تابعداری بنام حصہ داری

قاسم سید

کہا جاتا ہے کہ سیاست بے رحم ہوتی ہے یہ دل نہیں دماغ سے کی جاتی ہے ۔ آزادی کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں نے سیاست کے معاملہ میں دفاعی رویہ اپنایا۔ اس میں حالات کے جبر اور اس کے جارحانہ رویہ کا بڑا دخل رہا ہے۔ کانگریس نے عیاری کے ساتھ جو کھیل شروع کیا تھا اس کو بے باکی و بے شرمی کے ساتھ بغیر کسی لاگ لپیٹ کے بی جےپی انجام تک پہنچانے میں لگی ہے۔ نام نہاد سیکولر پارٹیاں صرف اور صرف اقتدار کے کے لئے کبھی ادھر کبھی ادھر کا سفر کرتی ہیں۔ لالو کو چھوڑ کر کوئی ایک بھی لیڈر یا پارٹی یہ دعوی نہیں کرسکتی کہ اس نے کبھی فرقہ پرست کہی جانے والی طاقتوں کا ساتھ نہیں لیا یا ساتھ نہیں دیا۔ وی پی سنگھ سے لے کر رفیق الملک و ملت ملائم سنگھ یادو تک کوئی اچھوتا نہیں اور یہ اس لحاظ سے غلط نہیں کہ جمہوریت عددی اکثریت کا کھیل ہے اور اقتدار میں حصہ داری کے لئے ہر ذات و مذہب کا لیڈر (ماسوائے مسلمان) ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے اب اس عام انتخابات میں دیکھیں ‘مہا گٹھ بندھن اور کانگریس نے ذات برادری کی بنیاد پر قائم چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ لینے کے لئے ہر ممکن کوشش کی اگر کسی کا ایک دو سیٹوں پر اثر ہے۔ وہ بھی تال سے تال ملانے کے لئے لالچ‘ پیش کش خوشامد اورہر طریقہ آزمایا گیا اس میں کامیاب ہوئیں۔ انہیں لوک سبھا سیٹ بھی دی گئیں اگر کسی نے حیثیت واوقات سے زیادہ مانگا تو درمیانی راستہ نکال کر منایا گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کا صدر اس کے دربار میں حاضر ہوا۔ شیو سینا ہو یا راج بھر کی نامعموم سی پارٹی‘ اکھلیش اور پرینکا گاندھی نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کی وجوہات کیا ہیں اور کیوں بڑی پارٹیاں بونوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے چھینا جھپٹی کر رہی ہیں۔ اس پر غور کرنے کی ضررت ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سرگرم عمل مسلمانوں کی جماعتیں کچھ نہ کچھ اثرات تو ضرور رکھتی ہیں خواہ ایس ڈی پی آئی ہو یا مجلس اتحاد المسلمین۔ پیس پارٹی ہو یا راشٹریہ علما کونسل یہ وہ پارٹیاں ہیں جو انتخابی عمل کا حصہ رہی ہیں۔ اویسی کی پارٹی پارلیمنٹ کے علاوہ ملک کی دو اہم ریاستوں تلنگانہ اور مہاراشٹر کی اسمبلی میں بھی نمائندگی کرتی ہے لیکن ان پارٹیوں کو ساتھ لینے میں کسی پارٹی کو دلچسپی نہیں۔آسام کی طاقتور تنظیم آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے یو ڈی ایف) کے لوک سبھا میں تین ممبران اور آسام اسمبلی میں ایک مرتبہ 23 ممبران تک تھے لیکن کانگریس قیادت نے اتنی پراثر قوت کو ساتھ لینے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ جب تک مہا گٹھ بندھن نہیں بنا۔ اکھلیش یادو ڈاکٹر ایوب کو پریس کانفرنس میں اپنے برابر میں بٹھاتے کیونکہ گورکھپور سیٹ نکالنے میں نشاد پارٹی کے ساتھ ان کا بھی کچھ نہ کچھ رول تھا اور ان کی پارٹی مشرقی یوپی کے بعض حلقوں میں موجودگی کا احساس دلاتی رہی ہے۔ پرینکا گاندھی کی ڈاکٹر ایوب سے ملاقات ہوئی اور لگا کہ شاید کانگریس کے ساتھ مفاہمت کا کوئی راستہ نکل آیا لیکن کچھ دنوں کے بعد پتہ لگا کہ جیسے اکھلیش نے منجدھار میں چھوڑ دیا تھا کانگریس نے بھی وہی کیا۔

