محمد شارب ضیاء رحمانی
الیکشن کے نتائج سے پہلے وثوق کے ساتھ کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن چند اشارے تصویر واضح کررہے ہیں، ان میں سے کئی کلیات تو مسلم ہیں۔
(1) تنہا اکثریت نہ بی جے پی کو مل رہی ہے اور نہ کانگریس کو، یعنی بی جے پی اپنے بوتے پر سرکار نہیں بنارہی ہے اور نہ کانگریس 200تک جائے گی، علاقائی پارٹیاں کنگ ہوں گی یا کنگ میکر، 21 پارٹیوں نے کوششیں شروع کردی ہیں
(2) بی جے پی سب سے بڑی پارٹی ہوگی، کانگریس دوسرے نمبر پر ہوگی، اسے سیٹوں کا ڈبل فائدہ ہوگا لیکن یہ فائدہ ناکافی ہوگا۔
(3) ہٹلرشاہی حکومت نہیں ہوگی، بیساکھی کی سرکار ہوگی جو جمہوریت کے لیے ضروری ہے۔
(4) تیسرا محاذ بغیر بی جے پی یابغیر کانگریس کے سرکار نہیں بناپائے گا، یعنی اکھلیش، مایاوتی کلین سوئپ کردیں یا پچاس پلس لے آئیں تو بھی ممتا، کے سی آر، چندرا بابو نائیڈو، نوین پٹنائک، جگن موہن ریڈی کے ساتھ ملنے کے باوجود 272+ نا ممکن ہے، ایسے میں کانگریس یا بی جے پی کے ساتھ جانا ہی ہوگا، یہ بھی ہوسکتاہے کہ یہ دونوں پارٹیاں باہرسے گٹھ بندھن کو حمایت کے لیے تیارہوں، ڈیل کس سے بہتر ہوگی، یہ دیکھنے والی بات ہوگی
(5) تیسرے محاذ کے لیے بی جے پی سے زیادہ کانگریس کے ساتھ جانا فائدہ مند ہے، اس سے ممتا، کے سی آر، مایاوتی اور اکھلیش کامسلم ووٹ بینک باقی رہے گا، بی جے پی جس جس علاقائی پارٹی کے ساتھ گئی، اس کو نگل گئی اور خود مضبوط ہوگئی، جدیو، پی ڈی پی اور شیوسینا کی مثالیں موجود ہیں۔
(6) راہل گاندھی اور مودی دونوں کے وزیراعظم بننے کی راہ مشکل ہوئی ہے، ایسے میں یوپی اے کسی منموہن سنگھ کو ڈھونڈھ کر لاسکتا ہے، پرنب مکھرجی کی دعویداری سامنے آسکتی ہے، اس پر سنگھ کو اعتراض نہیں ہوگا لیکن شاید راہل گاندھی انہیں قبول کریں بصورت دیگر بی جے پی تھرڈ فرنٹ کو حمایت دے سکتی ہے
(7) سیاسی فضا 2004 اور 2014 سے بالکل مختلف ہے، اسی طرح سال بھر پہلے کی ہواسے اب کی فضا الگ ہے جب کہا جارہا تھا کہ 2024 کی فکر کرنی چاہیے، 2019 تو مودی کے لیے طے ہے، الیکشن کے دوران ایسا نہیں لگا، بلکہ ہرمرحلے کے ساتھ منظرنامے میں تبدیلی ہوتی رہی۔
اس بار نہ لہر ہے، نہ سونامی، ہاں ووٹروں کی پراسرار خاموشی میں بڑا سیاسی طوفان چھپا ہے، اسی لیے عام طور پر تجزیہ نگار کچھ بتانے سے گریزکررہے ہیں۔