پروفیسر محسن عثمانی ندوی
آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی رہنمائی کا کام مشوروں اور اپنی اصابت رائے کے ذریعہ مولانا ابوالکلام آزاد نے کیا ، جمیعۃ العلماء ہند نے انجام دیا جس کی قیادت مولانا حفظ الرحمن اور مفتی عتیق الرحمن صاحب کے ہاتھ میں تھی یا کسی درجہ میں مسلم مجلس مشاورت نے انجام دیا جس کی قیادت ڈاکٹر سید محمود کے ہاتھ میں تھی بعد میں اس کی قیادت سید شہاب الدین کے ہاتھ میں آئی شمالی ہندوستان میںآل انڈیا مسلم مجلس نے سیاسی بیدار کا انجام دیا جس کی قیادت ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کے ہاتھ میں تھی ،کرالہ میں مسلم لیگ اور حیدراباد میں مجلس اتحاد المسلمین اور آسام میں مولانا بدر الدین اجملکی پارٹی فعال اور کار سازسیاسی جماعت رہی، بہار میں مولانا سجاد نے آزادی سے پہلے انڈپنڈنٹ بنائی تھی اس طرح مسلمانوں نے سیاسی شعور اور فکر کی بالیدگی کا ثبوت مختلف طریقوں سے دیا، تقسیم کے بعد کے جانگسل واقعات کے بعد امت مسلمہ کچھ نہ کچھ حرکت میں ضرور رہی لیکن وہ ایک بگولے کی طرح مضطر بے چین اور برباد رہی وہ ہاتھ پیر مارتی رہی ، لیکن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی نہیں رہی ، مذہبی میدان میں تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی سر گرم عمل رہی ، امارت شرعیہ بہار میں متحرک رہی، مسلم پرسنل لا بور ڈ شریعت کی حفاظت کے لئے مخالف طاقتوں کے سامنے سد سکندری بنا رہا ، خانقاہوں کا اور دینی مدارس اور دینی تعلیمی کونسل کا بھی رول رہامولاناعلی میاں نے پیام انسانیت کے پلیٹ فارم سے برادران وطن کو شرافت اور انسانیت کی دعوت دی ، بحیثت مجموعی امت مسلمہ غافل اور بے حسی اور بے شعوری کا شکار نہیں رہی ۔اگر ملت کے افق پر کامیابی کاکوئی ستارہ روشن نہیں ہوا تو اس کی وجہ علماء اور قائدین کی بے شعوری نہیں تھی بلکہ حالات کی سنگینی تھی ،برادران وطن کی طرف سے مسلم دشمنی اور فرقہ پرستی کا رویہ تھا، فسادات کی آگ میں مسلمانوں کو جھونکا جانا تھا اور تقسیم ملک کے بعدمصائب کے بادل کا امنڈ امنڈ کر چھا جانا تھا۔ ملک کی تقسیم کم از کم ہندوستانی مسلمانوں کے لئے صرف اور صرف خسارہ کا سودا رہی ہے ،انگریزں کی حکومت اور اس کے بعد کے دور میں جو آزاد ہندوستان کا دور ہے مسلمانوں کی حیثیت ایک ملبہ کے ڈھیر کی ہو گئی تھی اور صورت حال میں اب تک کوئی بڑا فرق نہیں آیا ہے وہ جو کبھی خسروئے اقلیم تھے ان کی زبان تہذیب تمدن مذہب اور جان ومال ہر چیز معرض خطر میں تھی حکومت کا چراغ پہلے ہی گل ہوچکا تھا معاشی طاقت بھی ختم ہوگئی تھی فسادات نے مسلمانوں کو پروانے کی خاک بنا ڈالا تھا، رنگا ناتھ مشرا کیشن اورسچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حیثیت دلتوں سے بھی بدتر ہو گئی ہے ،کمیٹی کی سفارشات پر بھی عمل اس لئے نہیں ہوسکا کہ مسلمانوں کیلئے کوئی مسلسل آواز بلند کرنے والا نہیں، عثمانیہ یونیورسیٹی پہلے ہی چھینی جاچکی اور اب مسلم یونیورسیٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جارحیت کی زد پر ہیں انکاونٹر اور بے جا گرفتاریوں اور دہشت گردی کے الزامات کا بھی مسلمانوں کوسامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس سے زیادہ بے عقلی کی کوئی بات نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ’’ مسلمان ترقی کررہے ہیں‘‘۔ایسی بات اسی شخص کی زبان سے نکل سکتی ہے جو ذہنی اور فکری طور پر مفلس ہوگیا ہو یا غباوت کی بلندترین چوٹی پرفائز ہو ٰ
