نئی دہلی: ( پریس ریلیز) آج جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے شعبۂ تاریخ وثقافت کے سمینار ہال میں معروف تھنک ٹینک، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام “ہندستان وایران میں آریائی قوم” کے عنوان پر پروفیسر راجیش کوچھر (پنجاب یونیورسٹی، چندی گڑھ) کا ایک معلوماتی اور اہم لیکچر منعقد ہوا۔ لیکچر کے کنوینر، آئی او ایس کے ہسٹاریکل ریسرچ پروجیکٹس کے ڈائریکٹر پروفیسر سید جمال الدین تھے۔
“ویدک قوم” نامی کتاب کے مصنف پروفیسر راجیش کوچھر نے “ہندستان وایران میں آریائی قوم” کے عنوان پر لیکچر دیتے ہوئے آریائی قوم کی لسانی، ادبی، قدیم آثار اور اس کے نسلی ثبوت وشواہد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “سات ہزار عیسوی ما قبل تک جو آریائی تھے، وہ اپنی غذائی ضرورت کی خاطر جہاں چرند وپرند کا شکار کرتے، وہیں کھیتوں میں گیہوں اور جَو بھی پیدا کرتے تھے۔ ان کے یہاں مویشیوں کے پالنے کا رواج بھی ملتا ہے۔ یہ لوگ جن علاقوں میں پھیلتے تھے، وہ شمالی مغربی ہندوستان کا حصہ تھا، جس میں مہرگڑھ اور بلوچستان وغیرہ شامل تھے۔ واضح رہے کہ مہرگڑھ، دریائے بولان کے نشیبی حصہ میں واقع تھا اور دریائے سندھ کی مغربی شاخ تھی۔ بعد میں یہ زراعت دھیرے دھیرے ختم ہوتی چلی گئی۔”
پروفیسر کوچھر نے اپنے لیکچر میں کہا کہ “دریائے مہرگڑھ کے علاقے میں عیسوی صدی سے 4007 سال پہلے ہاتھوں سے برتن بنانے، کپاس پیدا کرنے اور کپڑے تیار کرنے کا کام ہوتا تھا۔ اس دور میں تانبے کا بھی استعمال ہوا ہے۔ اسی دور میں پہلی مرتبہ پہیے (Wheel) کی ایجاد بھی ہوئی اور برتن بنانے میں پہیوں سے استفادہ کیا گیا۔ آمد ورفت میں بھی ان پہیوں سے مدد حاصل کی گئی۔”
موصوف نے اپنے لیکچر میں امری (Amri) نام کے ایک مقام کا بھی انکشاف کیا، جو ہڑپا تہذیب سے بہت پہلے کا ہے۔ اس کے بعد وہ لوگ عیسوی صدی 2006 ق م سے 1900 ق م تک ہڑپا، موہن جوداڑو، راکھی گڑہی اور گنداویری والے علاقوں میں آباد ہوتے گئے۔ یہ سب کچھ عیسوی صدی 2000 سے قبل تک کا زمانہ ہے۔ یہ افغانستان سے شروع ہو کر ہڑپا تک جاتا ہے۔
پروفیسر کوچھر نے اپنے تجزیے میں کہا کہ “دراصل ہندستان کی ثقافتی تاریخ کا آغاز عیسوی صدی سے 7000 سال پہلے سے ہوتا ہے۔ یہ مختلف زبانوں کا دور تھا اور ان کی زبانیں آپس میں بڑی مماثلت رکھتی تھیں۔ ہندستانیوں اور ایرانیوں کے تمدن میں بڑی مشابہت تھی۔ ہڑپا کی تہذیب کا زوال ہوا تو اس کی اصل وجہ یہاں پینے کے پانی کی موجودگی تھی۔ مشرق میں وہ آئے تو جنوب میں بھی بڑھتے چلے گئے۔ آریائی جو زبان استعمال کرتے تھے، ان کا تعلق وید سے قطعی نہیں تھا، بلکہ دریائے سندھ کے آس پاس بسے ہوئے لوگوں سے تھا، انہیں ہی ہندو کہا جانے لگا۔”
پروفیسر کوچھر کا خیال ہے کہ دریاؤں کا تذکرہ محض رگ وید میں ہوا ہے، جو سرسوتی کے نام سے ہے۔ آسور (Asur) کا تذکرہ مثبت انداز میں ہے، یہاں کے لوگ آتش پرست تھے۔ اس طرح کے اہم تاریخی وثقافتی آثار کے حوالے سے کوچھر صاحب نے بے حد معلوم افزا لیکچر سے شرکاء کو استفادہ کا موقع دیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذ تاریخ اور “مرکز برائے فاصلاتی واوپن لرننگ” کے ڈائریکٹر پروفیسر آر پی بہوگنا نے اپنے صدارتی تبصرے میں کہا کہ “خواہ کوئی بھی مذہب ہو، اس نے دیگر مذاہب سے کچھ نہ کچھ ضرور لیا ہے اور بعض مرتبہ اس کی ثقافت میں ضم ہو گیا ہے۔ پروفیسر راجیش کوچھر نے غیرمعمولی نکات کے ساتھ تاریخ وثقافت کا حوالہ دیا ہے، جن پر مزید ریسرچ وتحقیق کی ضرورت ہے۔ جب ہم “آریائی” لفظ کا استعمال کرتے ہیں، تو اس میں انتہائی احتیاط کا پہلو مدنظر رکھنا ہو گا، کیوں کہ آریاؤں کی ہندستان میں ہجرت، دنیا کی سب سے بڑی ہجرت تھی۔ یہاں کا تمدن، یہاں کی ثقافت اور یہاں کا جغرافیہ غیرمعمولی طور پر متاثر ہوا ہے۔”
لیکچر کا آغاز، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ تاریخ کی صدر پروفیسر نشاط منظر کی گفتگو سے ہوا۔ پروفیسر ظہور محمد خاں، سکریٹری جنرل آئی او ایس نے انسٹی ٹیوٹ کا تعارف کرایا۔ جب کہ آئی او ایس کی اسسٹنٹ سکریٹری جنرل پروفیسر حسینہ حاشیہ نے اظہار تشکر کیا۔ اس لیکچر میں دہلی کے مختلف اداروں، تنظیموں اور جماعتوں کی اہم شخصیات کے علاوہ مختلف حلقوں کی قابل ذکر شخصیات بھی موجود تھیں۔