بازگشت :زین شمسی
ملت ٹائمز
دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ دنیا قبیلوں کی شکل میں وجود میں آئی ،چھوٹے چھوٹے قبیلے بنیاور پھر پھیلتے پھیلتے انسانی آبادی شہروں میں تبدیل ہوئی۔ نسل پرستی کا غرور انسانی جبلت میں اسی لیے شامل ہے کہ زمانہ کے تغیر پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ جن لوگوں نے حکومتیں کیں ان کے ہاتھ سے حکومت چھن بھی گئی ،مگر وہ اپنی تاریخ کو پدرم سلطان بود سمجھتے رہے۔یہودی دنیا کی سب سے عقلمند قوم گردانی جاتی ہے۔ اس نے دنیا کو نئی تکنیکوں سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ انسانوں کا زبردست استحصال بھی کیا۔غلامی کاتصور یہودیوں کے یہاں سے ہی آیا۔ آج بڑے مذاہب سے موازنہ کریں تو یہودیوں کی تعداد سب سے کم ہے ، مگر آج بھی دنیا یہودیوں کو ہی سلام کرتی ہے۔ مریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کی بنیاد میں یہودیوں کا ہی ذہن کارفرما ہے۔ خلیج کا اتہاس اٹھائیں تو اسرائیل جیسا چھوٹا سا ملک اپنی مضبوط حکمت عملی کے ساتھ اسلامی ممالک کے سینہ پر مونگ دل رہا ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر کل کارخانوں تک ،مشینوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک یہودیوں کے دبدبہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اس کی عیاریاں ،جگ ظاہر ہے ،لیکن اس کے باوجود اس کا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ پاتا۔ عیسائیت بھی یہودیوں کی غلامی میں رہ کر خوش نظر آرہی ہے۔
مگر جب دیگر مذہب کی بات آتی ہے تو ہندو ازم کا برہمن وادی تصور یہودیوں سے آگے نکلتا ہو ا نظر آتا ہے۔ یہودیوں نے انسانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ،اسے مصائب و مشکلات سے دوچار کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کے کھانے پینے کا بندوبست بھی کیا ،لیکن ہندؤوں میں اگر برہمنوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حیرت کی انتہا ہوتی ہیکہ برہمنوں نے نہ صرف انسانوں کو غلام بنایا بلکہ ان کے کھانے پینے رہنے سہنے ،دکھنے اور یہاں تک چھونے پر بھی پابندی عائد کر دی۔منو اسمرتی کے زیر سایہ پرورش پانے والا سماج آج بھی برہمنوں کا یرغمال بنا ہوا ہے ،جب کہ زمانہ 21ویں صدی میں داخل ہو چکا ہے۔تعجب کی بات یہ ہے کہ منو اسمرتی نے انسانوں کو چار زمرے میں تقسیم کرتے ہوئے سب کے لیے کام بھی مختص کر دیا اور مجال نہیں ہے کہ اس پیمانہ سے باہر آکر کوئی بھی آدمی اپنے آپ کو الگ کر سکے۔ برہمن ، چھتریہ ، ویشیہ اور شودر۔یہ انسانوں کی ہی نہیں ،اس کے دل و دماغ کی بھی تقسیم ہے۔ برہمن ،تعلیم یافتہ ،چھتریہ لڑاکو ،ویشیہ تجار اور شودر غلام۔ شودر میں بھی زمرے ، (Unseen ) جسے دیکھنا بھی ممنوع تھا ،اس میں دھوبی یعنی کپڑے دھونے کاکام کرنے والے لوگ تھے۔ یہ لوگ طلوع آفتاب سے پہلے لوگوں کے گھروں سے باہر رکھے ہوئے کپڑے لے جاتے اور دھلے ہوئے کپڑے رکھ جاتے۔ اگر انہوں نے کسی کو دیکھ لیا تو سزا کے طور پر ان کی آنکھیں سی دی جاتی تھیں۔( Untouchable) وہ لوگ جو کسی کو چھو نہیں سکتے اور انہیں کوئی نہیں چھوتاتھا، اس میں چماڑ سے لے کر کئی ایسے دلت طبقہ آتے ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ ان کی مکتی تبھی ہوتی ہے ،یا یہ لوگ تبھی بیکنٹھ (جنت) جا سکتے ہیں ،جب وہ برہمنوں کی سیوا کریں۔ ان کے گھروں کی لکڑیاں کاٹیں ،کپڑے دھوئیں ،کھیت جوتیں ،یا جو بھی کام انہیں دیا گیا ہو ،کرتے رہیں اور اگر انہوں نے اجرت مانگ لی یا کھانا مانگ لیا تو جنت جانے کا راستہ بند ہو گیا۔گویا وہ برہمنوں ،چھتریوں اور ویشیوں کے زر خرید غلام تھے جو مذہبی استحصال کے سایہ میں جی رہے تھے اور اب بھی جی رہے ہیں۔
آج جب زمانہ براق بن چکا ہے۔ تیز رفتاری وقت کا تقاضہ ہے۔ آج بھی دلتوں کی حالت وہی ہے۔ان کی ترقی اور انہیں سماج میں عزت دلانے کے لیے کیکئی تحریکیں ہوئیں ، جس کے نتیجہ میں انہیں نوکریوں اور تعلیم میں ریزرویشن بھی دیا گیا۔ انہیں اچھے عہدوں سے بھی نوازا گیا لیکن سماجی حیثیت آج بھی ان لوگوں کی وہی ہے جو زمانہ قدیم میں تھی۔ انسانی استحصال کے معاملہ میں برہمن ،یہودیوں سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔سامنتی اور برہمنی نظام کا ہی نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت کے بعد سے ایک بھی غیر برہمن وزیر اعظم اپنا 5سال کادور اقتدارپورا نہیں کر سکا۔ منموہن مستثنیٰ اس لیے ہیں کہ وہ سکھ تھے اور ان کی کمان بھی برہمن فیملی کے ہاتھ میں تھی۔ ورنہ ،چندر شیکھر ، وی پی سنگھ و دیگر وزرااعظم آئے گئے ہی رہے۔آج بھی کلیدی پوسٹ پر برہمنوں کا راج ہے۔ہاں اس نے اپنی صورت بدل ڈالی ہے۔ مثال کے طور پر نریندر مودی کو ہی لیجئے۔ان کی پشت پر برہمنی نظام کا ایسا مضبوط ہاتھ ہے کہ پی ایم سے ذرا بھی لغزش ہوئی اوروہ زمین پر آگرے۔
ہندوستان میں برہمنوں کے لیے مسلمان ایک تحفہ اور موقع کے طور پر ہیں۔ ان کا خوف دکھا کر وہ ان دلتوں کو اپنا بنا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو ان کی غلامی سے نجات پانے کے لیے بغاوت پر اتر آتے ہیں۔اگر اس ملک میں مسلمان نہیں ہوتے تو شاید اب تک برہمنوں کے خلاف بغاوت ہو چکی ہوتی۔ آج بھی ایسی کئی خبریں گردش کرتی ہیں کہ دلت ڈی ایم نے برہمن داروغہ کے پیر چھوئے۔دراصل برسوں کا مینٹل سیٹ اپ آج بھی انہیں آزاد ہونے سے خوف زدہ کرتا رہا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی موت پر اگر برہمنوں کو غصہ آگیا تو ان کی روحیں دنیا میں بھٹکتی رہیں گی ،اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ان کے پیروں میں گر جاتے ہیں۔ بھیم راؤ امبیڈکر سے لے کر کانشی رام تک دلتوں کے دلوں سے برہمنوں کے مذہبی استحصال کا خوف دور کرنے میں ناکام رہے۔ایک وقت تھاجب پڑھائی لکھائی صرف برہمنوں کا ہی حصہ تھی ،گیتا اور رامائن ان کے علاوہ کوئی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ ان کے اسی جبر کو چیلنج کرتے ہوئے مہاتما بدھ نے بدھ مذہب کی بنیاد ڈالی۔
آج برہمنی نظام جمہوریت اور قانون سے مجبور ہو کر دلتوں کو پڑھنے ضرور دے رہا ہے ،لیکن ان کی حیثیت وہ نہیں بنانا چاہتا کہ جس سے وہ سماجی سطح پر اپنی اوقات سے آگے بڑھ کر بات کر سکے۔ حیدر آباد کا دلت طالب علم روہت ویمولا اس کی مثال ہے۔ اس نے اسی آرڈر اور ڈسپلن ،جسے برہمنوں نے عائد کیا ہوا کہ خلاف آواز اٹھا دی تھی، اس کے بعد جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ صرف ویمولا ہی نہیں اجمیر یونیورسٹی کے ایک اور دلت ریسرچ اسکالر کو صرف اس لیے یونیورسٹی سے باہر کر دیا گیا کیونکہ اس نے اپنے سپر وائزر کا ذاتی کام کرنے سے منع کر دیا۔ دراصل زمانہ کے بعد ملک میں برہمنی رواج قائم کرنے والی سرکار بنی ہے اور اس موقعہ کا فائدہ اٹھا کر پھر سے سماج کو منو اسمرتیطرزتعلیم کی طرف موڑنے کی حکمت عملی پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ اے ایم یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا مائنارٹی اسٹیٹس چھیننے اور دلت طلبا کے استحصال کا واقعہ اسی ذہنیت کی عکاس ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ پہلے منو اسمرتی تھی اب اسمرتی ایرانی ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور روزنامہ خبریں میں جوائنٹ ایڈیٹر ہیں )