ایک سحرنو تازہ کریں

قاسم سید

کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ سیکولرزم لڑکھڑا رہاہے اس پر ایمان لانے والی پارٹیاں اندر سے کھوکھلی ہوگئی ہیں۔ دوسری طرف 1925 میں قائم آرایس ایس کو زبردست قربانیوں ،جانفشانی، جدوجہد اوراستقلال کے ساتھ ہدف کی سمت میں سفر جاری رکھنے کی ہمت نے اسے فیصلہ سازی کے مقام تک پہنچادیا اس کے کارکنان نےانتھک محنت کی،پوری زندگی نچھاور کردی،مربوط اندازمیں کام کیا، ضلع اور بلاک کی سطح تک لوگوںسے رابطہ کیا،ہزاروں ذیلی تنظیمیں ،این جی اوز بناکر عوامی ضرورتوں سے براہ راست منسلک رہے، عام انسان سے لے کر آئی اے ایس تیار کرنے تک ہر میدان میں کام کیا۔ ذہن سازی کاکوئی مرحلہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا اورکئی نسلیں تیار کردیں ۔ آر ایس ایس اپنے نظریہ اور ہدف میں غلط ہوسکتا ہے وہ تباہ کن اورملک کےلئے خودکش کہاجاسکتا ہے مگر محنت وجدوجہد کی طویل تاریخ نے اسے حوصلہ دیاکہ وہ اب ہندوراشٹر قائم کرنے کی بات کو زیادہ اعتماد کے ساتھ کہہ سکے۔ اس نے اپنامقصد اورہدف جو طے کیا اس پر دیانتداری سے کام کرتا رہا ۔بلاشبہ آرایس ایس اپنی مقبولیت اور دائرہ اثر کو وسیع کرنے کےلئے چولابدلتا رہا ہے اس نے سیاسی عزائم کی تکمیل کےلئے جن سنگھ اور پھر بی جے پی کی تشکیل کی جو سیکولر منافقوں کی بدولت دو سے 282تک پہنچ گئی۔ سیکولر پارٹیوں نے کانگریس کے خلاف محاذ بنانے کی جب ضرورت پڑی توبی جے پی کا ساتھ لیا۔ جے پرکاش نرائن تحریک سے لے کروشوناتھ پرتاپ سنگھ کی تحریک تک بی جے پی کو کندھوں پر بٹھایا حتی کہ کمیونسٹوں نے بھی گریزنہیں کیا۔ دنیا نے یہ تماشہ بھی دیکھا کہ وی پی سنگھ سرکار کو دونوں کی حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے مل کر چنائو لڑانے سے بھی گریزنہیںکیا۔

کیایہ سوال بھی قابل غور نہیں کہ ملک میں کم وبیش 60برسوں تک سیکولر پارٹیوں کی حکومت ہونے کے باوجود فرقہ پرست طاقتیں مضبوط کیوں ہوتی گئیں وہ سسٹم پر کیسے حاوی ہوگئیں ۔انہوں نے انتظامیہ کوہائی جیک کیسے کرلیا ۔ جب ملک کی اکثریت سیکولر ذہن رکھتی ہے کم وبیش ہرسیکولر پارٹی مرکز اورریاستوں میںاقتدار میں شریک رہی اور بی جے پی کا قبیلہ اچھوت بن کررہ گیا پھر بھی اس کی طاقت کیسے بڑھتی گئی۔ اس کے اثر ونفوذ میں اضافہ کس طرح ہوتا گیا کہ وہ آج نہ صرف مرکز پر پورے طمطراق کے ساتھ قابض ہے بلکہ ملک کی دوتہائی ریاستیں اس کے زیر نگیں ہیں ۔کیوں سیکولر طاقتیں پسپا ہوگئیں اور زعفرانی مزاج کی حامل قومیں فاتحانہ انداز میں آگے بڑھتی گئیں۔ ان کا سفر ڈھلان کی طرف اورزعفرانی قبیلہ کا ایورسٹ کی طرف چلتا رہاکیوں سیکولرزم کو زوال اورکمیونلزم کو عروج حاصل ہورہا ہے ۔یہ سوال خود سے پوچھیے کہ اقلیتیں خصوصاً مسلمان سیاسی یتیم بنادیا گیا۔ وہ بے وزن بے حیثیت ہوگیا۔ اس کا دم گھٹ گیا۔ ایک وقت تھا جب وہ بادشاہ گرتھا ۔کنگ میکر کے نشہ سے سرشار تھا اس پر اٹھلاتاتھا۔ نخرے دکھاتا ،روٹھتا تو ہر سیکولر پارٹی کی جان نکل جاتی۔ اسے ہزارطریقے سے منانے کی کوشش کی جاتی ۔ ترغیبات کا ڈھیر لگادیاجاتا۔ فرقہ پرست آجائیںگے تمہیں کھاجائیں گے ، کاخوف بھی دلایا جاتا ۔ اس کو اپنے پالے میں لانے کےلئے سیکولر پارٹیوں کے درمیان جنگ ہوتی اور پھر وہ جس سے ناراض ہوجاتا توبے رخی کاشکوہ بھی کیاجاتا مگر ایساکیا ہوگیاکہ اب یہی سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کانام لینے سے بھی ڈرتی ہیں۔ مسلم ایشوپربولتے ہوئے ان کادم پھولتا ہے ۔ زبان لڑکھڑا جاتی ہے ۔ اس کے حقوق کی آواز بلند کرنے میں ڈرلگتا ہے۔کانگریس کے ارباب حل وعقد کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی طرف زیادہ جھکائو کی وجہ سے ہندوووٹ ناراض ہوگیا۔ لوک سبھا الیکشن میں وہ اترپردیش سے ایک بھی نمائندہ جتاکرنہ بھیج سکا جہاں دعویٰ کیا جاتا ہے وہ اسمبلی کی سوسیٹوں پر فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے ۔ ملک کی آدھی ریاستوں سے لوک سبھا میں اس کی نمائندگی صفر کیوں ہوگئی ۔ آخر ایسا کیاہوگیا کہ سب کا دلارا ،آنکھوں کاتارا،چہیتا اب رقیب سالگنے لگا ۔ اس کا ساتھ پانے کےلئے بے قرار رہنے اور دھینگاشنی کرنے والے بیزار کیوں ہوگئے۔ اس کے ساتھ کے تصور سے گھبرانے لگے۔

یہ سوالات نئے نہیں ہیں، ذہن میں سپنولوں کی طرح سراٹھاتے ہیں کچو کے لگاتے ہیں اور ان کا جواب مشکل بھی نہیں ہے دیوار پرلکھا ہوا ہے پڑھاجاسکتا ہے بشرطیکہ سنجیدگی کے ساتھ اسے پڑھنے کی کوشش کریں یاہمیشہ کی طرح ان سے آنکھیں چرالیں مگر اب وقت ریت کی طرح مٹھی سے نکلتا جارہاہے۔شترمرغ کی سی خود فریبی مزید متحمل نہیں ہوسکتی۔

اگرتجزیہ کیاجائے تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے آر ایس ایس اور اس کا قبیلہ اپنے ہدف میں نیک نیت رہاجبکہ سیکولر فورسز کے رویہ اور عمل میں منافقت ،دھوکہ باز ی اور جعلسازی کا اظہار ہے ہدف صحیح ہے یا غلط یہ یہ سوال زیر بحث نہیں ہے مگر اس سے سبق تو لیا جاسکتا ہے ۔آج اگر آر ایس ایس بحث کا مرکز ہے اس کے سرسنچا لک کےایک ایک بیان پر نظر رکھی جاتی ہے ،حکومت میں اندر تک دخیل ہے ۔وزیر وں کی تقرری اور افسروں کی تعیناتی میں اس کی رائے کو اہمیت دی جارہی ہے ،قومی پالیسیاں طے کرنے میں کلیدی رول ادا کررہاہے ، انتخابی حکمت عملی میں اس پر ہی دارومدار ہے تو یہ ان لوگوں کے لئے یقینا تشویشناک ہے جو سیکولرزم کی کمزور ہوتی صحت کےلئے فکر مند ہیں اس کو تندرست وتوانا دیکھنا چاہتے ہیں ۔

