پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
برصغیر کے دوملک ان دنوں تاریخ کے اہم اور نازک مرحلے سے گزررہے ہیں،ایک سپر پاور امریکہ سے اپنی قربتیں بڑھانے کی تگ ود میں مصروف ہے اور اسے اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھ رہاہے تو دوسرا ملک امریکی دوستی میں گزرے ہوئے ایام کو زندگی کا سب سے بڑا غلط فیصلہ اور دھوکہ مانتے ہوئے کف افسوس مل رہاہے ساتھ ہی دوسروں کو اپنے ساتھ پیش آئے واقعات سے عبرت لینے اور امریکی دوستی سے گریز کرنے کا مخلصانہ مشورہ بھی دے رہاہے ۔
بر صغیر کے یہ دوملک ہندوستان اور پاکستان ہیں کوئی اور نہیں ،زیادہ دن نہیں گزرے ہیں جب پاکستان امریکہ کا نور نظر تھا ،امریکہ کو پاکستان کے سربراہ اور محافظ ونگراں کی حیثیت حاصل تھی،ان دونوں ملکوں کی یہ دوستی بے مثال اور عظیم مانی جاتی تھی،امریکہ نے بہترین دوستی کا حق اداکرتے ہوئے کڑوروں ڈالر پانی کی طرح پاکستان پر بہائے ،امداد کے نام پر دل کھول کر پاکستان کی مدد کی ،پاکستان نے بھی امریکہ کی خاطر تواضع میں کوئی کمی نہیں کی ،اپنی سرحدیں ہمیشہ کھلی رکھی ،امریکہ کے صدر سے لیکر ادنی چپراسی تک کا پرزواستقبا ل کیا ،امریکہ کی مرضی کے بغیر کبھی کوئی کام نہیں کیا ،اپنے شہریوں کی جانیں امریکہ کے ہاتھوں گروی رکھدیں ،امریکہ کو اختیار دے دیا کہ وہ جو چاہے یہاں کرسکتاہے ،جس ملک کو چاہے تباہ وبرباد کرسکتاہے چناں چہ امریکہ نے پاکستان کی زمین استعمال کرکے افغانستان میں بارہ لاکھ سے زیادہ شہریوں کا قتل عام کیا ،ایک منتخب اور اسلامی حکومت کا خاتمہ کیا ،خود پاکستان میں ڈرون حملوں کے نام پر ساٹھ ہزار سے زیادہ بے گناہوں کا قتل کیا ،ابیٹ آباد آپریشن کے نام پر دنیا بھر میں پاکستان کا دہشت گردانہ چہر ہ بھی باورکرایاکہ یہ اسامہ بن دلان اور اس جیسے خطرناک دہشت گردوں اور امریکی مجرموں کا پناہ گزین ہے،سیکولرزم اور جمہوریت کے نام پر پاکستان کو اسکے اصل مقصد سے بھی ہٹادیا ،عریانیت اور فحاشی کو وہاں کی خمیر کا حصہ بنادیا ،اقتدار اور سیاست کو کھوکھلا کردیا،دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر اس کی جڑوں کو مزید تروتازہ کیا اور اب پاکستان کو خداحافظ کہ کر دوستی کا ہاتھ ہندوستان کی طرف بڑھادیا ہے۔
ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات مسلسل بڑھ رہے ہیں،اپنے دور صدارت میں باراک اوبامہ دومرتبہ ہندوستان آکر بہت پہلے یہ واضح کرچکے ہیں کہ ہندوستان ان کا پسندیدہ ملک ہے ،ہندوستان سے اپنی دوستی نبھانے کیلئے اوبامہ اپنے دونوں دوروں کے دوران سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کیلئے ہندوستان کے حق میں سفارش کا وعدہ بھی کرچکے ہیں گزشتہ دوسالوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کاچا رمرتبہ امریکہ سفر کرنا، سات مرتبہ اوبامہ سے ملاقات کرنا اور پھر امریکی کانگریس میں خطاب کرنے جیسے اعزاز سے سرفراز کیا جانا واضح طور پر یہ درشاتاہے کہ کہ ایشا ء میں امریکہ اور ہندوستان بہتر دوست بن رہے ہیں، ان کے درمیان تعلقات بہت مستحکم ہورہے ہیں،چین کے بڑھتے اثرات کو روکنے اور اس سے مقابلہ کرنے کیلئے بھی ہندوستان سے بہتر تعلقات امریکہ کی ضرورت ہے اور ہندوستان بھی اسی میں اپنی عافیت سمجھتاہے کیوں کہ خطے میں چین کا اثر و رسوخ امریکہ کیلئے نا قابل برداشت ہے اوریہ ہندوستان کے بغیر یہ ناممکن ہے ۔
امریکہ سے دوستی فائد ے پر مبنی ہوتی ہے یانقصان کا سودا؟اس کا اندازہ دوستی کرنے والے ہی لگاسکتے ہیں جیساکہ پاکستان اپنے بہترین اور قابل فخر دوست کے بارے میںآج یہ کہ رہاہے کہ امریکہ مفاد پرست ہے ،یہ کبھی کسی کے کام نہیں آسکتاہے ،ایک پاکستانی صحافی کے بقول’ امریکہ سے دوستی کی قیمت ساٹھ ہزار کے لگ بھگ پاکستانیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے چکائی ، بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے خوف نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا ڈالا، مگر ابھی تک امریکہ پاکستان سے اپنی دوستی کا خراج وصول کرنے سے باز نہیں آرہا،ایک اوراخبار رقم طراز ہے ’ پہلے ڈکٹیٹر پرویز مشرف، پھر زرداری اینڈ کمپنی اوراب میاں نواز شریف، ان سب کو بھی امریکہ کی دوستی پر بہت ناز تھا۔۔۔ لیکن وقت اور حالات نے ثابت کر دیا کہ امریکہ پاکستان کادوست نہیں تھا، اس نے ڈالر پھینکے اور ہمارے حکمرانوں سے کام لیا‘شاید اسی لئے قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ یہودونصاری سے دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
امریکہ کے ساتھ دوستی میں جس طرح کا نشیب وفراز بر صغیر کے ان دوملکوں کے درمیان چل رہاہے اسی طرح کا معاملہ مشرق وسطی کے دو ملکوں کے درمیان بھی جاری ہے ،یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان اور ہندوستان ازلی طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور یہ مخالفت دونوں ملکوں کی سیاست کا اہم حصہ ہے کچھ ایسے ہی اختلافات مشرق وسطی میں سعودی عر ب اور ایران کے درمیان پائے جاتے ہیں ۔
عرصہ دراز سے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان دوستی قائم تھی ،اس دوران تیل کے مد میں سعودی عرب نے امریکی دوستی پر بہت کچھ قربان کیا ہے،بلکہ یوں کہ لیجئے کہ تیل کا پورا ختیار امریکہ کو حاصل تھااسی کی مکمل ملکیت تھی ،کہاجاتاہے کہ اس احسان کے بدلے امریکہ سعودی عرب کو بیرونی حملوں سے تحفظ فراہم کرتارہاہے ۔دوسری طرف ایران اور امریکہ کی مخالفت کا دنیا بھر میں چر چا تھا ،ہزاروں طر ح کی پابندیاں بھی امریکہ نے ایران پر عائد کررکھی تھی ،ایران میں امریکہ برمرگ کے نعرے لگائے جاتے تھے لیکن اب صورت حال برعکس ہوگئی ہے ،امریکہ دوستی کا ہاتھ سعودی عرب سے کھینچ کر ایران کی جانب بڑھا چکاہے ، ایران اور امریکہ خطے میں بہترین دوست و پارٹنرکی جگہ لے چکے ہیں اور امریکہ اب سعودی عرب کے بجائے ایران کے ساتھ تیل کی سودے بازی میں مصروف ہے ۔ان سب کے درمیان سعودی عرب کوکئی دہائیوں پر مشتمل دوستی کے تحفہ میں امریکی کانگریس نے ایک بل پاس کرکے نائن الیون کے حملوں کا ذمہ دار بھی ٹھہرادیا ہے ،جس کے مطابق11ستمبر 2001 میں امریکی حملے میں مرنے والوں کے لواحقین کو سعودی عرب کے خلاف مقدمہ اور تاوان کا مطالبہ کرنے کا حق ہوگا۔امریکی میڈیا اور کانگریس کی جانب سے یہ پیر پیگنڈہ بھی کیا جارہاہے کہ نائن الیون کے واقعات میں مبینہ طور پر سعودی عرب ملوث تھا ، ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کرنے کیلئے جہاز اغوا کرنے والے انیس میں سے پندرہ افراد کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔
دہائیوں تک دوست رہنے والے سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کا یہ برتاؤں اس حقیقت کی غمازی کررہاہے کہ تیل کی دولت لوٹنے کے بعد دوستی کا رشتہ برقرار رکھنا امریکہ کیلئے بے معنی ہوچکا تھااس لئے گہر ازخم لگاکر اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے ایک ایسے ملک سے دوستی شروع کی گئی جس کی مخالفت ان کی دوستی کے فروغ میں مزید معاون ثابت ہوگی ،اسی طرح پاکستان کو میدان جنگ میں تبدیل کرنے اور اس کی زمین کا استعمال کرکے افغانستان وعراق میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہانے کے بعداس پر اربو ڈالر خرچ کرنے اور وہاں امداد جاری رکھنے کی کوئی وجہ نہیں تھی اس لئے یہ سلسلہ منقطع کرتے ہوئے امریکہ نے دوستی کا ہاتھ اس کے پڑوسی اور دیرینہ حریف ہندوستان کی جانب سے بڑھایا ہے جہاں کے حالات بھی اب پاکستان سے جیسے ہورہے ہیں ،ہندوستان میں ہونے والے مسلسل فرقہ وارانہ فسادات،دہشت گردانہ واقعات ،اشتعال انگیز بیانات اور ہند ومسلم کے درمیان بڑھتی خلیج کو دیکھ کر ایسالگتاہے کہ ان سب کی قیادت کسی بیرونی طاقت کے ہاتھو ں میں ہے اورحکمراں جماعت بی جے پی کی سرپرستی میں ہندوبنام مسلم جنگ برپاکرکے ملک کے مستقبل سے کھلواڑ کرنے اور امن وسکون کو ختم کرنے کی کوششوں کے ساتھ ہندوستان کے بڑھتے قدم کور وکنے اور کسی مقصد کی خاطر استعمال کرنے کی مکمل منصوبہ بندی ہورہی ہے۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com