پروفیسر شمیم اختر
یمن کی جنگ پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری بان کی مون کی قائم کردہ کمیٹی نے یکم جون کو اپنی رپورٹ میں 10 ملکی سعودی اتحاد کی حملہ آور فوج پر الزام لگایا کہ اس نے 550 بچوں کو ہلاک اور 667 کو زخمی کیا ہے جبکہ اس نے اپنے نصف حملے 10 سکولوں پر اور ہسپتالوں پر کیے ہیں۔ لہٰذا اسے جنگی جرائم کے ارتکاب پر موردِ الزام قرار دیا جاتا ہے۔ (رائٹر بحوالہ ڈان منگل 6 جون 2016ء )
اس پر اقوام متحدہ میں مامور مملکت سعودی عرب کے سفیر عبداللہ المعلمی نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ان اعداد وشمار کو مبالغہ آمیز قرار دیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ حملے سے متاثرین کی تعداد اس سے کہیں کم ہے جو رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اتحادی افواج کے پاس جدید ترین اسلحہ جات ہیں جو تیر بہ ہدف ہیں لہٰذا ان کا غیر جنگی اہداف کو نشانہ بنانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ (رائٹر بحوالہ ڈان منگل 6 جون 2016ء )
یاد رہے حوثی باغیوں اور القاعدہ کو اقوام متحدہ کی جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی فہرست میں پانچ سال قبل ہی شامل کر لیا گیا تھا۔ کویت میں یمنی حکومت اور حوثی باغیوں دونوں ہی نے جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی تھی اور ان میں سے کسی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ عالمی ادارے کے منشور کی شق 51 کے تحت جب تک کوئی ملک کسی ملک پر حملہ نہ کرے آخر الذکر اس پر حملہ نہیں کر سکتا یہی کچھ امریکہ نے 2005ء میں عراق پر عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کو عذر بنا کر اس ملک پر حملہ کر دیا تھا جو غیر قانونی جارحیت تھی۔
واضح رہے مذکورہ منشور کے باب VII کی 39 تا 47 شقوں کے تحت سلامتی کونسل تفتیش کی بنا پر کسی ریاست کے خلاف ناکہ بندی مواصلات کا مقاطعہ اور بالآخر فوج کشی کر سکتی ہے۔ اگر سعودی عرب اتحاد نے یمن پر فوج کشی کر کے بشمول 510 بچوں کے آٹھ ہزار افراد کو ہلاک کر دیا تو یقیناً یہ فعل جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے لیکن عراق میں تو امریکہ کی جانب سے خوراک اور ادویہ کی ترسیل پر ناکہ بندی کے باعث پانچ سال سے کم عمر کے بچے جاں بحق ہو گئے تھے جسے اس وقت کی چڑیل صورت امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نے جائز قرار دیا تھا۔ اگر 510 بچوں کے قتل پر سعودی اتحاد کو جنگی مجرم قرار دیا جا سکتا ہے تو پانچ لاکھ بچوں کی قاتل جارج بش انتظامیہ کو گھسیٹ کر عدالت کے کٹہرے میں کیوں نہیں لایا جا سکتا، اسی طرح شام میں روس نے ہسپتال پر حملہ کر کے مریضوں اور طبی عملے کو ہلاک اور زخمی کیا ہے تو بان کی مون، ولادیمیر پیوٹن پر فرد جرم کیوں عائد نہیں کرتے ہیں؟ 2002ء میں گجرات کے دو ہزار نہتے مسلمانوں کے قاتل بھارت کے وزیراعظم کا نام سیاہ اعمال نامے (Blacklist) میں کیوں نہیں لکھ دیا گیا؟
آخر بان کی مون کس طرح سعودی عرب اتحاد کو Blacklist کر سکتا ہے جبکہ گزشتہ سال اس نے فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے والے نیتن یاہو کا نام کیوں نہیں سیاہ فہرست میں لکھا۔
سعودی اتحاد کو خدشہ تھا کہ اگر حوثی ہمارے ملک پر بر سر اقتدار آ گئے تو آبنائے باب المندب ایران کے زیر تصرف ہو جائے گا جسے امریکہ ہرگز گوارا نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ تیل کی گزرگاہوں پر واقع تمام کلیدی مقامات اپنے یا اپنے پٹھوؤں کے قبضے میں رکھنا چاہتا ہے۔ یہ 19 ویں صدی کے استعمار کا تسلسل نہیں تو اور کیا ہے؟ اب جبکہ عدن اور باب المندب پر منصور ہادی کا تسلط قائم ہو گیا ہے تو امریکہ کو اب حوثیوں سے کوئی خطرہ نہیں رہ گیا۔ اس لیے وہ یمن کی جنگ کا فوری خاتمہ چاہتا ہے اور یمن میں حوثیوں کو اقتدار میں شامل کرنا چاہتا ہے۔
اسی لیے اب وہ(امریکا) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، جو اس کا پٹھو ہے، کے ذریعے سعودی اتحاد کو بلیک میل کرا رہا ہے۔ علاوہ ازیں وہ خود سعودی عرب پر اپنا دباؤ بڑھاتا جا رہا ہے۔ (1) امریکی کانگریس نے 11 ستمبر کی واردارت میں سعودی عرب کو ملوث کر کے اس واردات میں ہلاک شدگان کے ورثاء کو سعودی سلطنت پر معاوضے کی وصولی کے لیے امریکی عدالت میں چارہ جوئی کے لیے ترغیب دے رہی ہے۔ نیز امریکی کانگریس نے سعودی عرب کو اسلحہ کی ترسیل پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کی ہے کیونکہ بقول اس کے (امریکی کانگریس) وہ اسلحہ یمن کی شہری آبادی پر استعمال کیا جا رہا ہے، جو کہ امریکہ نہیں چاہتا۔
یہ امریکہ کا طریقۂ واردات ہے۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے سعودی عرب کو کلسٹر بم فروخت کیے۔ اس نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کیے اس لیے وہ اس کا پابند نہیں ہے۔ اسی طرح سعودی عرب بھی کہہ سکتا ہے کہ اس نے بھی مذکورہ کنونشن پر دستخط نہیں کیے لہٰذا وہ بھی اس کا پابند نہیں ہے لیکن امریکہ ایک گنوار جرائم پیشہ ریاست ہے جس کا دھندا ہی لوٹ مار، کشت و خون، نسل کشی، جارحیت، جعل سازی اور بلیک میلنگ ہے۔
اسے کسی ریاست کے احتساب کا حق کیسے پہنچتا ہے؟ وہ جنگی جرائم کی دلدل میں گردن تک دھنسا ہوا ہے۔ ہیروشیما ناگا ساکی، کوریا، ویتنام، ایران، گرینیڈا، چلی، کیوبا، نکارا گوا، ایل سیلویڈو،عراق، افغانستان، پاکستان میں جاسوسی، دراندازی، سیاسی قتل ، اغوا، تخریب کاری، دہشت گردی اور بمباری کیا نہیں کیا؟
سعودی عرب کو اس کے جھانسے میں ہرگز نہیں آنا چاہیے اس کے برعکس اپنے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے عرب لیگ اور اسلامی ممالک کی کانفرنس برائے تعاون OIC کو متحرک کر کے اجتماعی اقدام کرے۔ سعودی عرب شریعت پر سختی سے عمل پیرا ہے لہٰذا وہ اسلام کے قانون جنگ کے مطابق عمل کرے کیونکہ ان قوانین میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں غرضیکہ غیر متحاربین کے جان ومال، عزت وآبرو کو جو تحفظ حاصل ہے وہ موجودہ قانون جنگ میں نہیں ہے حتیٰ کہ ہنوز مہلک ترین اور سب سے زیادہ تباہی پھیلانے والے ہتھیار بم کو منسوخ نہیں قرار دیا گیا۔ جبکہ اس سے کہیں کم تباہی پھیلانے والے اسلحہ کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
اس سے بڑی منافقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ جاپان پر ایٹم بم گرانے والا مجرم اپنے جرم کی معافی مانگنے کو بھی تیار نہیں ہے اور دوسرے ممالک کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے۔ اگر امریکہ کے ایما پر اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل سعودی عرب کا نام اس سیاہ فہرست سے خارج نہیں کرتا اور جو اس نے یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے کردار پر الزام عائد کیا ہے تو خلیجی تعاون کونسل ،عرب لیگ اور اسلامی تنظیم برائے تعاون کو افغانستان، عراق اور یمن میں کیے گئے امریکی جرائم کو بھی سیاہ فہرست میں شامل کرنے پر زور دینا چاہیے۔
یہ اسلامی ممالک کی کمزوری ہے کہ اپنے تنازعات باہم طے کرنے کی بجائے امریکہ اور روس سے رجوع کرتے ہیں اور اس طرح انہیں مداخلت کی دعوت دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ ہر ایک کو بلیک میل کرتے ہیں۔ اب یمن ہی کا مسئلہ دیکھ لیجیے کہ پہلے یمن کی حکومت (عبداللہ صالح اور عبد ربہ) اور حوثی باغیوں دونوں پر فرد جرام عائد کر دی اور اب سعودی اتحاد کو سیاہ فہرست میں شامل کر لیا۔ اس طرح امریکہ دونوں پر اپنا تسلط قائم کر لے گا۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی امریکہ کے انسانیت سوز جرائم پر اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ نہیں کرتا اور اس کی بجائے خود احساس جرم کا شکار ہو کر فریاد کناں ہیں۔ کیا ہم ریاستوں میں سے کوئی کیوبا یا نکارا گوا کی سی جرأت کا مظاہرہ نہیں کر سکتی؟۔بشکریہ روزنامہ ’نئی بات‘