سوال یہ پیدا ہونا چاہئے کہ آخر ایسا کیوں ہے‘ قومی و علاقائی پارٹیاں بیگانگی کا رویہ کیوں اپناتی ہیں سیاست میں سرگرم مسلم جماعتوں سے جو عرصہ دراز سے انتخابی عمل کا حصہ رہی ہیں اسمبلی وپارلیمنٹ میں نمائندگی کرتی ہیں ان کے پالے میں موجود ووٹوں کی ضرورت انہیں کیوں نہیں لگتی۔ کیا ان پارٹیوں کی زبان زیادہ لمبی ہے۔ اپنے قد اور حیثیت سے زیاہ مانگتی ہیں کیا انہیں حصہ داری کے لئے ناپ تول اور سودے کا طریقہ نہیں آتا۔ کیا میز پر بیٹھ کر اپنی بات منوانے کا ہنر نہیں آتا یا ان کا مسلمان ہونا سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کیا یہ پارٹیاں نہیں چاہتیں کہ مسلمان سیاسی اعتبار سے مضبوط ومستحکم ہوں۔ اقتدار میں آبادی کے حساب سے حصہ داری ہو۔ انہیں انگوٹھے کے نیچے رکھ کر اپنی شرائط پر ہی صرف ضمیمہ بناکر رکھنا چاہتی ہیں حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلم جماعتوں کی اپیل ان کے سماج میں نہیں ہے ۔ اے یو ڈی ایف نے آسام اور مجلس اتحاد المسلمین نے تلنگانہ اور مہاراشٹر میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ جتانے کی طاقت رکھتے ہیں اور ہرانے کی بھی پیس پارٹی یوپی اسمبلی میں اپنے کئی ممبران اسمبلی پہنچانے میں کامیاب رہی جہاں تک نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا معاملہ ہے جب وہ ذات برادری کی بنا پر قائم چھوٹی پارٹیوں سے معاہدہ کرسکتی ہیں تو انہیں اپنے اپنے علاقوں میں مؤثر سیاسی مسلم جماعتوں کے نام پر اچھوکیوں لگ جاتا ہے کیا صرف اس لئے کہ ان پر مسلمانوں کی خوشامد یا فرقہ پرست مسلمانوں سے ہاتھ ملانے کا الزام نہ لگ جائےیاانہیں ہندو ووٹ پر منفی اثر پڑنے کا خدشہ ستاتا ہےیا پھر انہیں اس بات کا سوفیصد یقین ہے کہ مسلمان آخر جائے گا کہاں وہ بی جے پی میں اور اس کی حکومت سے اتنا ڈرا سہما ‘خوف دہشت کا شکار ہے کہ صرف بی جے پی نام کا تار لگا دیا جائے وہ سراسیمہ ہوجاتا ہے اور بھاگ کر ہماری پناہ میں آجاتا ہے۔ کیا اس لئے کہ قوم پرست مسلمان نے ہندوئوں کی قیادت پر ہمیشہ آمنا صدقنا کہا انہیں جھومر اور ستارہ بناکر رکھا۔ کیا اس لئے کہ وہ اپنی قیادت کی جگہ ہندو قیادت پر زیادہ بھروسہ رکھتا ہے اور اپنی قیادت کو صرف ایجنٹ اور دلال سمجھتا ہے۔ کیا اس لئے کہ مذہبی قیادت کا ایک بڑا حصہ ان کے دربار میں بار بار حاضری لگاکر ان کے تئیں وفاداری اور اپنے تابعداروں کا ووٹ ان کی جھولی میں ڈالنے کا عہد و پیمان کرتا اور اس کا اعادہ کرتا رہتا ہے ۔ کیا اس لئے کہ وہ ان کی غلامی میں کام کرنے والے بندھوا مزوروں کی بے زبانی کی عادی ہوچکی ہیں۔ کتنا بڑا واقعہ ان کی سرکار میں کیوں نہ ہوجائے احتجاج کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ کیا اس لئے کہ ہراساں و پریشاں پس مردہ مایوس بے یقینی کے شکار مسلم ووٹر کے پاس اور کوئی متبادل ہی نہیں رہا اور کیا اس لئے کہ وہ جذباتی اور سیاسی اعتبار سے بڑا معصوم ہے کچھ گاجریں لٹکاکر صرف فریب زدہ وعدوں کے سہارے اس کے ووٹ لوٹے جاسکتے ہیں اور کیا وجہ یہ ہے کہ تمام نام نہاد مبینہ سیکولر پارٹیاں نہیں چاہتیں کہ مسلمانوں میں صاف ستھری مضبوط قیادت ابھرے ‘ اس پوزیشن میں خود کو لاسکے کہ وہ اپنے اچھے برے کا فیصلہ خود کرے اور ان کی طرف منہ اٹھاکر دیکھنا بند کردے۔ گرچہ مسلمانوں میں بھی ایک طبقہ ایسا ضرور ہے جو اس فکر کا کٹر حامی ہے اور دہائیوں سے اس پر عمل کر رہا ہے اور کروارہا ہے کہ مسلمانوں کی عافیت اس میں ہے کہ وہ مبینہ سیکولر پارٹیوں کے ساتھ بندھ کر رہیں اپنی تقدیر انہی سے وابستہ رکھیں ۔ اپنی قیادت کے بارے میں بھول کر بھی نہ سوچیں اور اپنا راستہ بنانے کی کوشش نہ کریں اور کیا عجب کہ یہی سیکولر پارٹیوں کی ہوشیار قیادت کو مشورہ دیتے ہوں کہ حضور کیوں انہیں منہ لگائیں اور طاقت دیں ہم تو ہیں نا۔ پھر کیا فکر ہے۔

2019 کا الیکشن اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ ملک دوراہے پر لاکر کھڑا کردیا گیا ہے۔ 2019 طے کرے گا کہ وہ نظریاتی طور پر کدھر جائے گا۔ دانشوروں کی مضبوط رائے ہے اور اس کی خود حکمراں پارٹی کے بعض ذمہ داروں نے تائید کی ہے کہ یہ ملک کے آخری الیکشن بھی ہوسکتے ہیں پھر اس کے بعد شاید یہ شکوہ شکایت کرنے اور حصہ داری کی باتیں کرنے کا موقع ملے نہ ملے۔ خدا کرے یہ اندیشے اور قیاس بے بنیاد ہوں۔ لیکن حکمرانوں کے تیور بہت اچھے نہیں ہیں۔ سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہیں مسلمانوں‘ اقلیتوں اور کمزور طبقات کے بارے میں ان کا ڈی این اے ایک ہے۔ایسے میں کیا راستہ ہو۔ کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ قارئین بہتر مشورہ اور رہنمائی دے سکتے ہیں۔ اس پر چھوٹی و بڑی میٹنگیں کرکے کس راستے پر پہنچا جائے کہ اقتدار میں حصہ داری کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔ نقشہ آپ کے سامنے ہے اس میں رنگ بھرنا ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں