کرناٹک کانگریس کی قیادت اور مسلمان 

کرناٹک کانگریس کی قیادت اور مسلمان 

مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے 

قاضی ارشد علی (سابق رکن قانون ساز کونسل)بیدر کرناٹک

17ویں لوک سبھا کے تاریخی انتخابات شروع ہوچکے ہیں ‘اور 11؍اپریل کو پہلے مرحلے کیلئے رائے دہی ہوگی۔ کرناٹک کے28 حلقہ جات ہیں ان میں سے14حلقہ جات کی رائے دہی دوسرے مرحلے یعنی18؍اپریل کو اور باقی رہے 14حلقہ جات کی رائے دہی تیسرے مرحلے یعنی23؍اپریل کو منعقد ہوگی۔ انتخابات کے ساری تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں ۔اُمیدوار انتخابی میدان میں آچکے ہیں ۔اور انتخابی تشہیر کا کام زوروں پر چل رہا ہے۔چاروں جانب گہما گہمی کا ماحول ہے۔جوش اور اُمنگ چھایا ہوا ہے۔ اس گہما گہمی کے ماحول میں کرناٹک کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس انتخابی کارواں میں شریک ہونے سے جھجھک رہا ہے۔ ناانصافی کی شدت اور بے بسی کا احساس اُنھیں یہ سوچنے پر مجبور کررہا ہے کہ جب ماحول زہر بھرا ہو تو سانس کیسے لی جائے ۔جن لوگوں سے آکسیجن ملنے کی اُمید تھی ان لوگوں نے تو بغل اُٹھالئے ہیں۔ مایوسی اور جلاہٹ کا شکار ہوئے اس طبقہ کا نام ’’ مسلمان ‘‘ ہے۔

کرناٹک ملک کی ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں مسلمان تھوڑی بہت راحت محسوس کرتے تھے۔ چین کی سانس لیتے تھے ‘لیکن اب وہ بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں آزادی کے وقت ہوئے تقسیمِ ہند کا احساسِ جرم لاشعوری طورپر چھایا ہوا تھا ‘اسی لئے جمہوری نظام میں حصہ لینے سے کتراتے تھے ۔انتخابات میں ووٹ تو دیتے تھے لیکن خود حصہ نہیں لیتے تھے۔ لیکن یہ غلطی تھی جس کا احساس بہت سالوں بعد مسلمانوں کے نام نہاد رہنماؤں کو ہوا۔ پھرمعلوم ہوا کہ ملک کے وسائل پر مسلمانوں کا بھی اُتنا ہی حق ہے جتنا کہ اکثریتی طبقہ کے لوگوں کا ہے۔ اور جہاں ملک کی ترقی کی خاطر پالیسی بنائی جاتی ہے ‘پروگرام طئے کئے جاتے ہیں وہاں مسلمانوں کی شرکت بھی ضروری ہے۔ جو بہت سالو ں تک نہیں ہورہا تھا ۔کسی بھی وزارت ‘بورڈ کارپوریشنوں میں کمزور طبقات کے نمائندوں کی موجودگی چاہے وہ نمائندہ اپنے حقوق کیلئے آواز نہ اُٹھائے اُس نمائندہ کی موجودگی سے اتنا ضرور ہوتا ہے کہ کمزور طبقات کے خلاف ایک طرفہ فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ یہ بات سمجھنے کے بعد مسلم پالیٹکل ایمپاؤر منٹ کی بات شروع ہوئی ۔بدقسمتی یہ ہے کہ جب سے ملکی سطح پر مسلم ایمپاؤرمنٹ کی مہم چلی ہے تب سے لوک سبھا ‘اسمبلی اور دیگر ایوانوں میں مسلم نمائندگی بڑھنے کی بجائے کم ہورہی ہے ۔آج حالات یہ ہیں کہ 543ارکانِ لوک سبھا میں سے صرف 23 مسلمان ہیں ۔یہی حالات صوبائی اسمبلیوں کی بھی ہے۔

جاریہ لوک سبھا انتخابات جو نریندر مودی کی فسطائی حکومت کی فنا کرنے کے نام پر لڑے جارہے ہیں ‘اس جنگ میں ہندوستان کے مسلمان پہلی صف میں نظر آرہے ہیں ۔یہی حالات کرناٹک کے بھی ہیں ۔کرناٹک کے مسلمانوں نے بار بار یہ ثبوت دیا ہے کہ وہ سیکولر طاقتیں یعنی کرناٹک میں کانگریس کے ساتھ ہیں۔ 2018ء کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کا ایک مشت ووٹ کانگریس کونہیں ملاہوتا تو ا س کے ارکان کی تعداد 50 سے کم ہوتی ۔یہ بات کرناٹک پردیش کانگریس کمیٹی کے ذمہ داران کو بھی معلوم ہے۔ اور حسبِ مُخالف پارٹیوں کو بھی اچھی طرح معلوم ہے۔ کرناٹک کے28پارلیمانی حلقہ جات میں سے20حلقہ جات میں مسلم ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں ‘لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے بجائے ہاتھ کھنچ لیا جارہا ہے جس کی ایک مثال انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم بھی ہے۔اس بار کرناٹک کے صرف ایک پارلیمانی حلقہ سے مسلم اُمیدوار کو ٹکٹ دیا گیا ہے‘ جبکہ ایک زمانہ تھا مسلمانوں کو پارلیمنٹ کے 3-3 ٹکٹیں دئیے جاتے تھے۔ اس بار کانگریس قیادت کا مسلمانوں کے تعلق سے منفی رویہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے ۔کرناٹک کے مسلمانوں کی جانب سے تین حلقہ جات سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔کانگریس قیادت نے اس مطالبہ پرپہلے تو کوئی توجہ نہیں دی پھر بعد میں زیادہ زور دینے پر دو جگہ سے ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن آخر میں دھارواڑ کا ٹکٹ بھی مسلمانوں کو نہیں ملا۔ اس ضمن میں بہت سی باتیں ہوئیں ‘جلوس ‘جلسہ ہوئے ‘مسلمانوں کے مٹینگیں ہوئیں ۔قائدین کے بیانات شائع ہوئے ۔جذباتی ماحول بن گیا ‘پھر غبارہ کو پِن لگا کر جس طرح سے ہوا نکال دی جاتی ہے ویسے ہی مسلمانوں کے غبارہ کی ہوا بھی نکل گئی ۔یہ بات کرناٹک کے مسلمان بھولیں گے شاید ایسا نہ ہو۔ جو بھی ہو وقت گذر چکا ہے ۔

یہ بات سچ ہے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں ہندوستان کا ماحول مکدر ہوچکا ہے یہاں اب انتخابات میں مذہب کے نام پر مرکوزیت (polarisation) ہورہا ہے ‘ اکثریتی طبقہ مسلمان اُمیدوار کو قبول کرنے میں جھجھک رہا ہے اسی لئے شاید کانگریس نے جیتنے کی طاقت رکھنے والے اُمیدواروں کو ترجیح دینا ضروری سمجھا ۔2014ء میں ہوئے انتخابات میں ملی شرمناک شکست کے بعد تجزیات کئے گئے ۔ان میں اے کے انتھونی رپورٹ کو خاص اہمیت دی گئی۔اے کے انتھونی نے 2014ء میں کانگریس کی شکست کا ذمہ دار اقلیتوں کے متعلق کانگریس کی پالیسی کو بتایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے مفادات کا چرچا کچھ اس تیزی سے ہوا کہ ہندوؤں کواچھا نہیں لگا۔ شاید اس الیکشن میں اے کے انتھونی کی رپورٹ پر عمل کیا جارہا ہے۔

جاریہ لوک سبھا انتخابات کے تعلق سے تنقید و تبصرہ کرتے ہوئے یہ محسوس ہورہا ہے کہ ان حالات کے ذمہ دار دو فیاکٹر رہے ہیں ۔ایک فیاکٹر کرناٹک کی کانگریس قیادت ہے جو مسلمانوں کے تعلق سے اچھا نظریہ نہیں رکھتی ۔ایک طرح سے اُنھیں بوجھ سمجھتی ہے ۔دوسرا فیاکٹر کرناٹک کی نام نہاد مسلم قیادت جو ہے بھی یا نہیں ۔یہ کہنا مشکل کام ہے۔ کرناٹک کانگریس کی قیادت جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے ہوسکتا ہے سیکولر ہوں گے کانگریس کو کامیاب کرنا چاہتے ہوں گے لیکن یہ کیسے ممکن ہے مسلمان جو کانگریس کا اثاثہ ہیں اُسے لُٹا کر وہ کس طرح کامیاب ہوں گے۔ 

سابق چیف منسٹر سدارامیا ‘ انچارج و جنرل سکریٹری وینو گوپال ‘کے پی سی سی کے صدر دنیش گنڈو راؤ نے کانگریس اُمیدواروں کے نام پہلے ہی طے کرلئے تھے اور انہی کو ٹکٹ دلایا گیا ‘ایک بھی مسلمان خواہش مند ان کی نظر میں نہیں اُبھرا جسے وہ ٹکٹ دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ 6فیصد آبادی والے کربا طبقہ کو3حلقہ جات کا اُمیدوار بنایا گیا ہے اور13فیصد آبادی والے مسلمانوں کے حصہ میں صرف ایک حلقہ بنگلور سنٹرل آیا ہے۔ یہ سماجی انصاف ہے یا کچھ اور ۔؟‘جہاں تک کرناٹک کے یا یوں کہئے بنگلور کی مسلم قیادت کا سوال ہے اُنھیں صرف بنگلور سنٹرل کی فکر تھی ساری سیاست کسی ایک حلقہ پر مرکوز ہوگئی تھی ۔گذشتہ سال جعفر شریف اور قمرالاسلام کے انتقال کے بعد لوگوں کو اُمید تھی کہ کے رحمن خان صاحب اور روشن بیگ صاحب کے سہارے کرناٹک کے دیگر اضلاع کے مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کرسیکیں گے‘ لیکن ابھی ٹکٹ کا فیصلہ بھی نہیں ہوا تھا کہ جناب کے رحمن خان نے بیان جاری کرتے ہوئے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ آج کل کے فرقہ ورانہ حالات میں کسی مسلمان کا لوک سبھا الیکشن جیتنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے مسلمان کو لوک سبھا کے بجائے راجیہ سبھا کے ٹکٹ کیلئے کوشش کریں۔ جناب کے رحمن خان نے یہ نہیں بتایا کہ اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ لوک سبھا میں ٹکٹ نہ لینے پر راجیہ سبھا میں موقع ملے گا ۔؟ الیکشن سے قبل اس طرح کی باتیں عام طورپر کہی جاتی ہیں ۔جناب روشن بیگ صاحب جو شاید حلقہ انتخاب بنگلور سنٹرل سے ٹکٹ کے خواہش مند تھے اور وہ مستحق بھی تھے کو ٹکٹ نہیں دیا ۔اس لئے شاید وہ آج کانگریس کی جانب سے مسلمانوں کو ہوئی ناانصافی کی داستان سُنا رہے ہیں ۔یہ بات سچ ہے کہ پارلیمنٹ کے انتخابات صرف ایک ٹکٹ دئیے جانے سے کرناٹک کے مسلمان خوش نہیں ہیں۔

ریاستِ کرناٹک کے جو حالات ہیں وہی حال شاید دوسری ریاستوں کا بھی ہوا ہو۔ ان سبھی باتوں کے باوجود سب سے بڑا سوال آتا ہے کہ مسلمان اب کیا کریں۔؟ کوئی متبادل ہے کیا۔؟ کچھ لوگ بی ایس پی میں شریک ہونے کی سوچ رہے ہیں ‘کچھ لوگ NOTAپر مہر لگانے کی سوچ رہے ہیں ۔سب کے دل میں ایک ہی جملہ ہے کہ کانگریس کو سبق سکھایا جائے۔

کانگریس کو سبق سکھانے کا مطب خود سبق لینا ہے۔ اس الیکشن میں ایم پی نہیں بلکہ ملک کی حکومت کا انتخاب کرنا ہے ۔آج ملک کا آئین خطرے میں ہے۔ دانشوروں کا کہنا ہے کہ اگر ا س الیکشن میں بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو پھر مستقبل میں کوئی الیکشن نہیں ہوگا۔ سابق5سال گواہ ہیں کہ کس طرح اقلیتوں نے خوف و ہراسانی کے ماحول میں دن گزارے ہیں ۔اس بات کا اندازہ شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کو ہم سے زیادہ ہوگا‘کیونکہMob Lynching ہجومی تشدد کے واقعات بہت ہوئے ہیں ۔ آر ایس ایس کا عروج گذشتہ پانچ سے میں جو ہوا ہے وہ شاید 90سالوں میں نہیں ہوا تھا۔ سیاست جذبات کا کھیل نہیں ہے‘ ہر کام سوچ سمجھ کر کرناپڑتا ہے چاہے اس کیلئے ہمیں ہتھیار ڈالنا کیوں نہ پڑے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان سنگین حالات میں ہندوستان کے اور کرناٹک کے مسلمان کیا فیصلہ لیتے ہیں ۔جو بھی فیصلہ ہوگا اس کا اثر ہماری آنے والی نسلوں پر پڑے گا‘ یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگا۔ چونکہ اب انتخابات بہت قریب ہیں اس لئے کوئی حکمتِ عملی ‘کوئی مہم ‘کام نہیں دے سکتی ۔مسلمانوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ اس امتحا ن کی گھڑی میں کونسا قدم اُٹھائیں۔ہم بس دعا کرسکتے ہیں ‘ ہندوستان کے مسلمانوں کو خدا فرقہ پرستوں کے شر سے بچائے۔ (آمین)

اِدھر اُدھر کی نہ بات کر ، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا 

مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے 

موبائل نمبر: 9448410703

ای میلarshedalimlc@gmail.com, 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں