لوک سبھا الیکشن: نفرت کی سیاست کی فتح اور گنگا جمنی تہذیب کی ہار

 عابد انور 

جس کا ڈر ایک فیصد تھا وہ سو فیصد کے ساتھ سامنے ہے۔ناقابل یقین، تمام سیاسی پنڈتوں کے اندازوں، قیاس آرائیوں، زمینی رپورٹ، حقیقی سروے، سیاسی سروے اور دیگر گراؤنڈ رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی تین سو سے زائد سیٹوں کے ساتھ دوبارہ برسراقتدار آگئی ہے۔ قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کا محض نام رہے گا کیوں کہ این ڈی اے کی جیت میں مکمل طور پر بھارتیہ جنتاپارٹی کی محنت، منشا، بوتھ مینجمنٹ ، گھر گھر جاکر لوگوں کو قائل کرنا اور ان کی محنت شاقہ شامل رہی ہے۔ بی جے پی، آر ایس ایس اور اس کی ذیلی جماعتوں کی محنت نکال دیں تو بی جے پی کی اتحادی کی بہ مشکل دو چار سیٹیں ہی آتیں۔ کیوں کہ بی جے پی اتحادی جماعتوں کو بھی صرف اور صرف مودی کے نام پر ووٹ ملا ہے۔ ورنہ کسی کی کوئی اوقات نہیں تھی کہ وہ لوک سبھا کے موجودہ الیکشن میں وہ کامیابی اتنی کامیابی حاصل کرتے۔ بہار میں ہی 40 میں سے 39 سیٹوں پر این ڈی اے نے فتح حاصل کی ہے۔ جس میں 17سیٹ بی جے پی کے کھاتے میں، 16سیٹ جنتا دل متحدہ کے کھاتے میں اور چھ سیٹیں لوک جن شکتی پارٹی کے کھاتے گئی ہیں۔ جو لوگ الیکشن کو جانتے ہیں اور جو گراؤنڈ پر تھے ان میں کوئی نہیں کہتا تھا کہ چراغ پاسوان جیتے گا، بہ مشکل ایک آدھ سیٹ پر کامیاب ہونے کا اندازہ لگایا تھا لیکن جب نتیجہ آیا تو چھ میں سے چھ پر کامیاب رہے۔ یہ کوئی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ سب سے زیادہ سے زیادہ سیاسی پنڈت بہار، راجستھان، گجرات،مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، کرناٹک، اترپردیش اور ہریانہ کے نتائج سے حیران ہیں۔ کسی کو یقین نہیں آرہاہے کہ یہ کیسے ہوگیا، آخر تمام سیاسی پنڈت غلط کیسے ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ سیاسی پنڈتوں کے پاس دلائل، اعداد و شمار ، حکومت کی کارگزاری اور تمام اسباب تھے جو کسی بھی حکومت کو ہارنے کے لئے کافی ہوتے ہیں لیکن بی جے پی نے سیاسی پنڈتوں کو ایسی پٹخنی دی ہے کہ وہ برسوں تک یاد رکھیں گے۔ ہندوستانی کی سب سے بڑی پرانی پارٹی، گاندھی جی کی پارٹی، سردار پٹیل کی پارٹی، پنڈت نہرو کی پارٹی، مولانا آزاد کی پارٹی، مولانا محمد علی جوہر کی پارٹی، اندرا گاندھی کی پارٹی اور نئے ہندوستان کے معمار آنجہانی راجیو گاندھی،جس نے ہندوستان کو کمپیوٹر، اطلاعاتی تکنالوجی، ڈیجٹل انڈیا سے متعارف کرایا، کی پارٹی کو 16ریاست اور مرکزی خطے میں کھاتہ کھولنا بھی نصیب نہیں ہوا۔ راجستھان اور گجرات میں کھاتہ کھولنا بھی نصیب نہیں ہوا۔راجستھان میں چند ماہ قبل ہی کانگریس کی حکومت قائم ہوئی ہے جب کہ گجرات میں وہ حکومت بناتے بناتے رہ گئی تھی۔ مدھیہ پردیش میں 29 میں سے صرف ایک سیٹ پر کامیابی ملی ہے۔ اسی طرح چھتیس گڑھ، کرناٹک،میں ہوا ہے وہاں کی کانگریس کی حکومت ہے لیکن قابل ذکر سیٹ نہیں ملی۔ اس طرح کی چیزیں ہوئی ہیں جس نے ساے سیاسی پنڈت کو خیرہ کردیا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے دعوے کے مطابق ہندی بیلٹ کی  14 ریاستوں اورمرکزکے زیر انتظام خطے میں سے 10 میں اس نے تنہا اپنے دم پر اور دو ریاستوں میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔بی جے پی انتخابات سے پہلے کہہ رہی تھی کہ اس بار اس کا مقصد 50 فیصد ووٹ حاصل کرنا ہے اور ہندی بیلٹ یہ کارنامہ کر دکھایا۔ ملک کی  سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں بی جے پی کو 49.56 فیصد ووٹ ملے ہیں اور اس نے 62 سیٹیں جیتی ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ریاست میں اس کو  42.63 فیصد ووٹ ملے تھے اور 71 نشستیں اس کی جھولی میں گئی تھیں۔دیگر ریاستوں میں گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش، ہریانہ، جھارکھنڈ، دہلی، چنڈی گڑھ، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں اس نے اکیلے ہی 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔مہاراشٹر اور بہار میں اس نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر 50 فیصد سے زیاد ہ ووٹوں پر قبضہ کیا ہے۔گجرات میں پارٹی کو 62.21 فیصد ووٹ ملے اور تمام 26  نشستیں اس کی جھولی میں چلی گئیں۔ پچھلی بار 60.11 فیصد ووٹوں کے ساتھ اس نے تمام سیٹیں جیتی تھیں۔ راجستھان میں 58.47 فیصد ووٹوں کے ساتھ پارٹی نے 25 میں سے 25 سیٹوں پر اپنا پرچم لہرایا ہے۔ پچھلی بار وہاں 55.61 فیصد ووٹ حاصل کر کے اس نے تمام 25 سیٹوں پر قبضہ کیا تھا۔مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو 58 فیصد ووٹ ملے اور اس نے 29 میں سے 28  سیٹیں جیتیں۔ پچھلی بار 54.76 فیصد ووٹوں کے ساتھ اس کو 27 سیٹ ملی تھیں۔ ہریانہ میں پارٹی نے اپنی کارکردگی میں زبردست بہتری کی ہے۔ پچھلی بار  34.84 فیصد ووٹ کے ساتھ سات سیٹ جیتنے والی پارٹی نے 58 فیصد ووٹ کے ساتھ تمام دس سیٹوں پر اپنا پرچم لہرایا۔ جھارکھنڈ میں بی جے پی کو 50.96  فیصد ووٹ ملے اور اس نے 11 نشستیں جیتیں۔ پچھلی بار اس نے ریاست میں 40.71  فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اور اسے 12 سیٹیں ملی تھیں۔ پارٹی نے قومی دارالحکومت دہلی میں بھی 50 فیصد کا ہندسہ پار کر لیا۔ پچھلی بار اس کو  46.63 فیصد ووٹ ملے تھے اور اس بار یہ اعدادوشمار 56.56 فیصد تک پہنچ گیا۔ یہاں وہ تمام سات سیٹوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ چنڈی گڑھ کی واحد سیٹ پر بھی اس کا  ووٹ فیصد 42.49 سے بڑھ کر 50.64 تک پہنچ گیا۔ اتراکھنڈ میں پارٹی نے تمام پانچ سیٹوں پر اپنا  قبضہ برقرار رکھا ہے اور  ووٹ فیصد 55.93 سے بڑھا کر 61.01 فیصد کرنے میں کامیاب رہی۔ ہماچل پردیش میں بھی وہ اپنی تمام چار سیٹیں بچانے میں کامیاب رہی۔ یہاں اس کا  ووٹ فیصد 53.85 سے بڑھ کر 69.11 تک پہنچ گیا۔مہاراشٹر میں بی جے پی کا شیوسینا سے اتحاد ہے۔ وہاں بی جے پی کو 27.59 فیصد اور شیوسینا کو 23.29 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اس طرح یہاں بھی دونوں مل کر 50 فیصد کا اعدادوشمار پار کرنے میں کامیاب رہے۔ پچھلی بار ریاست میں بی جے پی کو  27.56 فیصد اور شیوسینا کو 20.82 فیصد ووٹ ملے تھے۔بہار میں بی جے پی کو 23.58 فیصد اور اس کے اتحادیوں جنتا دل (یونائٹیڈ) کو 21.81 فیصد اور لوک جن شکتی پارٹی کو 7.86 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ پچھلی بار بی جے پی کو 29.86 فیصد اور ایل جے پی کو 6.50 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ جے ڈی یو اس وقت بی جے پی کے خلاف کھڑی تھی۔ صرف پنجاب اور جموں و کشمیر میں وہ 50 فی صد کا ہدف حاصل نہیں کر سکی۔ پنجاب میں بی جے پی  شرومنی اکالی دل (ایس اے ڈی) کے ساتھ مل کر الیکشن لڑی تھی۔ وہاں بی جے پی کو 9.63 فیصد ووٹ اور دو سیٹ، جبکہ ایس اے ڈی کو 27.45 فیصد ووٹ اور دو سیٹیں ملی ہیں۔ جموں و کشمیر میں بی جے پی بھلے ہی 50 فیصد کا  اعداد و شمار چھو نہیں پائی ہو، لیکن اس کے کافی نزدیک پہنچنے میں کامیاب رہی۔ وہاں بی جے پی کو 46.39 فیصد ووٹ ملے جبکہ پچھلی بار 32.65 فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہاں پارٹی نے پچھلی بار کی طرح ہی تین سیٹ جیتی ہیں۔

اسی طرح بی جے پی مغربی بنگال میں پہلی مرتبہ  40.25 فیصد ووٹ لے کر 18 سیٹوں پر قبضہ کر لیا ہے، جبکہ ریاست میں حکمراں ترنمول کانگریس 43.28 فیصد ووٹ حاصل کرکے 22 سیٹوں پر قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔بی جے پی نے گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ نہ صرف بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ وہ اہم اپوزیشن پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آنے میں کامیاب رہی ہے۔ بی جے پی نے  2014 کے عام انتخابات میں 17.02 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے، لیکن وہ صرف دو لوک سبھا حلقوں میں ہی کامیابی حاصل کر سکی تھی۔ اس انتخاب میں ترنمول کانگریس کو 39.79 فیصد ووٹ ملا تھا، لیکن اسے 34 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ کانگریس کو اس الیکشن میں 5.61 فیصد ووٹ ملے ہیں اور اس کے دو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ پچھلی مرتبہ کانگریس کو 9.69 فیصد ووٹ ملے تھے اور اس کے چار امیدوار جیت کا پرچم لہرانے میں کامیاب رہے تھے۔بدترین حالت تو بائیں بازو پارٹیوں کی ہوئی ہے۔ریاست میں 35 سال تک حکومت کرنے والی مارکسی کمیونسٹ پارٹی (سی پی ایم) کو اس انتخابا ت میں 6.25 فیصد ووٹ ملے ہیں، لیکن اس کا ایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔ سی پی ایم کو گزشتہ انتخابات میں 22.96 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور محمد سلیم (رائے گنج) اور بدرالدجی خان (مرشدآباد) نے جیت درج کی تھی۔

عام انتخابات میں اترپردیش میں  ایس پی۔ بی ایس پی اتحاد جہاں محض 15 سیٹوں پر سمٹ گیا تو وہیں اترپردیش کی مجموعی 17 ریزور سیٹوں میں سے 15 پر بی جے پی کے امیدواروں نے جیت کا پرچم لہرا کر سب کو حیران کردیا۔ اترپردیش کی سترہ ریزرو سیٹیں جن کو لے کر ہی ایس پی۔بی ایس پی اتحاد میں کئی بار رکاوٹ کی بھی نوبت آئی۔ ان میں سے پندرہ سیٹوں پر اتحاد کے امیدواروں کی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔بی ایس پی کے لئے دلت ووٹ بینک ہونے کے باجود ان سترہ سیٹوں میں سے پارٹی کو صرف نگینہ (ریزرو) اور لال گنج (ریزرو) پارلیمانی سیٹوں پر کامیابی ملی ہے۔ یہ اس لئے ہوا کہ کیوں کہ ایس پی۔ بی ایس پی کا ووٹ ایک دوسرے کے امیدوار کے حق میں منتقل نہیں ہوا۔ اگرچہ مسلمانوں نے اتحاد کے امیدواروں کی ہر جگہ حمایت کی لیکن ایس پی۔ بی ایس پی کارکنوں کے درمیان تال میل کی کمی کی وجہ سے اتحاد کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پڑنے والے ووٹوں کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ وہ سیٹیں جن پر مسلم اور دلتوں کی اکثریت تھی ان پر اتحاد کے امیدوار کو آسانی سے جیت ہوئی لیکن جہاں یادو فیصلہ کن حیثیت میں تھے وہ سیٹ بی جے پی کے کھاتے میں چلی گئی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یادوؤں نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اپنی ہی پارٹی کو نظر انداز کردیا۔

اگر گہرائی سے اس بات کا جائزہ لیں آخر یہ چمتکار ہوا کیسے تو جہاں بی جے پی کی محنت، آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں کا خون پسینہ ایک کرنا نظر آتا ہے وہیں ای وی ایم کی مہربانی بھی نظر آتی ہے۔ جس طرح ای وی ایم بدلے گئے، ووٹ شماری میں دھاندلی ہوئی، رٹرنگ افسر بی جے پی کے اشارے پر رقص کرتے نظر آئے، جس طرح تھوک کے حساب سے بی جے پی کو جعلی ووٹ ملے ہیں اس سے آسانی سے سمجھاجاسکتا ہے کہ یہ انتخاب شفاف اور منصفانہ، غیرجانبدرانہ قطعی نہیں تھا۔ الیکشن کمیشن کا کردار ابتداء ہی سے بی جے پی کے حق میں نظر آیا۔ بی جے پی کے گناہ کبیرہ کو نظر انداز کرتا گیا جب کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے گناہ صغیرہ پر بھی باز پرس کی اور سزا دی۔ بی جے پی کی یہ کامیابی مصنفانہ، حق پسندی، عوام کی محبت کی کامیابی نہیں ہے بلکہ محبت پر نفرت کی کامیابی ہے، گاندھی کے نظریے پر گوڈسے کی کامیابی ہے۔ پہلی بار ہوا ہے کہ یہاں کے عوام نے محض اس لئے مودی کو ووٹ دیا کہ وہ مسلمانوں کو دباکر رکھتا ہے، مارتا ہے، ان کو ذلیل کرتا ہے، ان کو اوقات میں رکھتا ہے، پاکستان کو گھر میں گھس کر مارتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ جہاں اس طرح کی سوچ ہو وہاں سارے دلائل، تعلیم، روزگار، صنعت و حرفت، طلباء کے مسائل، کسانوں کے مسائل، معاشرتی مسائل، غریبوں کو اوپر اٹھانے کا وعدہ اور اتحاد کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس صدر نے بی جے پی کی طوفان بدتمیزی کے باوجود نہایت مہذب انداز میں تشہیری مہم چلائی اور نتائج آنے کے بعد بھی اپنے عہد پر قائم رہتے ہوئے کہاکہ ہمارا نظریہ ہار گیا اور اس کا نظریہ جیت گیا ہے لیکن ہم ہار نہیں مانیں گے اور اس نظریہ کے خلا ف لڑیں گے۔یہاں کے عوام کی اکثریتی نے ثابت کردیا ہے کہ ملک میں مہذب بولنے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے وہ صرف اور صرف گالی گلوج کرنے، بدتمیزی کرنے والے، مذاق اڑانے والے، جذبات کو برانگیختہ کرنے والے، قاتل، زانی، مجرم اور دہشت گردوں کو پسند کرتے ہیں۔ ورنہ گزشتہ پانچ برسوں کی مودی کی ناکامی، نوٹ کی منسوخی، لائن ڈیڑھ سو سے زائد لوگوں کی موت، جی ایس ٹی، 45 برسوں میں سب سے زیادہ بے روزگاری، بھکمری میں سب سے آگے، خوش حالی میں تقریباً سب سے پیچھے غرضیکہ ہر محاذ میں ناکام ہونے کے باوجود اتنی اکثریت کامیاب کرانا یہ ہندوستان میں ہی ممکن ہے اور اس کے ساتھ ہی ’ جب ای وی ایم کا ساتھ ہے تو پھر غم کی کیا بات ہے ‘ کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے گزشتہ انتخابات کے 31 فیصد ووٹ کے داغ کو بھی دھونا چاہتی ہے جس میں ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ 69 فیصد لوگوں نے بی جے پی کو مسترد کردیا ہے۔اب شان سے بی جے پی یہ کہہ سکتی ہے کہ ملک کے آدھے سے زائد عوام نے اس کی حمایت کی ہے۔ اس کے علاوہ اس الیکشن میں ایک چیز ابھر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ صرف دو سیکولر اسٹیٹ بچے ہیں جہاں اقلیت بڑی تعداد میں ہیں جہاں بی جے پی کی نفرت کی سیاست کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ان میں پنجاب اور کیرالہ ہے۔ اسی کے ساتھ اس الیکشن میں کمیونسٹ کا نقاب بھی اترگیا اور اس کے بیشتر کیڈر ووٹ بی جے پی کو منتقل ہوگئے۔