غلط ثابت ہونگے بیشتر انتخابی سروے

 نثار احمد  

عام انتخاب 2019 کے ساتوں مرحلے مکمل ہو چکے ہیں، آخری مرحلہ ختم ہوتے ہی اگزٹ پول بھی آنے شروع ہو گئے ہیں، بیشتر رجحانوں میں NDA یعنی بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کی حکومت بنتی دکھائی دے رہی ہے،وہیں کانگریس اور اُس کی اتحادی جماعتیں انتخابی رن میں کافی پیچھے دکھ رہی ہیں، لیکِن ایسا صرف ایگزٹ پولز میں ہو رہا ہے، کیا یہ ایگزٹ پولز اس قابل ہیں کہ ان پر بھروسہ کیا جا سکے، شاید نہیں، یہ صرف اور صرف ایک رجحان ہیں جو غلط بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

ایگزٹ پولز یعنی انتخاب کے بعد لوگوں سے ان کے ووٹ کے بارے میں پوچھنا اور اوپینین پول جسے ہم عرف عام میں سروے بھی کہتے ہیں یہ کام پرائیویٹ کمپنیاں کرتی ہیں جن میں AC NIELSAN, DRE , CMS, CSDS, INSIGHT, MDRA, ORG MARG, C VOTERS, CSDS LOKNITI, CICERI, CHANAKYA خاص طور سے قابل ذکر ہیں، یہ کمپنیاں ماضی میں کئی بار صحیح تو کئی بار غلط ثابت ہوئی ہیں، اگر آپ کو ياد ہو تو بہار اسمبلی ا لیکشن 2015 میں سب سے سٹیک اور مناسب سروے دینے والی کمپنی چانکیہ غلط ثابت ہوئی تھی جس کے لیے اسے عوام سے معافی بھی مانگی پڑی تھی، اور بھی بہت سے سروے اجینسی ہیں جو وقتاً فوقتاً غلط ثابت ہوتی رہی ہیں۔

2014 کے عام انتخاب میں بیشتر سروے یہ بتا رہے تھے کہ کانگریس کو ڈیڑھ سو کے آس پاس سیٹیں ملیں گی، لیکن جب نتیجہ آیا تو کانگریس محض 59 سیٹوں پر ہی سمٹ گئی، اگر ہم 2009 کے عام انتخاب کی بات کریں تو سروے یہ بتا رہے تھے کہ تیسرا محاذ 150 سے 170 سیٹوں پر جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا لیکن نتیجہ اس کے بر عکس رہا، تیسرے محض کو صرف 79 سیٹوں پر جیت ملی، 2004 کا رزلٹ سب سے دلچسپ رہا، سروے کمپنیوں کے مطابق بی جے پی 270 سے 300 اور کانگریس 160 سے 180 سیٹوں پر سمٹتی دکھائی دے رہی تھی، لیکن جو نتیجہ آیا وہ ان سروے سے بالکل الٹ تھا، بی جے پی صرف 189 سیٹوں پر ہی جیت پائی جب کہ کانگریس نے 222 سیٹوں پر جیت حاصل کی ، اور بھی بہت سے موقعوں پر اگزٹ پول کے ساتھ ٹرینڈ بھی غلط ثابت ہوئے ہیں، ابھی حال ہی میں آسٹریلیا میں ہوئے انتخاب میں پچاس سے زیادہ سروے کمپنیوں کا اندازہ غلط ثابت ہوا، ان کا ماننا تھا کہ لیبر پارٹی سرکار بنائے گی لیکن جب نتیجہ آیا تو لبرل پارٹی فاتح قرار پائی، اس طرح کی اور بھی مثالیں اس ضمن میں موجود ہیں۔

انتخابی سروے مختلف طریقے سے کئے جاتے ہیں جن میں اگزٹ پول، پری پول اوپینین، برقی آلات اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والے سروے شامل ہیں، ایگزٹ پول یعنی ووٹر سے ووٹ ڈالنے کے بعد ان کی رائے معلوم کی جاتی ہے،پری پول سروے میں الیکشن سے پہلے رائے دہندگان میں سروے کیا جاتا ہے، حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے سروے کی چلن عام ہو رہی ہے،فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام ان کے اہم ذرائع ہیں، ان ہی ذرائع کو بنیاد بنا کر سروے کمپنیاں اپنا بہی کھاتا تیار کرتی ہیں اور ٹی وی چینل والے اسے نشر کر کے خوب TRP بٹورتے ہیں۔

سروے کی ناکامی کی اصل وجوہات:

سروے عام طور پر شہری علاقوں میں کئے جاتے ہیں،جو کل آبادی کا تیس فیصد حصہ ہے،شہری علاقوں کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ وہاں بی جے پی رائے دہندگان کی اکثریت ہوتی ہے، سروے کمپنیاں اس بات کو بالکل ہی نظر انداز کر دیتی ہیں کہ ستّر فیصد آبادی گاؤں اور دیہاتوں میں بستی ہے جہاں غیر بی جے پی ووٹرز کی تعداد زیادہ ہے، سروے کو ناکام بنانے میں ان غیر شہری ووٹروں کا رول اہم ہوتا ہے۔

آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے سروے کرائے جا رہے ہیں، جن کے استعمال کرنے والوں میں اسی فیصد شہری علاقے کے لوگ ہیں، لہٰذا اِس سروے میں بھی گاؤں والوں کی شمولیت کم ہی ہو پاتی ہے اِس لئے سروے کے ناکام ہونے کے زیادہ امکان ہوتے ہیں۔

سروے کو ناکام بنانے میں سائلینٹ ووٹرز کا رول بھی اہم ہوتا ہے، وہ اخیر وقت تک خاموش رہتے ہیں اور حالات كو بھانپتے ہوئے کسی ایک پارٹی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اسی لئے سارے پولز دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ نہ تو ہم آنکھ موند کر ان پولز پر بھروسہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کلی طور پر اس کو نظر انداز کر سکتے ہیں، گزشتہ کئی برسوں میں یہ پولز غلط ثابت ہوتے رہے ہیں اس بار بھی اس کا امکان ہے، حقیقت یہ ہے کہ زمین پر اس سروے کی سچائی کا کوئی ثبوت نہیں ہے، پھر بھی اگر ان پولز کمپنی کے دعوے کو صحیح مان لیا جائے تو بھی جمع خاطر رکھیے، یہ تو صرف سات لاکھ لوگوں کی رائے ہے، پینسٹھ کروڑ لوگوں کی رائے ای وی ایم میں قید ہے، ابھی اس کا آنا باقی ہے، 23 مئی کا انتطار کیجئے؛ کچھ اچھا ہوگا۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں