ہندوستان میں اٹھتی ارتداد کی لہروں کی روک تھام: کیوں اور کیسے؟

اظہار الحق قاسمی

گزشتہ دنوں باغپت کے تیرہ لوگوں کے اسلام سے پھرکرہندوبن جانے کی خبرایک بجلی بن کر گری جس نے قلب کے اندرون تک کو جنجھوڑ ڈالا۔ وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ وہ ہماری قوم کے کچھ دبنگ لوگوں سے پریشان تھے جس سے مجبورہوکر انھوں نے یہ آخری فیصلہ کرلیااور اسلام کے آغوش عافیت سے نکل کراور توحید کے جام سے منھ موڑکر کروڑوں خداؤں کی پرستش کرنے والے توہم پرست لوگوں کے ہم رکاب بن گئے۔بیدارعلماء کی ایک جماعت اور خود گاؤں کے امام صاحب نے بھی کوششیں کیں لیکن کفر کی آندھی کے سامنے یہ چراغ وقتی طور ہی کے لیے سہی (اللہ کرے ایساہی ہو)دیرتک نہیں ٹک سکا اور بالآخرانھیں مومن سے کافربنادیاگیااور ہندویواواہنی کے ذمہ داران کی موجودگی میں انھیں ایفیڈویٹ کے ساتھ پوز دلواکرقوم کی مردہ ضمیری کے امتحان کے لیے انھیں وائرل کردیاگیا۔

ہمیشہ کی طرح پھرہم دفاعی انداز میں سامنے آئے اور ہماری طرف سے کچھ علماء مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ ان کی گھرواپسی کروائیں (اللہ انھیں جزائے خیر عطافرمائے اور انھیں ہمت وپامردی کے ساتھ باطل کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے!آمین) اور اللہ کی ذات سے ہمیں امید بھی ہے اور دعا بھی کہ ان شاء اللہ کفر کے کانٹے انھیں یوں چبھیں گے کہ وہ اسلام کے دامن عافیت میں واپس آئیں گے ان شاء اللہ۔اسی دوران یہ غیرمصدقہ اطلاع ہے کہ ان میں سے اکثر کو دوبارہ حلقہ بگوش اسلام کرایاجا چکاہے ۔خداکرے ایسا ہی ہو!اور اگر وہ واپس نہیں آتے ہیں تو اس کے استحقاقی قصوروار وہ خود ہیں نہ کہ کوئی اور۔ نیز اللہ کے یہاں قابل مواخذہ بھی وہی ہیں نہ کہ کوئی اور؛ کیوں کہ اللہ کا صاف اعلان ہے: جوچاہے ایمان لائے اور جوچاہے کافرہوجائے۔(قرآن)

یہ تو آج کی واردات ہے جو بفضل خدا منظرعام پرآگئی۔ورنہ بہت احتیاط کے ساتھ یہ بات عرض کررہاہوں کہ ارتدادی لہریں کئی ایک لوگوں کو روزانہ کے حساب سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ فتنہ شکیلیت کو ہی لے لیجیے!یہ ایک ایسا فتنہ ہے جس کاشکار صرف دیہی مسلمان ہی نہیں بل کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ اس کاشکارہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں اوریہ فتنہ بہت تیزی کے ساتھ پھیلتاجارہاہے۔چندماہ قبل ہم نے اپنے ایک رفیق درس کے بارے میں سناجو کہ باقاعدہ ایک ادارے کے فارغ التحصیل ہیں اور ایک یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ بھی اس فتنے کے نہ صرف شکارہوئے بل کہ؛معاملہ ارتداد تک پہونچ گیاتھا۔اللہ بھلاکرے دوسرے ساتھیوں کاجنھوں نے ان کوتوبہ کروایااور ان کواسلام پردوبارہ لائے۔اس فتنے کی لہر کی شدت کاعالم تو دیکھیے کہ ایک بڑے ادارے کا ایک قابل ترین فرزندبھی اس کی زد سے نہ بچ سکا پھردیگرلوگوں کے بارے میں ہم کیاکہیں۔

اب سے تقریبادوسال قبل جب ہم حیدرآبادمیں مقیم تھے تووہاں کی ایک بڑی مسجد(مسجدعزیزیہ مہدی پٹنم) میں چار شکیلی پکڑے گئے تھے جن کے چہرے مہرے بالکلیہ باشرع لوگوں بل کہ؛علماء جیسے تھے۔شکیلیت پران کے تصلب کاعالم یہ تھاکہ مسجدمیں انھیں باندھے جانے اور سخت مارپٹائی کے بعد بھی ان کے چہروں پر شرمندگی کے کوئی آثار نہ تھے بل کہ؛ ان کے چہروں پر فخریہ انداز محسوس کیاجاسکتاتھا۔وہ یہ کہتے جاتے تھے کہ چاہے ہمیں ماربھی ڈالولیکن (نعوذباللہ) ہمیں صحیح راستہ مل گیاہے اس لیے ہمیں اب اس سے کوئی برگشتہ نہیں کرسکتا۔ انداز ہ کیاجائے کہ اس اتدادی لہر کی شدت کتنی ہے اور کیاآسان ہے کہ مسلم قوم کو جوان پڑھ بھی ہے اورکسی قدربھولی بھی، اسے بچایاجاسکے!

فتنہ قادیانیت بھی ایک تیز ترین ارتدادی آندھی ہے جس نے بہتیروں کے دلوں سے ایمان کا چراغ گل کردیااور ان کی دنیا میں تاریکی بکھیردی۔ آئے دن یہ بات خبروں اور دیگرذرائع کے ذریعہ موصول ہوتی رہتی ہے کہ فلاں جگہ اتنے لوگ قادیانی ہوگئے۔یہ فتنہ بھی اسلام کے نام پرجتنی قوت کے ساتھ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے اور کفر کی طرف کھینچنے میں مصروف ہے شایدتاریخ میں اتنی تیزی کسی اور فتنے میں نہیں رہی۔ اس فتنے کی ترویج کے بڑے ذرائع میڈیا،سوشل میڈیااور انٹرنیٹ ہیں اورآج کی دنیامیں پڑھا لکھاطبقہ ان تینوں سے قطعامستغنی نہیں۔لہذا یہ فتنہ بھی ہرطرح ہمارے ایمان پرڈاکہ ڈال رہاہے۔

ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ایک المیہ یہ رہاہے کہ انھیں اکثر جگہوں پر برادران وطن کے ساتھ رہناپڑتاہے۔ایسی جگہوں پر رہنے والے مسلمانوں کی اگر درست دینی تعلیم وتربیت کانظم نہ ہوایارہاہوتوان کے ساتھ رہتے رہتے وہ ہندوتہذیب کے اولاشکار اور پھر ان میں ضم ہوکررہ جاتے ہیں اور پھر ان کااپناکچھ نہیں بچتا۔چناں چہ ہم نے ممبئی میں بچشم خوددیکھاکہ اس طرح کے متاثر مسلمان اپنے گھروں میں گنپتی کی مورتی رکھتے ہیں اور ان پرچڑھاوابھی چڑھاتے ہیں۔ہندوستان میں اس طرح کے ارتداد کا ایساعموم ہے کہ اللہ کی پناہ!

پھرفکری ارتداد کی توکیابات کی جائے؟ہمارے دانشوران کاایک بڑاطبقہ اس کاایساشکارہے کہ بس اللہ کی پناہ!ان کے بزعم خویش مفکر ہونے کے بھوت نے انھیں ایسادین بیزارکیاہواہے کہ وہ دین کی ہر بات کواپنی فہم پر پرکھتے اور اس کے صحیح اور غلط ہونے کا فیصلہ کردیتے ہیں۔اور پھرعملی ارتداد کی بھی کیابات کریں کہ ابھی چندروز قبل محرم میں دیکھے گئے کفریہ وشریہ اعمال بھلانہیں سک رہے ہیں۔تعجب اور افسوس ہوتا تھا ان کی جبینوں پرمسلمان کا نام دیکھ کر۔ ہم نے بچشم نمناک دیکھاکہ مرد وخواتین خود ساختہ تعزیوں کے سامنے بچھے بچھے سے جارہے ہیں بل کہ؛سجد ہ کررہے ہیں۔وغیرہ وغیرہ

ارتداد کی ان آندھیوں کارخ سیدھامسلمانوں کی طرف ہے۔ اور آثار وقرائن یہ بتلارہے ہیں کہ ان آندھیوں کارخ موڑناجوئے شیرلانے سے کم نہیں۔ امت کے ارباب حل وعقد کے پاس اپنی دیگرضروریات دین ودنیاکے سبب اس طرف مکمل یاکافی فکرکرنے کی فرصت نہیں ہو پارہی ہے۔امت کے نوجوان علماء وفضلاء کے پاس اپنے نان شبینہ کی جوڑبٹوراور پھر سوشل میڈیاپروقت گزاری یاپھر اپنے اکابر علماء جو واقعی کچھ نہ کچھ بڑے کام میں مصروف ہیں کو گالم گلوچ کرنے سے فرصت نہیں ہوپارہی ہے اور وہ بذات خود کسی بھی طرح کی قوت ارادی سے عاری اور کسی بھی طرح کی منصوبہ بندی سے مکمل طورپربے بہرہ نظرآرہے ہیں۔ان احوال میں بھی وہ بوڑھے اکابر کی گردن پر ہی الزام کے تیرونشترچبھورہے ہیں اورظاہرہے کہ ایک ناکارہ انسان دوسروں کو موردالزام ٹھہرانے کے علاوہ اور کربھی کیاسکتاہے؟

لہذاملت کی اس ڈوبتی نیاکوکون سہارے؟کون اب اٹھے گاجوامت محمدﷺ کی ان مشکل حالات میں قیادت سنبھالیگا؟کیوں کہ آج کی اس واردات نے اور آئے دن پیش آنے والے دیگر ارتدادی حادثات نے یہ بات بالکل صاف کردیاہے کہ دشمن کے ارادے اب بہت خطرناک ہوچکے ہیں۔اب وہ ہم مسلمانوں کوصرف سیاست وسیادت سے ہی نہیں بل کہ؛ہمیں ہمارے دین وعقیدے سے بھی بے دخل کرنے کے ہر حربے اپنارہاہے اور اس کے یہ حملے مکمل طور پرنفسیاتی یانفسیاتی سے ہیں۔وہ اس بات کی ہرممکن کوشش کررہاہے کہ مسلمانوں میں ان کے دین کے تئیں شکوک وشبہات کے بیج بوئے جائیں جس کے لیے وہ خاص طورسے میڈیااور سوشل میڈیاکاسہارالے رہاہے۔ دشمن کی یہ بھی انتھک کوشش ہے کہ مسلمانوں کی غربت وجہالت سے فائدہ اٹھاکران کی مدد کوپہونچاجائے اور پھراس مدد کے نام پر ان کے دین وایمان پرڈاکہ ڈالاجائے۔

ضرورت ہے کہ نوجوان علماء وفضلاء جن کے اعصاب میں کچھ دم خم ہے،جن کے بازؤوں میں کچھ زورہے، جن کو اللہ نے زبان وقلم کاسلیقہ وشعورعطاکیاہے، جن کے اندرصحابہ والی جفاکشی ہے،جن کے اندراحساس کاپانی ابھی باقی ہے، جن کے ضمیرمیں ولی اللہی خون کی کچھ حرارت موجودہے، جن کی رگوں میں محمدبن قاسم والی کچھ حمیت موجود ہے،جن کے اندرامت کے لیے کچھ غم کی آگ سلگ رہی ہے و ہ اٹھیں اور اس امت کی نیاکوپارلگاکرکامیابی کی معراج کو حاصل کرلیں اور اپنے اندرسے وھن یعنی حب الدنیاوکراہیۃ الموت کونکال پھینکیں۔ منصوبہ بندی کریں۔ایک ایک محاذکو سنبھال لیں۔جوقلم چلاسکتے ہے قلم چلائیں،جو زبان چلاسکتے ہیں زبان چلائیں، انٹرنیٹ کے ماہرین انٹرنیٹ پرکام کریں، جو انگریزی داں ہیں وہ انگریزی میں کام کریں اور ہاں نظر اس صلے پر بھی رکھیں جس میں اللہ کے حبیب ﷺ نے حضر ت علی ﷺ سے فرمایاتھا: اے علی!خداکی قسم!اگراللہ تمہارے ذریعے کسی ایک آدمی کو ہدایت دے دے تو یہ سرخ اونٹوں سے بہترہے۔(بخاری)

اوراخیرمیں مفکراسلام حضرت مولاناعلی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے خطابات کے چند اقتباسات بھی ملاحظہ فرما لیں جو حضرت مولانا نے ۱۶۹۱ء میں برما کے مسلمانوں سے فرمایاتھااوران کو جن خطرات سے آگاہ کیا تھا آج وہ حقیقت بن کر سامنے آرہے ہیں، پڑھیں تاکہ ہمت ہواورڈھارس بھی!اوران کی روشنی میں ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کے رخ کی تعیین بھی!

مولانا نے فرمایاتھا:’’میرے دوستو اور بزرگو! تم جو اس ملک میں لائے گئے ہو یقین کرو کہ تم کھانے پینے کے لئے،دکان کرنے کے لئے، تجارتوں کو ترقی دینے کے لئے نہیں آئے،اللہ تعالیٰ نے تم کو جانشین بنایا ہے ان بندوں کا کہ جنہوں نے دنیا میں ہدایت وتبلیغ کا کام کیاتھا، آج اللہ تعالیٰ نے تم کو اتنا بڑا انسانی کارخانہ عطا فرمایا ہے، تم کو اس ملک کا امین بنایا ہے،تم کو اس ملک کی امامت وہدایت کا کام سونپا ہے، یہ پونے دو کروڑ انسانوں کی بستی ہے جس کو برما کہتے ہیں، اور کل تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے یہاں کیا کیا؟ اور تم سمجھتے ہو کہ ہم کمانے جارہے ہیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارادہ یہ تھا کہ تم یہاں آکر ہدایت وتبلیغ کا کام کرو، آج حالت یہ ہورہی ہے کہ اٹھارہ بیس لاکھ کی مسلمانوں کی جو قوم ہے اسی کے ایمان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، اسی میں ارتداد پھیل رہا ہے، ہم نے سنا ہے کہ یہاں بہت سے علاقوں میں ارتداد پھیلتا چلا جارہا ہے، لوگ دین سے ہٹتے جارہے ہیں، لوگ بدھ مت اختیار کرتے جارہے ہیں، مسجدیں چھوڑ کر کلیساؤں اور پیگوڈاؤں میں جارہے ہیں، آپ پر دوہری ذمہ داری ہے، ایک ذمہ داری اپنے بھائیوں کی اس اٹھارہ بیس لاکھ قوم کی اور ایک ذمہ داری اپنے ان برادران وطن کی جو آپ کے ساتھ ایک زمین پر چلتے پھرتے ہیں، ایک ہوا میں سانس لیتے ہیں اور ایک ہی پانی سے پیاس بجھاتے ہیں۔۔۔۔’’اگر تم نے اپنے کاروبار سے وقت نکال کر ہدایت وتبلیغ کا اپنے اندر طریقہ پیدا کیا اور پھر اس کے لئے کوشش کرلی تو اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے انعام میں دنیا میں تم کو بہت دیدے گا اور آخرت میں تم کو جنت عطا فرمائے گا اور اگر تم نے ا یسا نہ کیا تو یاد رکھو کہ تم اس ملک میں رہ نہیں سکتے،133.’’اگر تم نے اس میں غفلت کی تو یاد رکھو میرے بھائیو! میں شاید اس وقت نہ ہوں تمہیں یاد دلانے والا اورشاید ریکارڈ موجود ہو یا نہ ہو، لیکن تم میں سے جو غور سے سنے گا وہ میری باتیں یاد کرے گا۔۔۔میں آپ سے کہتا ہوں کہ بہت سخت دن آنے والے ہیں، خدا کے لئے اس وقت اپنے کاروبار کو اتنی اہمیت نہ دو جتنی اہمیت دیتے رہے ہو، اس وقت دین کے لئے کچھ کرلو، صور پھونک دو ایمان کا، توحیدکااوررسالت کا، برما کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک، شرک کی نفرت مسلمانوں اور ان کے بچوں کے دلوں میں بٹھا دو، بچوں کی تعلیم کا انتظام کرو، ابھی کچھ فرصت ہے، اگر تم نے اس سے فائدہ اٹھایا اور کچھ کام کرلیا تو ان شاء اللہ اس دین کی بقاء کی صورت یہاں باقی رہے گی، بلکہ ترقی کرنے اور پھیلنے کا فیصلہ ہوجائے گا اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے کاروبار، تمہاری عورتوں، تمہارے بچوں کو محفوظ کردے گا ۔ (تحفہ برما)

ضرورت ہے کہ ہم بیدارہوں اور اس امت کے بھٹکتے لوگوں کی کچھ رہنمائی کرسکیں اور انھیں کفرو شرک سے بچاکر ایمان ودین کی محبت سے سرشار کردیں۔ اور اے کاش کہ ارتداد کی ان آندھیوں کے مقابلے کے لیے بھی کوئی ابوبکرہوتا!

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پر تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

 

? استاذ: مدرسہ عربیہ قرآنیہ ،اٹاوہ، یوپی  

رابطہ: 8686691311