ڈاکٹر محمد منظو رعالم
الیکشن 2019 عام انتخابات سے مختلف ہے ۔ یہ صرف اقتدار کے حصول اور حکومت بنانے والا انتخاب نہیں ہے ۔یہ الیکشن آزاد ہندوستان کی سترسالہ تاریخ میں بے پناہ اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ دو نظریہ کے درمیان مقابلہ ہے ۔ منواد اور سیکولرزم کے درمیان لڑائی ہے ۔ اس لئے اس الیکشن کو ہلکے میں لینا اور اسے عام الیکشن کی طرح سمجھنا سیاسی پارٹیوں ، ووٹرس ، رائے دہندگان اور دانشوران کیلئے بہت بڑی غلطی سمجھے جائے گی اور اس کے نتائج اگر 2014 کے طرح ہوئے تو شدید خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ اس الیکشن پر خصوصی توجہ دینے اور اس میں سیکولر پارٹیوں کو فتح سے ہم کنارکرانے کیلئے ہر ایک شہری اور سیاسی پارٹی کو قربانی دینی ہوگی تبھی کامیابی ملے گی ۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہندوستان کا آئین خطرے میں ہے ۔گذشتہ چار سالوں کے دوران جس طرح آئینی اداروں کی خود مختاری پر حملہ کیا گیا ہے۔ کسانوں، کمزوروں ، دلتوں، اقلیتوں اور مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کیا گیا ہے۔ فوج، عدلیہ، ایجنسیاں اور دیگر اداروں کا استعمال کیا گیا ہے اس سے صاف اشارہ ہورہا ہے کہ ایسے انتہاء پسند عناصر کو دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو ملک کا آئین بھی محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ جمہوریت تہ و بالا ہوجائے گی اور ہندوستان سیکولرزم کے بجائے انتہا پسندوں کا اڈہ بن جائے گا ۔ اس سے نجات حاصل کرنے۔ خوف اور دہشت کے خاتمہ اور ایسے عناصر کی حکومت کو روکنے کیلئے سیاسی پارٹیوں کو بڑی قربانی دینی ہوگی بطور خاص کانگریس جیسی پارٹیوں کو نمایاں کردار اداکرنا ہوگا تبھی منواد کا مقابلہ بآسانی ہوسکے گا ۔
کانگریس ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے۔ سترسالوں کے بیشتر دنوں میں اسی کی سرکار رہی ہے۔ 2019 کے پیش نظر اسے ایک مرتبہ پھر بڑا رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کرنا وقت اور ملک کی سالمیت کیلئے ضروری ہے۔ اگر کانگریس چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد نہیں کرتی ہے۔ علاقائی پارٹیوں کو شامل نہیں کرتی ہے تو 2019 کا نتیجہ 2014 سے کچھ مختلف نہیں ہوگا اور ملک پر ایک مرتبہ پھر جمہوری اقدار کی دھجیاں اڑانے والی پارٹی بر سر اقتدار ہوجائے گی۔
کانگریس نے بہار میں آر جے ڈی سمیت کئی چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کیا ہے ۔ کرناٹک میں بھی کانگریس نے جے ڈی ایس کے ساتھ اتحاد کیا ہے ۔ یوپی میں ایس پی بی ایس پی کے ساتھ کانگریس کا اتحاد کامیاب نہیں ہوسکا تاہم اس نے کئی چھوٹی پارٹیوں کو شامل کیا ہے۔ وہاں اس نے ایس پی اور بی پی ایس کی حمایت میں سات سیٹوں پر اپنا امیدوار نہ اتارنے کا فیصلہ کرکے ایک بہتر اقدام کیا ہے۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کے ساتھ اتحاد کی خبریں آرہی ہے۔ اگر دونوں پارٹیوں کے درمیان اتحاد ہوجاتا ہے تو یہ بہتر ہوگا اور سیکولر ووٹوں منتشر ہونے سے بچ جائے گا۔ لیکن کانگریس نے اتحاد کی اس مہم میں مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں کو نظر انداز کیا ہے۔ ہندوستان کے متعدد صوبوں میں ایسی سیکولر پارٹیاں ہیں جن کا اپنے خطے میں اثر و رسوخ ہے۔ وہاں اس کی سیاسی نمائندگی ہے لیکن کانگریس نے ان کے ساتھ اتحاد سے گریز کیا ہے۔ آسام کی مثال سب سے واضح ہے جہاں 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو صرف تین سیٹوں پر کامیابی ملی تھی اور اتنی سیٹوں پر اے آئی یو ڈی ایف نے بھی کامیابی حاصل کی۔ دیکھا جائے تو فی الحال دونوں کی حیثیت برابر ہے اور اے آئی یو ڈی ایف ایک مضبوط علاقائی پارٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کانگریس نے کوئی اتحاد نہیں کیا۔ بلکہ اس نے تنہا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔اس دوران قابل ستائش خبر وہاں سے آرہی ہے کہ اے آئی یو ڈی ایف نے آسام کی چودہ لوک سبھا سیٹوں میں سے صرف ان تین سیٹوں پر اپنے امیدوار وں کو اتارا ہے جہاں سے پہلے وہ جیتی تھی بقیہ گیارہ سیٹیوں پر ووٹوں کی تقسیم کے پیش نظر اس نے امیدوار نہیں اتارا ہے۔ سیکولرم کے تحفظ اور بی جے پی کے بڑھتے کے قدم کو روکنے کیلئے یو ڈی ایف اور اس کے لیڈر مولانا بدر الدین اجمل نے بڑی قربانی دی ہے لیکن اس کے باوجود کانگریس کی طرف سے اس کا کوئی مثبت جواب نہیں آیا ہے ۔ اس کے علاوہ کرناٹک اور تمل ناڈو میں ایس ڈی پی آئی کا اثر و رسوخ ہے ۔ ایم آئی ایم بھی ایک مضبوط پارٹی بن چکی ہے ۔ تلنگانہ کے علاوہ مہاراشٹرا ، بہار اور یوپی میں اس کے لیڈر ہیں ۔ ممبران اسمبلی اور کاونسلر ہیں۔ لیکن کانگریس نے اپنے اتحاد میں ان پارٹیوں کو بھی شامل نہیں کیا ہے۔
کانگریس کا یہ طرز عمل سمجھ سے بالاتر ہے ۔ ایسا لگ رہاہے کہ کانگریس مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں کے وجود کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ یا پھر آر ایس ایس اور بی جے پی سے وہ اس قدر خوف زدہ ہے کہ مسلمانوں کو شامل کرنے میں اسے اپنی سیاسی ناکامی نظر آرہی ہے۔ آخر مسلمانوں کا قصور کیا ہے ۔ مسلمان ہندوستان کے آئین پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں کے دستور کے مطابق انہوں نے سیاسی پارٹی رجسٹرڈ کرائی ہے ۔سیاسی طور پر وہ وہ مضبوط ہوچکے ہیں ۔ پارلیمنٹ میں اور اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی ہے اس کے باوجود ایسی مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں سے گریز کرکے کانگریس بھی شاید یہی پیغام دینا چاہ رہی ہے کہ اسے صرف مسلم ووٹ چاہیئے ،مسلم قیادت اسے منظور نہیں ہے ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )