عابد انور
لوک سبھا انتخابات ختم ہوگئے اور تھکا دینے والے ساتوں مرحلے میں سبھی امیدوار نے جی جان لگادی اور بعض امیدوار اور انتخابی مہم چلانے والے اس انتخابی مہم اس قدر گرے کہ لفظ گرنے کو بھی شرم آرہی ہوگی۔ ہندوستان کے پارلیمانی انتخابات کی تاریخ میں اس قدر طوفان کی بدتمیزی، کیچڑ اچھالنا، گالی گلوج کرنا، ذاتی اور سطحی حملے، کردارکشی، پیسہ اور افرادی قوت کا بیجا استعمال، الیکشن کمیشن کا حکمراں پارٹی کے لئے ’اردلی‘ کی طرح کام کرنا، سرکاری مشنری کا حکمراں پارٹی کے حق میں کھلم کھلا استعمال اور جس قدر بے شرمی، بے غیرتی، بے حیائی اور ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کیا گیا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پہلے امیدوار چوری چھپے بہت کچھ کرلیا کرتے تھے لیکن اس انتخاب میں سب کچھ کھلم کھلا کیا گیا۔نہ کسی قانون کا ڈر، نہ آئین کا احترام، نہ الیکشن کمیشن کی پرواہ، نہ عدالت کا کوئی خوف۔ حکمراں پارٹی نے اس قدر آئینی اداروں کو جوتے کی نوک پر رکھا کہ کسی ادارے کی کوئی وقعت ہی نہیں رہ گئی۔ خود پردھان سیوک نے آئین کی دھجیاں اڑائیں، مثالی ضابطہ اخلاق کو بری طرح روندا، دنیا کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے اپنے ہی ملک کے قانون کو پامال کیا ہے، کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ الیکشن کمیشن جس قدر گر سکتا تھا گرا اور حکمراں پارٹی کے لئے کام کرسکتا تھا وہ کیا۔ گزشتہ پانچ سال کے دور اقتدار میں بی جے پی اور مودی نے کسی ادارے کو وقار کے ساتھ زندہ نہیں رکھا۔سارے ادارے بے وقعت ہوکر رہ گئے، تمام اداروں پر عوام کا اعتماد ختم ہوگیا اور تمام آئینی ادارے حکمراں پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے اشارے پر رٖقص کرنے لگے۔ عدالت سے لیکر میڈیا تک اور مقننہ سے لیکر انتظامیہ تک کوئی ادارہ ایسا نہیں تھا جس نے مودی کے حق میں کام نہ کیا ہو اور ا س حکومت کی بدعنوانی، بدانتظامی، ناکامی، خرافاتی عمل، فسادی ذہن اور سماج کو تقسیم کرنے والے نظریہ کے لئے ڈھال نہ بنا ہو۔ کسی بھی ملک میں جمہوریت کو تباہ کرنا ہوتا ہے تو تمام آئینی اداروں کو بے وقعت کردیا جاتا ہے جس سے اس پر عوام کا اعتماد ختم ہوجائے۔ یہی سب کچھ ہندوستان میں ہوا ہے۔ آج کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جس پر اعتماد کیا جائے۔ نچلی عدالت سے لیکر عدالت عظمی تک کی حیثیت دو کوڑی کی بنادی گئی ہے۔ ایسا ماحول پیدا کردیا گیا کہ وہاں ایمانداری سے کام نہیں ہورہا ہے۔ کوئی ایسا فیصلہ سامنے نہیں آیا جس میں حکومت کی سخت تنقید کی گئی ہو یا حکومت کے خلاف فیصلہ کیا گیا ہو۔ جب کہ سپریم کورٹ میں رافیل پر جھوٹ بولنے کے معاملے میں حکومت سے جواب طلب کیا جانا چاہئے تھا۔ سی اے جی اور پبلک اکاؤنٹ کمیٹی (پی اے سی) کی جانچ کے بغیر کہہ دیا گیا تھا کہ اس نے بھی کلن چٹ دے دی ہے اور بعد میں اسے ٹائپنگ کی غلطی کہا گیا۔ اس معاملے پر عدالت کا عظمی کا رویہ سخت ہونا چاہئے تھا لیکن نہیں ہوا۔ پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا گیا لیکن پارلیمنٹ کی توہین نہیں ہوئی۔ اس طرح مودی حکومت نے تمام جمہوری ادارے کو نہ صرف بے وقعت کیا بلکہ تباہ بھی کردیا۔ اب ملک میں صرف تکثیری اور لاٹھی کی جمہوریت بچی ہے اور وہی ہوگا جو اکثریتی طبقہ چاہے گا۔ اسی پس منظر میں اس وقت الیکشن ہورہا ہے جو منصفانہ نہیں ہوسکتا اور اب نتائج کا انتظار ہے۔ بی جے پی نے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے سام، دام، ڈنڈ، بھید سب کا استعمال کیا۔ خزانہ کا دہانہ کھول دیا۔ بی جے پی نے نارتھ ایسٹ میں پہلے بھی اور اس الیکشن میں بھی پیسے کے بل پر الیکشن جیتنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ اس الیکشن کے نتائج کے بارے میں منطقی طور پر کچھ کہنا تو درست ہوسکتا ہے لیکن دیومالائی طور پر نہیں کیوں کہ یہاں کا پورا سماج دیومالائی رنگ میں رنگا ہوا ہے اور اس کے سامنے کامیابی یا ناکامی، ترقی، تعلیم، معاشرہ، معیشت وغیرہ کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ اس کی پسند منفی رجحان پر مبنی ہے۔ مودی حکومت کی حمایت کا ایک ہی نظریہ کام کر رہا ہے اور وہ یہ نظریہ ہے کہ’ مودی کوئی کام نہیں کرتا ہے لیکن میاں کو تو مارتا ہے‘۔ اس کے نظریے کے باوجود مودی کی جیت کی راہ آسان نہیں ہے۔ منطقی نظریہ کی مانیں تو مودی کی ذلت آمیز شکست طے ہے اور یہ مودی کے باڈی لنگویز، ہاؤ بھاؤ، زبان و گفتار، طریقہ کار، چہرے پر مایوسی، سطحی سیاست پر اترآنا، بدتمیزی کے تمام ہتھکنڈے اپنانا وغیرہ ظاہر کرتا ہے کہ مودی کی حکومت دوبارہ نہیں آنے والی ہے لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ان کے ساتھ ای وی ایم، انتخابی عملہ، عدلیہ اور انتظامیہ بھی ہے۔
منطقی طور پر تجزیہ کریں تو بی جے پی جو اونچائی 2014میں چھو چکی ہے وہ اس سے زیادہ اونچائی نہیں چھو سکتی۔ دہلی کا راستہ بہار اور اترپردیش سے گزرتا ہے جہاں بی جے پی پہلے ہی سب سے اونچائی پر ہے اور اس سے زیادہ سیٹیں وہاں اسے نہیں مل سکتی۔ اترپردیش میں 80 سیٹوں میں سے بی جے پی نے 72 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی جو اب اسے نہیں مل سکتی اور سب سے زیادہ خسارہ اسے اترپردیش میں ہی ہونے والا ہے۔ یہ بات بی جے پی بھی تسلیم کرتی ہے ا س لئے اس نے اس کی تلافی کے لئے مغربی بنگال اور اڑیسہ کا رخ کیا ہے اور مغربی بنگال میں طوفان کی بدتمیزی کرنے کی وجہ بھی یہی ہے اور یہاں جس طرح قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، انتخابی ضابطہ اخلاق کو پارٹی کے قومی صدر امت شاہ نے جس طرح پامال کیا، انتخاب میں جس طرح مذہب کا استعمال کیا اور الیکشن کمیشن انہیں سزا دینے کے بجائے اس کی حمایت کرتا رہا۔ بی جے پی نے مغربی بنگال میں تمام حربے اس لئے اپنائے کہ وہ یہاں زیادہ سے زیادہ سیٹیں لیکر آسکے تاکہ اترپردیش کی کچھ تلافی ہوسکے۔ اسی کے ساتھ بی جے پی کو اڑیسہ میں بھی کچھ بہتر کرنے کی امید ہے۔ بہار میں 40 سیٹوں میں بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹی کے پاس کے 30 سے زائد سیٹیں ہیں۔ مہاراشٹر میں 48 سیٹوں میں سے بی جے پی اور اتحادی کے پاس 41 سیٹیں ہیں۔اسی طرح مدھیہ پردیش کے 29سیٹوں میں سے بی جے پی کے پاس 27سیٹیں ہیں اور چھتیس گڑھ کی 11 سیٹوں میں بی جے پی دس پر قابض ہے۔ جھارکھنڈ کی 14 میں سے 12 بی جے پی کے پاس ہے۔ ہریانہ کی دس نشستوں میں سے سات بی جے پی کے کھاتے میں ہے۔ تمل ناڈو میں اس کی اتحادی پارٹی اے آئی ڈی ایم ایک کے پاس 39 میں سے 37 نشستیں ہیں، کرناٹک میں 28میں سے بی جے پی کے پاس 17 نشستیں ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی کی ساتوں سیٹوں پر بی جے پی قابض ہے۔ راجستھان کی 25 میں سے 25 پر بی جے پی قابض ہے۔(2014کے حساب سے) گجرات میں 26 سیٹوں میں سے 26 بی جے پی کے پاس ہے۔ یہ ساری ریاستیں جو دہلی حکومت کی تشکیل میں نمایاں رول ادا کرتی ہیں۔ اسی کے ساتھ آندھرا پردیش، تلنگانہ، کیرالہ اور تمل ناڈو میں بی جے پی کی کامیابی کا امکان کم ہے اور ان علاقوں میں سے بہ مشکل دو چار سیٹیں جیت سکتی ہے۔ مغربی بنگال میں سے بی جے پی کے صرف دو سیٹیں ہیں۔ اس لئے اڑیسہ کی 21 سیٹوں پراور مغربی بنگال پر بی جے پی کی نظر ہے۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار کی روشنی میں یہ کہیں سے نہیں لگتا کہ بی جے پی کو ان ریاستوں میں زیادہ سیٹیں ملنے والی ہیں۔شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی کچھ اچھا کرسکتی ہے کیوں کہ وہاں بی جے پی کی حکومت ہے اور بی جے پی وہاں کچھ بھی کرسکتی ہے کیوں کہ وہاں روکنے اور ٹوکنے والا وہاں کوئی نہیں ہے۔
ایسی صورت حال میں کس کے زیادہ امکانات ہیں۔ جیسا کہ سروے اور زمینی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ پلڑا قومی ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے۔ کیوں کہ اس کی کارکردگی بہتر نظر آرہی ہے اور وہ راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، مہاراشٹر، کرناٹک، آندھرا پردیش، بہار، پنجاب، ہریانہ اور تمل ناڈو وغیرہ ریاستوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اترپردیش میں اکھلیش یادو کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔ مایاوتی کا معاملہ بیچ کا ہے وہ کانگریس کے ساتھ بھی جاسکتی ہے اور بی جے پی کے ساتھ بھی۔اگر این ڈی اے کو کچھ سیٹوں کی ضرورت ہوگی تو مایاوتی اس کی حمایت کرسکتی ہے۔ممتا اور بی جے ڈی کا سوال ہے وہ مودی کی حمایت کریں اس کا امکان کم ہی ہے۔ کیوں کہ یہ علاقائی پارٹیاں ہیں اور علاقائی پارٹی کے تئیں مودی کا رویہ کیا رہا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ وہ لوگ صرف مجبوری اور بلیک میل کی صورت میں ہی این ڈی اے کی حمایت کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ علاقائی پارٹیوں اور اس کے لیڈروں کے خلاف انکم ٹیکس کی کارروائی، ای ڈی کی کارروائی وغیرہ بھی ان پارٹی رہنماؤں کے ذہن میں ہوگا۔ ایسی صورت حال میں این ڈی اے اور مودی کی حالت اچھوت کی ہوجائے گی۔ خاص طور پر مودی حکومت کے دوران این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کی جو اوقات رہی ہے وہ ان پارٹیوں کے رہنماؤں کو کچوکے لگائے گا اور این ڈی اے کی کمزوری کی صورت میں این ڈی اے میں شامل لوگ یو پی اے کا دامن تھام سکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں منطقٖی طور پر یو پی اے کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے اور امید ہے کہ یو پی اے کی ہی حکومت بنے گی اور ممکن ہے کہ اس حکومت کی قیادت راہل گاندھی کی بجائے ڈاکٹر منموہن سنگھ ایک بار پھر کریں۔ جیسا کہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے 17 مئی کو منعقدہ پریس کانفرنس میں اشارہ کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یو پی اے کی بننے والی حکومت میں ڈاکٹر منموہن سنگھ اور محترمہ سونیا گاندھی کا اہم مقام ہوگا۔ 18 مئی کو چندرا بابو نائیڈو کی راہل گاندھی، اکھلیش یادو اور مایاوتی سے ملاقات اسی جانب اشارہ کرتا ہے کہ یوپی اے اس بار کوئی موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا اور بی جے پی کے لئے کوئی جگہ نہیں چھوڑنا چاہتا جس کا فائدہ وہ اٹھالے۔
مرکز میں کس کی حکومت بنتی ہے اس کا بہت حد تک اندازہ 19 مئی کو ہوگیا ہے جب ایگزٹ پول آیا۔ایگزٹ پول دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بی جے پی کے دفتر میں بیٹھ کر بنایا گیا ہے۔ اس کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ووٹوں کی گنتی میں بی جے پی کی جم کر دھاندلی کا راستہ آسان بنایا جاسکے کیوں کہ الیکشن کمیشن پہلے ہی بی جے پی کا غلام بن چکا ہے۔ بی جے پی یہ کہہ سکے ایگزٹ پول میں ایسا آچکا ہے اس لئے دھاندلی کا الزام لگانا بے معنی ہے۔ حالانکہ ایگزٹ ہمیشہ سچ ثابت نہیں ہوتے لیکن بہت حد تک معاملہ صاف ہوجاتا ہے۔ 23 مئی کو نتائج آئیں گے اور حکومت کے بننے کا کھیل شروع ہوجائے گا لیکن جو برسراقتدار آئے گا اس کے لئے حکومت چلانا آسان نہیں ہوگا۔ کیوں کہ سارا سسٹم تباہ ہوچکا ہے۔ حکومت کا بدلنا جمہوریت کی علامت ہے لیکن کوئی بھی حکومت سسٹم سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتی کیوں کہ سسٹم کے بننے میں کئی دہائیاں لگتی ہیں۔ مودی حکومت نے سسٹم سے نہ صرف چھیڑ چھاڑ کیا ہے بلکہ اس کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے اور سسٹم ایک دن میں ٹھیک نہیں ہوتا ہے اس لئے نئی حکومت کے لئے یہ کانٹوں بھرا تاج ثابت ہوسکتا ہے جس میں امیدیں کافی وابستہ ہوں گی اور نتائج کم سامنے آئیں گے۔ ایسی صورت میں حکومت چلانا ایک چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔
رابطہ: 9810372335
abidanwaruni@gmail.com