 دوسری طرف یہ سوال تو کرناہی پڑے گا کہ آخر سیکولر حکومتوں کے دور میں آر ایس ایس نے اتنی طاقت کیسے حاصل کرلی۔ اس کی جڑیں گہری کیسے ہوتی گئیں۔ اس کاد ائرہ کیسے وسیع ہوتا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں اس کے تئیں ہمدرد رکھتی ہیں۔ ان کی لڑائی نمائشی اورفرضی تھی، صرف دکھاوا تھا اور اندرون میں ساز باز تھی ۔ ا قلیتوں پر قابو رکھنے کےلئے ان کا استعمال کیاگیا۔ ان کے دور میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ چلتا رہا پھر دہشت گردی کے خلاف مہم میں مسلمانوں کو چارے کے طورپر استعمال کرنے کی طرح بھی سیکولر حکومتوں نے ڈالی۔ دونوں باطنی سطح پر ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرتے رہے ۔ سیکولر پارٹیاں کبھی آزمائش اور امتحان میں کھری نہیں اتریں جب نیت میں کھوٹ ہو ،ارادوں میں فتور ہو، پالیسیوں میں منافقت ہو،عمل میں دکھاوا ہوتو گاڑی زیادہ دنوں تک نہیں چلتی حالانکہ آج ہندوستان کا سواداعظم سیکولر ذہن رکھتا ہے ،ادھر سیکولر پارٹیوں نے اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت ہمیشہ فرقہ پرستوں کو ساتھ لیا اس جرم میں ہرپارٹی ملوث ہے سیکولر زم کے ڈھونگیوں نے اپنی دانستہ حرکتوں سے ملک کو ان قوتوں کو طشتری میں رکھ کرپیش کردیا جن کے خلاف لڑائی کا دکھاوا کرتے رہے ،صرف نام الگ ہیں ان کی سرشت ایک ہے۔اسی لئے ان کی حالت پر رحم نہیں غصہ آتا ہے۔ انہیں اپنے کرموں کا پھل بھوگنا ہوگا جو بویا ہے کاٹیں گے۔ نظریاتی جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے سے قبل راہ فرار اختیار کرنے والوں کو ملک معاف نہیں کرے گا۔

شایداب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اس سحرسامری سے آزاد ہوں ۔اپنے دوست اور دشمن خود طے کریں ،اپنی پالیسیاں خود وضع کریں،سیاسی فیصلے خود لیں ،سیکولر پارٹیوں کی ذہنی غلامی سے آزاد ہوں،مسلم جماعتوں کو مثبت اندازمیں فیصلے لینے کی عادت ڈالنی پڑے گی۔ بی جے پی کو ہراتے ہراتے کہاں لے گئے اس کا جائزہ لیاجائے۔انہیں اپنی ناکام حکمت عملی کااعتراف کرنا چاہئے،کسی کو ہرانے کےلئے نہیں بلکہ جتانے کےلئے کام کرناچاہئے خواہ اس کےلئے راستہ الگ کرنا کیوںنہ پڑے ۔ اگر مسلمانوں نے اپنی قیادت پراعتماد نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ رہی کہ مسلم قیادت کے بھی سیاسی لات ومنات تھے جن کا طواف اور سجدہ ریزی ان کے خون میں شامل تھی ۔ اس کے اپنے امام تھے۔جو اتحاد کانعرہ دیتی رہی مگر اس کی صفوں کا انتشار دور نہ ہوسکا جو ہوچکا اس پررونے کی بجائے آگے دیکھا جائے۔ حالات متقاضی ہیں کہ سیاسی وتہذیبی وجود برقرار رکھنے کے لئے نیاراستہ نکالاجائے وہ راستہ کیا ہواس پر مل بیٹھ کر غورکرنے کی ضرورت ہے۔(ملت ٹائمز)

(مضمرن نگار سینئرصحافی اور روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں)

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE