اپنے بچوں کو اتنی تعلیم ضرور دیں کہ وہ آپ کی نماز جنازہ پڑھاسکیں: عمرفاروق قاسمی جامعہ امیر حمزہ نظرا رانی پور میں تقسيم انعامات کا پروگرام

بینی پٹی: (نمائندہ) اپنے بچوں کو اتنی اسلامی تعلیمات سے روشناس ضرور کرائیں کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ محلہ کے امام کی جگہ آپ کے جنازہ کی نماز بھی پڑھاسکیں، اس خیال کا اظہار جامعہ امیر حمزہ نظرا کے اختتامی پروگرام میں مولانا عمرفاروق قاسمی نے کیا، انہوں نے کہا کہ ابھی نوے فیصد بجے ایسے ہیں جو اپنے والد کی جنازہ کی نماز نہ تو پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی پڑھاسکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ نماز جنازہ کا مقصد مغفرت کی طلب ہے اور اس کے لئے دردوالی کیفیت اور کسک کی ضرورت ہے، آپ کے باپ کے لیے جو درد و کسک آپ کے اندر ہے وہ محلے کے امام کے اندر نہیں ہوسکتا ہے، اس لیے خود کو بھی اور اپنی اولاد کو اتنی دینی تعلیم سے آراستہ ضرور کریں کہ ان کے انتقال کے بعد خود بڑھ کر جنازہ کی نماز پڑھا سکے، جنازہ پڑھانے کا حق دار سب سے زیادہ ولی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اکثر اولیا چاہے وہ ڈاکٹرس ہوں یا لیکچرس،اور انجینئرس. دگر عصری دانشگاہوں کے فضلاء ہوں یا کارخانے کے مالکان اپنے والدین کی نماز جنازہ اس کے حق کے مطابق نہیں پڑھاسکتے، پرانی پیڑھی تو کچھ دینی مسائل سے واقف ہے بھی نئی نسل تو ارتداد کے دہانے پر پہنچ گئی ہے، معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نوے فیصد سے زائد اسکول اور کالج کے طلبا و طالبات بلکہ اساتذہ تک کا قرآن درست نہیں ہے، جبکہ نماز فرض ہے اور اس میں قرآن کی تلاوت بھی فرض ہے، فروعی مسائل تو چھورئے بنیادی عقائد اور ضروری مسائل تک سے ہمارے بچوں کی واقفیت مفقود ہے، پانچ سال کی عمر میں ہم اپنے پجوں کو کانوینٹ یا غیرمسلم انگلش میڈیم اسکول کے حوالے کردیتے ہیں جہاں دین بیزار ماحول ہوتا ہے، یہاں کے بچے بلاشبہ ڈاکٹر، انجینئر، افسر تو بن سکتے ہیں لیکن مسلمان نہیں، ایسے وقت میں اپنے بچوں کو الحاد و ارتداد سے بچانے کے لیے ایسانظم تو کرنا ہی ہوگا جہاں بچوں کو بنیادی تعلیم سے آراستہ کیا جائے. جہاں ہم دنیا سنوارنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں وہیں آخرت سنوارنے کے لیے ہم کتنے بیدار ہیں؟ مستقبل کی سوسالہ زندگی کے لئے ہم سوچتے ہیں لیکن اپنے بچوں کی دائمی زندگی کے لئے ہماراکوئی لائحہ عمل نہیں ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ سارے بچوں کو عالم حافظ اور مفتی بناؤ کیوں عالم فاضل بننا فرض عین نہیں ہے، لیکن پکا سچا مومن اور مسلم بنانا فرض عین اور ضروری ہے اور اس کے لئے ٹھوس عقائد کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بنیادی دینی مسائل سے واقفیت ضروری ہے، آج اسکولوں میں جدت پسندی کے نام پر الحاد، یونیفارم کے نام پر عریانیت، ثقافتی پروگرام کے نام پر ناچ گانے،وغیرہ سکھائے جاتے ہیں،لیکن ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے، ہمارے بچوں کو کرکٹ اور گانے کا تو ہیبٹ (Habit) ہے لیکن کلمہ پڑھنے کا ہیبٹ نہیں ہے۔

اس موقع پر ایک دوسرے مقرر مولانا شاہد قاسمی نے کہا کہ مدارس اسلامیہ دین کے قلعے ہیں، اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، الحمد للہ جامعہ امیر حمزہ نے اپنی مختصر مدت میں جو تعلیمی ترقی کی ہے وہ اس ادارے کے ذمہ داران اور اساتذہ کی محنت اور مشقت کی روشن دلیل ہے،میں گارجین حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ اس کی ہمہ جہت ترقی کے لئے ادارے کے سربراہ اور اساتذہ کا تعاون کریں، اس قسم کے ادارے سے ہماری اخلاقی اور روحانی تربیت ہوتی ہے،اس موقع پر جامعہ امیر حمزہ کے بچوں کے درمیان اسلامک کوئز مقابلہ بھی ہوا جس میں حکم کے فرائض مولانا عمرفاروق قاسمی اور مولانا مبارک نے انجام دیئے، سوال پوچھنے کی ذمہ داری قاری عبدالمبین صاحب رحمانی نائب ناظم جامعہ نے انجام دیئے. جامعہ کے اساتذہ مولانا عبدالرقیب صاحب مظاہری (صدرمدرس) مولانا شمیم اختر ندوی مولانا جاوید اختر صاحب ثاقبی حافظ محمد شمس عالم صاحب ماسٹر ضیاءالدین صاحب ماسٹر شوکت صاحب کے علاوہ جناب محمد پرویز صاحب سابق مکھیا ، فاروق صاحب سابق مکھیا، محمد ثمیر صاحب عبدالناصر صاحب، معظم علی، ڈاکٹر عبدالعزیز، عبدالرشید اور عارف صاحب، شانو وغیرہ سینکڑوں علاقے کے ذمہ داران حضرات شریک ہوئے. کوئز مقابلے میں اول پوزیشن محمد افتخار عالم ابن عبدالستار صاحب نظرا دوم پوزیشن ناہد پروین بنت محمد صغیر صاحب اور سوم پوزیشن صابرین پروین بنت آفاق صا حب نظرا نے حاصل کئے، اس موقع پر مدرسہ کے طالب علم محمد صدام ابن محمد علاءالدین صاحب نظرا، محمد ریاض ابن محمودالحسن صاحب نظرا، محمد ریحان ابن عبدالقدوس صاحب سونہلی نے اردو زبان میں بہت ہی خوش اسلوبی کے سات تقریریں پیش کیں۔