موجودہ افسوسناک صورت حال سے باہر نکلنے کے لئے اس ملک میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت بہت ضروری ہے اور یہ سیاسی طاقت کیسے حاصل ہو اس پر علماء اور قائدین اور دانشوروں کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔اس بات کی دانستہ کوشش کی گئی ہے کہ مسلمان کم سے کم تعداد میں پارلیامنٹ اور اسمیلی میں پہونچیں جن علاقوں سے مسلمانوں کا جیتنا یقینی تھا ان کورزرو کونسٹی چیونسی ینا دیا گیا ،مسلمان سیاسی دانشوروں نے ظلم وزیادتی سے بچنے کیلئے اور جانگسل حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے کئی بار مسلم جماعتوں کا وفاق بنایا،مثال کے طور پڑ مجلس مشاورت اور ملی کونسل، لیکن ابھی تک ان کی سرگرمیاں ان کے دفتروں تک محدود رہی ہیں اور ان کا کوئی وزن ملک میں محسوس نہیں کیاگیا اور مسلمانوں کا کوئی مسئلہ وہ حل نہیں کرسکیں اور ان کے وجود سے مسلمانوں کی سیاسی طاقت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ،ٰ حالانکہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہی ان کے موجودہ مشکل مسائل کاحل ہے اور مسلمانوں کے موجودہ تمام مسائل سیاست میں ان کی بے وزنی کی وجہ سے پیش آتے ہیں ، اس بے وزنی اور ہلکے پن کو ختم کرنے کے لیے اور جارحیت کا دفاع کرنے کے لئے مسلم جماعنوں کا ادغام اور انضمام نہیں بلکہ باہمی تعاون اور اشتراک ضروری ہے،اور خدمت خلق اور فیض رسانی، نفع رسانی اور راحت رسانی کے ذریعہ برادران وطن کی تالیف قلب کی ضرورت ہے قرآن وحدیث میں خدمت انسانیت اور نفع رسا نی اور دل بدست آوری اور حسن اخلاق کے جتنے احکام اور فضائل ہیں اتنے بائبل میں بھی نہیں ہیں لیکن بائبل کے ماننے والے خدمت خلق کا جتنا کام کرتے ہیں قرآن وحدیث پر ایمان رکھنے والے اس کا عشر عشیر بھی نہیں کرتے ہیں،خدمت خلق کے ذریعہ سے برادران وطن کے دلوں کو فتح کیا جاسکتا ہے اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں مسلمان کہیں پندرہ کہیں بیس اور کہیں تیس فی صد ہیں اور کہیں اس سے بھی زیادہ ہیں،اگر یہ تعداد تعلیم میں اور معیشت میں طاقتور ہو اوربرادران وطن سے اس کے مضبوسماجی تعلقات ہوں ،اور اس کی مناسب نمائندگی اسمیلی اورپارلیمنٹ میں ہو تومسلمان اپنا سیاسی وزن منوا سکتے ہے، اس لیے مسلمانوں کا اصل ایجنڈا دینی اور اخلاقی تربیت وتعلیم کے سا تھ عصری تعلیم اور معیشت میں ترقی ہونا چاہیے اور پھر برادران وطن کے ساتھ روابط کے ذریعہ قانون ساز اداروں میں ان کی مناسب نمائندگی ہونا چاہئے، مسلمانوں کو مصائب اور جانگسل حالات کے دلدل سے نکالنا ایک دینی کام ہے اور اس کام کو دینی کام نہ سمجھنا اور صرف ذکر وفکر صبح گاہی کی تلقین کرنافکر ونظر کی خامی ہے ، افسوس ہے کہ ایسے خام فکر ونظر کے علماء موجود ہیں جو تعلیمی اور معاشی ترقی کو اور سیاست میں حصہ داری کو دنیا داری کا کام سمجھتے ہیں ، یہ سب قصور اس بے شعوری کے ماحول کا ہے جس مین وہ رہتے ہیں اور جس میں انہوں نے تربیت پائی ہے جس کی وجہ سے انہیں سیاسی طاقت کی دینی اہمیت سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔
مختلف قوموں اور تہذیبوں اورمذہبوں کے ملک میں مسلمان تن تنہا اپنی اس سیاسی طاقت کی تشکیل نہیں کرسکتے جو ان کو پارلیالمنٹ اور اسمبلیوں اور قانون ساز اداروں تک پہونچائے اور شریک حکومت کرے ، اس کے لئے برادران وطن سے اور خاص طور پر دیگر اقلیتوں سے اور پسماندہ طبقات سے رابطہ استوار کرنا ضروری ہے تاریخ بتاتی ہے کہ سماج کے کمزور طبقات ہمیشہ حق کو قبول کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، دو طرفہ تعلقات کی استوار ی مسلمانوں کی دینی اور دعوتی ضرورت بھی ہے اور سیاسی ضرورت بھی ہے ۔ صفا کی پہاڑی سے جب پیغمبر خدا ﷺنے آواز دی تھی تو قریش اور مکہ کے سربرآوردہ لوگ اس آواز پر جمع ہوگئے تھے ا ب اگر مسلمان غیر مسلموں کو بلائیں تو مشکل سے چند لوگ جمع ہوں گے ، اب وہ رابطہ ٹوٹ گیا ہے اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کمیونیکیشن گیپ پیدا ہوگیا ہے، پہلی فرصت میں اس حائل خلیج کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ، تمام مسلم جماعتوں تنظیمو ں اور اداروں کے پاس غیر مسلموں سے رابطہ کا ایک اہم ،سر گرم، کار گر ، کارگذار اور کارپردازاورمتحرک اور فعال شعبہ ہونا چاہئے ، اس شعبہ کے قیام اور اس عظیم کام کا مقصد اسلام اور مسلمانوں سے برادران وطن کو قریب کرنا ہے اور ضرورت مندوں کی خبر گیری کرنا ہے اور رفاہی کام بھی انجام دینا ہے اگر اس منصوبہ کا مقصد تالیف قلب ہے اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے اور اسلام کیلئے کشش پیدا کرنا ہے اور دشمنوں کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ کرنا ہے تو مؤلفۃ القلوب کی مد کی زکات بھی اس پر خرچ کی جاسکتی ہے ۔ دینی ادارے مسلمانوں سے زکاۃ کی رقم وصول کرتے ہی ہیں اور اب بہت سے ا دارے تملیک کے حیلہ اورکسی تکلف کے بغیرعمارتوں کی تعمیر پراور تنخواہوں پر زکاۃ کی رقم خرچ کرنے لگے ہیں اس لئے زکاۃ کا کچھ حصہ مسلم جماعتیں مؤلفۃ القلوب کے مد کے لئے مخصوص کرسکتی ہیں اور اس حصہ کو مسلمانوں کو جارحیت سے بچانے اور سیاسی طاقت کے حصول پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے ،کیونکہ سیاسی طاقت کا حصول اور جارحیت کا دفاع دلوں کو فتح کئے بغیر اور برادران وطن کو قریب کئے بغیر ممکن نہیں ہے ۔قرآن میں زکاۃ کے مصارف میں مؤلفۃ القلوب کا ذکر آیا ہے، یعنی تالیف قلب کے لئے بھی زکاۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے ، کسی کو غلط فہمی نہ ہوکہ ہم زکاۃ کو غیر مسلموں کو عمومی طور پر دینے کی حمایت کررہے ہیں لیکن زکاۃ کے مصارف میں مؤلف القلوب کی مد بھی شامل ہے جو خاص طور پر غیر مسلموں کے لئے ہے اور جسے حضرت عمر نے یہ کہہ کر ختم کردیا تھا کہ اب اسلام کو عزت اور طاقت حاصل ہوگئی ہے اب اس کی ضرورت نہیں۔لیکن ظاہر ہے کہ اسلام کی بے کسی اور مسلمانوں کی بے بسی جب بھی دوبارہ واپس آئے گی تو لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے اورمسلمانوں کو اصحاب اقتدار کے شر سے بچانے کے لئےُ زکاۃ کی اس مد کا دوبارہ استعمال درست ہوگا ۔ اس مد کا استعمال انفرادی طور پر مسلمان نہ کریں بلکہ مسلمانوں کی جماعتوں کو یہ حق دیا جائے، یعنی جمیعۃ علماء جماعت اسلامی ، وحدت اسلامی، امارت شرعیہ مسلم مجلس مشاورت اور ملی کونسل، مسلم پرسنل لا بورڈ اور اتحاد المسلمن جیسے اداروں کویہ حق دیاجائے جو ہندو تنظیموں کے لیڈروں کو اور ہندووں کے سماجی قائدین کو اپنے یہاں مدعو کرسکیں اور ان سے رابطہ استوار کرسکیں تبادلہ خیال کرسکیں مذاکرات کرسکیں شروع اسلام کے زمانہ میں بھی یہ کام ہڈ آف دی اسٹیٹ کی طرف سے ہوتا تھا انفرادی طور پر نہیں ہوتاتھا ،آج مسلمانوں کی جماعتیں بہت قابل قدر کام کرہی ہیں ۔ مثال کے طور پرجھوٹے الزامات میں مسلمانوں کی گرفتاریاں ہوئیں جمیعۃ علماء نے کیس لڑکر بے قصور لوگون کو رہائی دلائی بلا شبہ یہ قابل قدر کام ہے لیکن جمیعۃ علماء کے پاس اس کا کیا منصوبہ ہے کہ سرے سے گرفتاریاں نہ ہوں اور پولیس کا ظلم نہ ہو اورمسلمانوں کے خلاف فرقہ پرستی ختم ہو ۔راقم الحروف کے نزدیک یہ کام سیاسی طاقت حاصل کئے بغیر نہیں ہوسکتا ہے اور سیاسی طاقت کے لئے باہمی اتحاد کے ساتھ برادران وطن کے دلوں کو جیتنا اور مخالفوں کو بے اثر کرنا ضروری ہے، اور میرے نزدیک اس کام کے لئے مؤلفۃ القلوب کی مد زکاۃ استعمال ہوسکتی ہے، یہ تجویز باشعورعلماء دین اور مفتیان شرع متین کے غور وتدبر کے لئے ہے کہ وہ اس پر غور کریں،یہاں پر اتنا ذکر کرنا مناسب ہے کہ اس مسئلہ پر علماء سلف مختلف الخیال ضرور رہے ہیں لیکن امام مالک ، امام شافعیر امام احمد بن حنبل کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کی مد ختم نہیں ہوئی ہے بعض علماء احناف کی رائے بھی یہی ہے امام ماوردی نے یہی رائے الاحکام السلطانیہ میں لکھی ہے ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ جو چیز قرآن سے ثابت ہے اس کے خلاف اگر کوئی اجماع ہو جب بھی وہ چیز ختم نہیں ہوسکتی ہے ۔ اگربرادران وطن سے رابطہ کا کام دینی اداروں اور جماعتوں کے ذریعہ ہو تو ایمان اور اخلاق کی خوشبو بھی پھیلے گی اور پیام انسانیت کی تحریک کو بھی فروغ حاصل ہوگا اور لوگ اسلام کے اندر کشش بھی محسوس کریں گے اور مسلمانوں کے بارے میں اچھا تاثر بھی قائم ہوگا اور مسلمانوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں یا پیدا کی جارہی ہیں اس زہر کا تریاق مہیا کیا جاسکے گا ، فرقہ پرستی کے سیلاب کو روکا جاسکے گااور مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور حاشیہ نشینی ختم کی جاسکے گی ۔مسلمانوں کی سیاسی طاقت کے لئے اوروقار اور اعتبار حاصل کرنے کیلئے اور ان کے جائز مطالبات کی حمایت کے لئے جمہوریت کے اس دور میں ملک کے باشندوں کی ہم نوائی ضروری ہے ۔ہم یہاں مسلمانوں کی الگ سیاسی پارٹی کے موضوع پر کچھ کہنا نہیں چاہتے ہیں لیکن مسلمان اگراپنی سیکولر سیاسی پارٹی بنائیں تب بھی کامیابی اکثریت کو ساتھ لئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ چار مینار اور اس کے چاروں اطراف مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ایک استثنائی حیثیت رکھتا ہے ،جہاں برادران وطن کے ووٹ کے بغیر بھی مسلمان الکشن جیت سکتے ہیں۔ مسلم تنظیموں اور اداروں کو بدلے ہوئے حالات میں نئی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم قانون ساز ادروں میں برادران وطن کے تعاون سے ایسے مسلمانوں کو پہونچائیں جو حق کے لئے آواز بلند کرسکیں اورمسلمانوں کے لئے رزرویشن اور اس جیسے دوسرے مسائل پر اپنی زبان کھول سکیں، خاموش تماشائی نہ رہیں ۔یہ بنیادی بات گرہ میں باندھ لینے کی ہے کہ جب تک مسلمانوں کے پاس قابل لحاظ سیاسی قوت موجود نہ ہوگی ان کے زخم مندمل نہیں ہوں گے ۔یہی مفہوم ہے اقبال کے اس شعر کا
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے
ڈاگر کانٹوں میں ہو خوئے حریری
موجودہ سنگین حالات میں مسلمانوں کی حکمت عملی کے یہ تین پہلو ہیں جن پر پوری توجہ کی ضرورت ہے۱۔نئی نسل کی دینی اور اخلاقی تربیت اور کردار سازی کی طرف توجہ ۲۔مسلمانوں کی تعلیم اور معیشت کی طرف توجہ ۳ برادران وطن سے تعلقات قائم کرنے اور ان کے دلوں کو جیتنے کی طرف توجہ اور اس کام کے لئے مسلم جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے بہتر منصوبہ بندی ۔(ملت ٹائمز)