طالبان کی شمالی افغانستان کی طرف پیش قدمی، حکومت پریشان

Pakistani Sunni Muslim supporters of hard line pro-Taliban party Jamiat Ulema-i-Islam-Nazaryati (JUI-N) march as they shout slogans during a protest in Quetta on May 25, 2016, against a US drone strike in Pakistan's southwestern province Balochistan in which killed Afghan Taliban leader Mullah Akhtar Mansour. The Afghan Taliban announced Haibatullah Akhundzada as their new leader, elevating a low-profile religious figure in a swift power transition after officially confirming the death of Mullah Mansour in a US drone strike. / AFP / BANARAS KHAN (Photo credit should read BANARAS KHAN/AFP/Getty Images)

کابل(ایم این این )
طالبان افغانستان کے شمال میں واقع صوبائی دارالحکومت سرپل کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔ طالبان تیل کے کنوو¿ں پر بھی قبضہ کر سکتے ہیں جبکہ طالبان اس شہر کے مضافات میں واقع علاقوں کو پہلے ہی اپنی گرفت میں لے چکے ہیں۔
طالبان نے سرپل پر قبضے کے لیے اپنی کارروائیاں تیز تر کر دی ہیں جبکہ وہ اس علاقے میں موجود تیل کے کنوو¿ں پر بھی قبضہ کر سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان اس طرح امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط تر بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
سرپل کے گورنر کے ایک ترجمان ذبیح اللہ امینی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”سرپل کی صورت حال ویسے ہی نازک ہے لیکن اب طالبان نے قریبی علاقوں پر بھی حملے شروع کر دیے ہیں۔“
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب طالبان اور خصوصی امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کے مابین ہونے والے امن مذاکرات جمود کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ طالبان نے افغانستان سے تمام امریکی فورسز کے نکل جانے کا مطالبہ کر رکھا ہے اور امریکی حکومت فی الحال اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
حالیہ کچھ عرصے میں طالبان کے اعتماد میں واضح اضافہ ہوا ہے اور شہروں کے مضافاتی دیہی علاقوں میں ان کا کنٹرول بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب حکومتی فورسز کے حوصلے پست ہوتے جا رہے ہیں اور وہ شکستہ دلی کے ساتھ طالبان کو پیچھے دھکیلنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