مجھے اس سوال کے جواب کی تلاش ہے

ارشاد احمد ولی

سال 2014 میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد سے ہی ای وی ایم شک کے دائرے میں ہے اس کے تعلق سے عوام الناس مختلف طرح کی غلط فہمیاں ہیں جن کا نہ تو الیکشن کمیشن کی طرف سے ہی تشفی بخش جواب دیاگیا اور نہ ہی جو لوگ اس کے ٹیمپرنگ کا دعوی کرتے ہیں اسے کر کے دکھا سکے۔اس سلسلے میں عوام پش و پیش کا شکار ہیں۔ ای وی ایم کی ٹیمپرنگ کے امکانات کو نہ تو وہ صحیح طور قبول کر پارہے ہیں اور نہ ہی سرے سے اس کا انکار کر پار ہے ہیں۔

خیر ای وی ایم کے تعلق سے الیکشن کمیشن کی بات ہی ہمارے لئے قابل قبول ہے اور عام انتخابات 2019 کے نتائج کے بعد اب بھی میرا الیکشن کمیشن اور ای وی ایم کی معتبریت پر پورا یقین ہے۔ اور یہ اس وقت تک قائم رہے گا تاآں کہ اس ضمن میں اپوزیشن یا ٹیمپرنگ کا دعوی کرنے والے انتخابات میں استعمال ہونے والے ای وی ایم کا استعمال کرتے ہوئے اس کے نتائج کو من چاہے طریقے سے تبدیل کر کے نہ دکھا دیں۔

لیکن جس بات کو لے کر میں حیران ہوں اور کئی دنوں سے بے چینی کا شکار ہوں وہ یہ کہ 23 تاریخ کو عام انتخابات کے پیش نظر معمول کے برعکس علی الصبح ہی آفس پہنچ گیا۔ تمام نتائج میں میرے لئے جو پارلیمانی حلقہ سب سے زیادہ کشش کا باعث تھا وہ امیٹھی اور وائناڈ۔ یہ اس لئے نہیں کہ وہاں سے کانگریس صدر راہل گاندھی انتخابی میدان میں تھے اور میں ان کا بہت فین ہوں، بلکہ اس لئے کہ ابتدائی رجحانات سے ہی کانگریس صدر گاندھی خاندان کے قلعہ میں پچھڑتے نظر آرہے تھے۔

آفس میں نتائج کے رجحانات کی خبریں لکھتے وقت میں بار بار امیٹھی اور کیرالہ کے وائناڈ پارلیمانی حلقوں کے رجحانات کو بغور دیکھتا اور وائناڈ میں راہل کتنے ووٹوں سے آگے ہیں تو وہیں امیٹھی میں کتنے ووٹوں سے پیچھے ہیں اس کو باقاعدہ انگلیوں پر شمار کرتا رہا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آفس میں بہت سارے لوگ سب سے زیادہ ووٹوں سے جیتنے والے امیدوار کے بارے میں بات کرتے تھے اور میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ وائناڈ میں الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جو ووٹ شیئر دکھایا جارہا ہے اس میں راہل کافی آگے ہیں۔

آفس میں رہتے ہوئے جہاں تک میں نے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کو ریفریش کر کے دیکھا تو وائناڈ پارلیمانی حلقے پر الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ نے راہل کے کھاتے میں جو مجموعی ووٹ دکھایا وہ 13 لاکھ کچھ تھا، اور راہل گاندھی اپنے حریف سے تقریباً 8 لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے آگے چل رہے تھے۔ لیکن آفس چھوڑتے وقت جب میں نے آخری بار ویب سائٹ کو دیکھا تو حیران رہ گیا کہ میری وہی آنکھیں جو اس سے پہلے یہ دیکھ رہی تھیں کہ ویب سائٹ پر راہل کو 13 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملتا دکھایا جارہا ہے ا ب وہ فیگر کم ہوکر سات لاکھ کچھ رہ گیا ہے۔

میں یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ ہوسکتا ہے کہ میری آنکھیں خطا کررہی تھیں اور یہی سچ ہوگا جو اس وقت دکھایا جارہا ہے۔ کیونکہ میں نے پہلے کے اعداد و شمار کی کوئی اسکرین شاٹ نہیں لی تھی۔ لیکن مجھے اپنی آنکھوں پر اعتبار اور خود میں اعتماد اور الیکشن کمیشن کےجانب سے دکھائے جارہے اعداد و شمار پرگڑبڑی کا شک اس وقت ہوا جب سوشل میڈیا پر ایک اسکرین شاٹ دیکھنے کو ملا جس میں یہ بات درج تھی کہ پہلے راہل کو 13 لاکھ ووٹ ملتے دکھائے جارہے تھے لیکن بعد میں اسے کم کرکے 7 لاکھ کردیا گیا۔

خود میں اعتماد بڑھتا دیکھ کر میں نے تھوڑا سا اسائمنٹ کیا اور گوگل پر جاکر وائناڈ کے ابتدائی رجحانات کے بارے میں مختلف ویب پورٹل کی خبروں کو تلاشنے کی کوشش کی۔ وہاں پر ’دی للن ٹاپ‘،’ٹائمس ناؤ‘ اور ’یو این آئی اردو‘ کی خبریں نظروں سے گذریں جس میں اس بات کر تذکرہ تھا کہ راہل آٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے آگے چل رہے ہیں اور ان کو مجموعی ووٹوں کی تعداد تقریباً 13 لاکھ تک ہے۔

ابتدائی رجحانات کے مطابق راہل ہندوستان کی تاریخ میں سب سے بڑے مارجن سے جیت کا ریکارڈ قائم کرسکتے ہیں کا دعوی کرتے ہوئے ٹائمس ناؤ نے لکھا ہے کہ’’کہ 3:30 بجے تک راہل گاندھی کافی بڑے مارجن سے اپنے حریف کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار پی پی سونیر سے آگے چل رہے ہیں۔ اور اگر وہ اسی مارجن سے جیتتےہیں تو یہ ان کی ہندوستان کی انتخابی تاریخ میں سب سے بڑی جیت ہوگی ‘‘۔

ویب نے آگے مزید تفصیل کے لئےیہ بھی بتایا ہے کہ ابھی تک سب سے بڑی جیت کس کو ملی ہے اور اس ضمن میں وہ لکھتا ہے کہ ’’2014 میں بی جے پی کے پریتم منڈے سب سے زیادہ 7 لاکھ ووٹوں کے مارجن سے جیتے تھے جو کہ ایک ریکار ڈ ہے‘‘۔ یعنی پورٹل کی نظرمیں راہل سات لاکھوں سے زیادہ ووٹوں سے آگے چل رہے تھے۔

دوسری خبر ’دی للن ٹاپ ‘ کی ہے وہ لکھتا ہے ’’ ہندوستان کے انتخابی تاریخ کی سب سے بڑی جیت راہل گاندھی کے حصے، پھر بھی انکے لئے کالا دن ‘‘۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ ’’وائناڈ میں راہل گاندھی اب تک کی سب سے بڑی جیت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ راہل اب تک 8 لاکھ 08 ہزار 346 ووٹوں کی بڑھت لے چکے ہیں۔ وہ کل پڑے ووٹوں میں سے تقریباً 65 فیصدی ووٹ پاتے نظر آرہے ہیں۔ ساتھ ہی ویب سائٹ میں اس بات کا بھی تذکر ہ ہے کہ راہل کے حریف کو کتنے ووٹ ملے ہیں اس ضمن میں وہ لکھتا ہے کہ ’’ وائناڈ میں راہل گاندھی کے پیچھے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے پی پی سونیر لگے ہوئے ہیں۔ ان کو اب تک تقریبا 4 لاکھ 77 ہزار ووٹ مل چلے ہیں۔

وہیں بعد میں جب الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر راہل کے ووٹوں میں کمی کی جاتی ہے تو ویب سائٹ اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آگے لکھتا ہے: وائناڈ میں گڑبڑی کے اشارے ہیں۔ ایک وقت میں راہل تقریبا 8 لاکھ ووٹوں سے آگے تھے، اچانک ان کی بڑھت کم کردی گئی ہے۔ ایک وقت میں الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ میں راہل گاندھی کو 13 لاکھ 37 ہزار 438 ووٹ ملے دکھ رہے تھے۔ ان کے سامنے الیکشن لڑ رہے سی پی آئی کے پی پی سونیر کو 4 لاکھ ،99 ہزار 067 ووٹ ملتے دکھائے گئے بعد میں اچانک اس فیگر میں تبدیلی نظر آنے لگی‘‘۔ ویب سائٹ نے اپنی بات کے ثبوت میں کئی اسکرین شاٹ بھی لگائے ہیں۔

وہیں نیوز ایجنسی یو این آئی کی اردو سروس بھی راہل کی بڑی جیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنی رجحاناتی رپورٹنگ میں لکھا ہے ’’ راہل گاندھی آٹھ لاکھ ووٹوں سے آگے۔ سترهویں لوک سبھا کے انتخابات کے تازہ رجحانات کے مطابق کانگریس صدر راہل گاندھی کیرالہ کی وائيناڈ سیٹ پر 12 لاکھ 91 ہزار 693 ووٹ حاصل کرکے اپنے قریبی حریف سے آٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے آگے چل رہے ہیں جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امت شاہ گجرات کے شہر گاندھی نگر سیٹ سے آٹھ لاکھ 83 ہزار 830 ووٹ کے ساتھ اپنے قریبی حریف سے پانچ لاکھ 51 ہزار 944 ووٹوں سے آگے چل رہے ہیں۔

ایسی ہی رپورٹنگ ’ پتریکا ویب پورٹل ‘نے بھی کی ہے۔

ان سارے اعداد و شمار کو پیش کرنے کے بعد اصل مدعا جس طرف میں آپ تمام کی توجہ مرکوز کرانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ابتدائی رجحانات میں جہاں راہل کو 13 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملنے کا دعوی کئی ویب سائٹ کررہی ہیں نیز میں نےبھی اپنے آنکھوں سے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر راہل کو 13 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملنے کے فیگر کو دیکھا ہے اب جب ہم الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کو دوبارہ دیکھتے ہیں تو ملتا ہے کہ راہل کو 705034 ووٹ جبکہ ان کے حریف پی پی سونیر کو 273971 ووٹ ملے ہیں۔

میں حیران ہوں کہ رجحانات میں ہی جب ایک وقت میں راہل کو 13 لاکھ سے زیادہ ووٹ اور پی پی سونیر کو 4 لاکھ سے زیادہ ووٹ مل رہے تھے تو جب حتمی رزلٹ آیا تو اس میں راہل کے سات لاکھ اور پی پی سونیر کے تقریبا 3 لاکھ ووٹ ہی کیسے رہ گئے۔

اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا اسے تکنیکی خرابی مان کر نظر انداز کردیا جائے اور الیکشن کمیشن پر اپنے اعتبار کو برقرار رکھا جائے ؟ یا پھر اس بات کی جانب اشارہ مانا جائے کہ ووٹوں میں گڑبڑی ای وی ایم میں پہلے سے نہیں بلکہ اس کے نتائج آنے کے وقت کی جاسکتی ہے اور جب جتنا چاہیں امیدوار کے ووٹ کو گھٹا بڑھا سکتے ہیں۔ صرف تکنیکی وجوہات کی بنیاد پر اسے خارج کرنے کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آرہا ہے کیونکہ ایسا رجحان الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر کافی دیر تک دکھایا جاتا رہا۔

اس ضمن اگر آلٹ نیوز کر تذکرہ نہ کروں تو انصاف نہ ہوگا۔ فیک نیوز کے کراس چیک کرنے اور اس کی حقیت کی صورت کا پتہ دینے کے بارے میں آلٹ نیوز نے اپنا ایک مقام بنایا ہے۔ اس نے اس ضمن میں بھی ایسے خبروں کے بارے میں بھی وضاحت کی ہے اور ایسی خبروں کو سرے سے خارج کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ مجموعی ووٹ جو پڑے ہیں وہ دس لاکھ تک ہی ہیں تو راہل کو 13 لاکھ یا سونیر کو 4 لاکھ ووٹ کیسے مل سکتے ہیں۔

لیکن آلٹ نیوز کے اس تحقیق میں دم نہیں ہے کیونکہ دس لاکھ کا جو فیگر وہ بتا رہے ہیں وہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جو موجودہ فیگر ہے اسی کا حوالہ دے رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے ویب سائٹ پر ہی تو اصل اعتراض ہے اور راہل، سونیر کے ساتھ ساتھ مجموعی ووٹوں میں کمی کی کئے جانے کا الزام ہے۔ ہاں اگر آلٹ نیوز ان اسکرین شاٹس کے فیک ہونے کے بارے میں کچھ ثبوت پیش کرتا تو بات قابل قبول ہوسکتی ہے۔

پھر یہ بھی تو ہے کہ کسی ایک ویب سائٹ کی خبر میں اگر ہوتا کہ راہل کو 13 لاکھ ووٹ مل رہے ہیں تو اسے فیک مانا جاسکتا تھا لیکن یہاں بات کئی ویب سائٹس کی ہے اور اسے یوں ہی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ساتھ ہی اس بات میں دم ہوسکتا ہے کہ وہاں اصل پڑے ووٹوں کی تعداد ہی دس لاکھ تک تھی لیکن پھر بھی یہ بات تو قابل غور ہے ہی۔ 13 لاکھ یا سونیر کو 4 لاکھ ووٹ ملتا کیسے دکھایا گیا۔

سوال اب بھی برقرار ہے کیا یہ صرف تکنیکی خرابی تھی یا کچھ اور؟

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں