲؍ اگست ۲۰۰۳ء کو محکمہ آثارِ قدیمہ نے رپورٹ پیش کی، جس سے مسلمان مطمئن نہیں ہوئے، اور انھوں نے اس کورد کرنے مطالبہ کیا۔
بابری مسجدکی شہادت کے بعد ۱۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو یونین ہوم منسٹری نے لبراہن کمیشن بنایا تھا تاکہ مسجد کی شہادت کی تفتیش کی جا سکے۔ اس کی سربراہی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ایم ایس لبراہن کو سونپی گئی۔ کمیشن نے سترہ سال کے بعد ۳۰؍ جون ۲۰۰۹ء کو منموہن حکومت کواپنی رپورٹ پیش کی۔
۳۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا جس میں متنازعہ مقام کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا، ایک حصہ نرموہی اکھاڑا کو، ایک حصہ سنی وقف بورڈ کو اور ایک حصہ ہندؤوں کی تنظیموں کو دیا گیا، گویا کہ زیادہ تر زمین ہندوؤں کے دو فریقوں کو دیا گیا، تاہم کل زمین کے ایک تہائی حصے پر مسجد کی تعمیر کی گنجائش رکھی گئی۔ مگر اس فیصلہ سے ہندو مسلم کوئی بھی فریق مطمئن نہیں ہوا، اس لیے دونوں فریق نے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ چنانچہ ۹؍ مئی ۲۰۱۱ء کو سپریم کورٹ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر روک لگادی، ۲۱؍ مارچ ۲۰۱۷ء سپریم کورٹ معاملہ کو آپسی رضا مندی سے حل کرنے کی صلاح دی، مگر صلح کی کافی کوششوں کے باوجود سمجھوتہ نہیں ہوسکا۔ اس لیے فی الحال یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ملک کی متحدہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ اور دیگر مسلم تنظیمیں مقدمہ کی پیروی کر رہی ہیں۔
رابطہ : 8080697348