رائے دہندگان کی آزمائش ابھی باقی ہے 

نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم

اتحاد سب سے بڑی طاقت ہے جبکہ اختلاف کا بے پناہ نقصان ہوتا ہے۔ حکومت اور سیاست کے میدان میں اتحاد کے بغیر کامیابی کا تصور ناممکن سمجھا جاتا ہے ۔ اسی اصول اور فارمولہ کے تحت ہندوستان جیسے ملک میں کئی طرح کا وفاق اور فیڈرل بنتا ہے۔ مخالفین کی شکست اور اپنی فتح یقینی بنانے کیلئے سیکولر پارٹیوں کی جانب سے کئی طر ح کا اتحاد سامنے آتاہے ۔ سب مل کر انتخابی میدان میں اترتے ہیں اور پھر اپنے مشن کیلئے کام کرتے ہیں ۔

اسی کے پیش نظر گذشتہ پانچ سالوں کے دوران اپوزیشن پارٹیوں نے ہمیشہ یہی کہاکہ 2019 کے انتخابات میں ہمار ا اولین مقصد بی جے پی کور وکنا ہوگا۔ کرناٹک ، بہار ، بنگال ، راجستھان ،مدھیہ پردیش سمیت مختلف ریاستوں میں مختلف تقریب کی مناسبت سے اپوزیشن پارٹیاں جمع ہوئیں اور سب نے نعرہ لگایا اتحاد کا ، یکجہتی کا اور بی جے پی سے نجات دلانے کا لیکن عملی طور پر سیاسی پارٹیوں نے یہ جوش اور جذبہ نہیں دیکھایا۔ اپوزیشن اتحاد مجموعی طور پر تشکیل نہیں پاسکا،کچھ ریاستوں میں سیکولر پارٹیوں نے اتحاد کیا، کچھ ریاستوں میں اتحاد تشکیل نہیں ہوسکا ۔چار مرحلوں کا الیکشن ابھی مکمل ہوچکا ہے۔ تین مرحلے مزید باقی رہ گئے ہیں جہاں رائے دہندگان کی آزمائش بہت سخت ہوگئی ہے ۔ بہت سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالنے کی ذمہ داری ان پر عائد ہوگئی ہے۔ 

 سیکولر پارٹیوں کی جانب سے عملی اقدام نہ ہونے کی وجہ سے رائے دہندگان کے درمیان کچھ مایوسی ہے۔ یہ معاملہ بھی بہت عجیب ہے کہ ایک طرف تمام پارٹیوں کے سربراہان بی جے پی کو روکنے ، آئین کو بچانے، ملک کو فرقہ پرست طاقتوں کے ہاتھ میں جانے سے روکنے کی بات کرتے ہیں دوسری طرف یہ سبھی صرف اپنی پارٹیوں کو مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہر ایک پارٹی اپنے سربراہ کو وزیر اعظم بنانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ علاقائی اور ریاستی پارٹیاں بھی یہ نعرہ دینے لگی ہے کہ ہمارے سربراہ اعلی ہی وزیر اعظم کے سب سے حقدار ہیں۔

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ۔الیکشن کمیشن کے مطابق تقریباً 1800 سے زائد پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں۔ سات جماعتوں کو قومی سیاسی پارٹی کا درجہ حاصل ہے جس میں سر فہرست کانگریس اور بی جے پی ہے ۔ہندوستان میں تقریباً انہیں دونوں پارٹیوں کی حکومت رہتی ہے ۔ دونوں پارٹیوں کا نظریہ ایک دوسرے سے متصادم اور مخالف ہے ۔بی جے پی کا ایجنڈہ فرقہ پرستی ، جمہوری اقدار کی خلاف ورزی ، آئین کی تبدیلی اور ملک کے سیکولرزم کے تانے بانے کو بکھیرنے پر مبنی ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ایک سیکولر ملک میں مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہے ، ہندتوا اس کا بنیادی ایجنڈا ہے ۔ بھوپال لوک سبھا سیٹ سے دہشت گردی جیسے سنگین الزام کا سامنا کررہی خاتون پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو امیدوار بناکر ایک اور عملی ثبوت بھی پیش کردیا ہے کہ بی جے پی ملک کے آئین پر عمل کرنے کے بجائے اسے بدلنا چاہتی ہے ۔ وہ مجرموں اور جرائم پیشہ افراد کو اقتدار سونپنے پر یقین رکھتی ہے۔ دہشت گردوں کو وہ لیڈر بناکر سیاست کی شبیہ کو مزید داغدار کرنا چاہتی ہے۔

 یہ نظریات ملک کی ترقی اور کامیابی کیلئے روکاٹ بنتے ہیں ۔ ایسے امور کی وجہ سے ملک کی بدنامی ،رسوائی اور شرمندگی ہوتی ہے ۔ ایسے سنگین خطرات، ملک پر حاوی ایسے نظریات اور ملک کی امن و سلامتی کیلئے بی جے پی کو ٹکر دینے والی اور اس کا مقابلہ کرنے والی پارٹی ابھی صرف کانگریس ہے ۔

کانگریس نے بہت ساری جگہوں پر غلطیاں کی ہے ۔ اس کی کوتاہیوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے لیکن ہندوستان ان دونوں جس سنگین خطرے سے دوچار ہے اس کا مقابلہ کرنے اور اس سے باہر نکالنے کی صلاحیت سب سے زیادہ کانگریس میں ہی ہے۔ وہ ایک نیشنل پارٹی ہے ۔ملک بھر میں اس کا اثر ورسوخ ہے اس لئے علاقائی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے وہ کانگریس کا ساتھ دے ۔ آئین کے تحفظ ،سیکولرزم کی بقاارو ملک کی ترقی کیلئے کانگریس کے قدم سے قدم ملائے ۔کانگریس کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بڑا دل دکھائے ۔بڑے کردار کا مظاہرہ کرے اور تمام علاقائی اور چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ لیکر چلے ۔انہیں اتحاد میں شامل کرے ۔

بہر حال کچھ جگہوں پر اتحاد نہیں ہوسکاہے کچھ جگہوں پر باقی ہے ایسے میں رائے دہندگان کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کا غور سے جائزہ لے ۔ علاقے کی صورت پر نظر رکھے اور سیکولر پارٹیوں کے جوا میدوار جیتنے کی پوزیشن میں ہیں ۔ جن کی گرفت مضبوط ہے انہیں کامیاب بنائیں ورنہ ووٹوں کی شدید تقسیم کا خدشہ ہے۔ جو لوگ پہلی مرتبہ ووٹ دے رہے ہیں انہیں بھی بہت ذمہ داری سے اپنا کردار نبھانا ہوگا ۔سیاسی شعور کے ساتھ اپنا ووٹ ڈالنا ہوگا تاکہ ان کا ووٹ کامیاب رہے۔ جیتنے والے امیدواروں کے حق میں ان کا ووٹ جائے اور ہندوستان میں ایک ایسی سرکار بن سکے جو فرقہ پرستی کا خاتمہ کرے ۔آئین پر خطرا ت کے منڈلاتے بادل کی حفاظت کرسکے ۔سیکولرزم کی روح کو پامال ہونے سے بچائے ۔ آئینی اداروں کی خود مختاری سے چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔ ملک کی سالمیت کو یقینی بنائے۔عوام کے فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ دے ۔خواتین کے حقوق کی حفاظت اور ان کی ترقی کیلئے کام کرے ۔ ایسی سرکار کا چننا رائے دہندگان کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔

جمہوریت میں ووٹ کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔یہ موقع پانچ سال میں صرف ایک مرتبہ آتاہے اس لئے بہت سو چ سمجھ کر حق رائے دہی کا استعمال کریں ۔ فرقہ پرستوں کو شکست دینا بنیادی ایجنڈا بنائیں ۔ جیتنے والے امیدوار کے حق میں ووٹ کریں اور یہ امید رکھیں کہ 23 مئی کا نتیجہ خوش آئند ہوگا ۔ ملک کو ایک نئی سرکار ملے گی۔ سیکولرزم کی جیت ہوگی ۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں