نقطۂ نظر : ڈاکٹر محمد منظور عالم
امن و امان انسان کی فطری ، بنیادی اور اولین ضرورت ہے ۔ امن کے بغیر سکون ، سلامتی اور شانتی محال ہے ۔ حصول امن کے بغیر کوئی بھی فرد ،معاشرہ اور ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے ۔ امن و امان کے سائے تلے ہی زندگی خوشگوار ہوتی ہے۔اسی کی بدولت نیند آتی ہے ،سکون واطمینان میسر ہوتا ہے، طعام و شراب کی لذت کا احساس ہوتا ہے۔ امن اور امان یہ دونوں چیزیں ہر ترقیاتی جدوجہد کے ستون ہیں اور ہر معاشرے کیلئے منزل مقصود ہیں۔ امن وسلامتی کا حصول ہر قوم ،مملکت اور مذہب کی آرزو اور تمنا ہوتی ہے ۔ہر عقل مند اس بات سے متفق ہے، اور کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ اسلامی معاشروں میں امن وامان کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس پر بہت توجہ دی گئی ہے۔قرآن مجید میں امن کی نعمت کو اللہ تعالی نے بطور احسان جتلایا ہے۔ سورہ عنکبوت میں ارشاد فرمایا۔
” کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم (مکہ) کو پرامن بنا دیا ہے جبکہ ان کے ارد گرد کے لوگ اچک لئے جاتے ہیں کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ۔ “ (العنکبوت: 67)
اس لئے امن و امان بہت بڑی نعمت ہے اور اسکا زوال بہت بڑی سزا ہے، امن ہی ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنی جان، مال، عزت، اور اہل خانہ کے بارے میں پُر اطمینان رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تعمیر و ترقی کیلئے امن بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اسی میں ذہنی سکون، اور حالات کی درستگی پنہاں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ (جو شخص صبح کے وقت جسمانی طور پر صحیح سلامت اٹھے، اسے اپنے گھر میں کسی کا خوف بھی نہ ہو، اور دو وقت کی روٹی اس کے پاس موجود ہو؛ اس کیلئے دنیا ایک ہی جگہ جمع ہوچکی ہے)۔
کسی دانشور نے کہا ہے کہ پرسکون زندگی امن میں ہے اور طاقتور فوج چاہئے تو عدل کرو۔ ایک اور مفکر کا قول ہے ۔امن ہونے پر انسان تنہائی میں بھی وحشت محسوس نہیں کرتا، جبکہ خوف کی وجہ سے انسان جلوت میں بھی مانوس نہیں ہوتا ۔
اسلام کے علاوہ دیگر سبھی مذاہب ، مذہبی علماء، دانشوران ، مفکرین اور اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی بھی معاشرہ ،ملک اور ریاست کی ترقی کیلئے بنیادی شرط اور ضرورت امن کا حصول ہے ۔ جب تک امن کا قیام عمل میں نہیں آتا ہے ۔ خلفشار ، انتشار ، ہنگامہ ،ڈر اور خوف کا ماحول رہتا ہے ۔ معاشرہ اور ملک ترقی کے بجائے تنزلی اور زوال کا شکار ہوجاتا ہے ۔ دشمن ایسے مواقع کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھاکر مزید کمزور کرنے ، قابو پانے اور نگلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب بھی کسی ملک نے دوسرے ملک پر حملہ کیا ۔ قبضہ کرنے کی کوشش کی تو پہلی فرصت میں اپنے ہدف پر براہ راست حملہ کرنے کے بجائے داخلی طور پر انہیں کمزور کیا ، آپس میں لڑانے کا کام کیا ۔ نفاق پیدا کیا ، امن میں خلل ڈال کر انتشار پیدا کیا ۔ عوام اور رعایا میں خوف کا ماحول بنایا اور پھر اپنے مقصد کی تکمیل کی ۔جبکہ امن کی وجہ سے انسانیت کو فروغ ملتا ہے۔ عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا ہے ۔ سچائی اور صداقت کی جیت ہوتی ہے۔ عوام کو انصاف ،مساوات ،آزادی اور بھائی چارہ کی دولت نصیب ہوتی ہے ۔ نفرت کا خاتمہ ہوتاہے ۔ محبت کے جذبہ کو بڑھاوا ملتا ہے ۔حکومت ،عوام اور شہری کسی طرح کا خوف نہ ہونے کی وجہ سے اپنے مشن اور مقصد پر مکمل توجہ مرکوز کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں معاشری ترقی ملتی ہے ۔ اقتصادی میدان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ۔تعلیم کے شعبہ میں نمایاں کردار اداکرتے ہیں ۔ فتوحات کا پرچم لہراتے ہیں ۔آئندہ آنے والی نسلوں کو محفوظ بناتے ہیں ۔ان کا مستقبل روشن اور تابناک ہوتا ہے ۔ آپسی اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ معاشرہ سے رنجش، خلش اور بغض وعداوت ختم ہوتی ہے ۔ سوسائٹی ایک گل گلزار ہوجاتی ہے ۔
ایک طرف امن کی اہمیت اور ضرورت کو دیکھیئے ۔دوسری طرف فقدان امن کے نقصانات کا جائزہ لیجئے ۔ امن کے مثبت اور منفی نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے تاریخ کا مطالعہ کیجئے ، مختلف ممالک ،سلطنت اور بادشاہوں کے ادوار کو دیکھیئے اور پھر آج کے ہندوستان کا تجزیہ کیجئے ۔ ہندوستان میں آج کیا ہورہا ہے ۔اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ہوتے ہوئے؟ ۔ خوف ، ڈر ،نفرت ،تشدد ، عداوت ، مذہبی منافرت ، نسلی عصبیت ، مذہبی انتہاء پسندی ، علاقائی برتری، خاندانی بالادستی اور فقدان امن سے دوچار ہندوستان میں ترقی ہوسکتی ہے ؟ انسانیت کافروغ ممکن ہے ؟ شہریوں کو مساوات کی دولت نصیب ہوسکتی ہے ۔ آزادی ، انصاف اور بھائی چارہ ان کا مقدر بن سکتاہے ؟۔
ہندوستان میں نسلی برتری قائم کرنے ۔ خاندانی بالادستی کا ڈھونس دکھانے ، انسانوں پر غلامی کرنے ،آپس میں بھید بھاﺅ کو رواج دینے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش جاری ہے ۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو نسلی برتری اور خاندانی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں ۔ ایک مفروضہ کوفریضہ بناکر اسے نافذکرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہیں۔ دنیا کی تمام جائیداد پر وہ صرف اپنا حق سمجھتے ہیں ۔بقیہ انسانوں کو اپنا نوکر اور غلام گردانتے ہیں ۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے وہ انسانوں کو کبھی آپس میں لڑاتے ہیں ۔ ان کے درمیان نفرت کو جنم دیتے ہیں ۔تشدد برپا کرتے ہیں ۔ ان کے چین وسکون کو ختم کرکے صرف اپنے چین سکون کے حصول پر توجہ دیتے ہیں لیکن جب کسی معاشرہ میں ایسی سوچ پنپتی ہے ۔ نسلی برتری اور خاندانی عصبیت کے شکار گروہ پیدا ہوجاتے ہیں اور اس طرح کے شرمناک ایجنڈا پر کام کرنے لگتے ہیں تو وہ پوار ملک اور معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ فقدان امن کی وجہ سے سبھی شہری پریشانی کا سامنا کرتے ہیں اورپھر نتیجہ کے طور پر مملکت کی ترقی رک جاتی ہے ۔ شہریوں کا امن ختم ہوجاتاہے ۔تباہی کا آغاز ہونے لگتاہے اور یہ سب اس طرح ہونے لگتاہے کہ انسانیت تباہ ہوجاتی ہے ۔معاشرہ خانہ جنگی کا شکار ہوجاتاہے ۔ انتقام ،نفرت اور عداوت کی آگ میں پورا معاشرہ جلنے لگتاہے اور جب احساس ہوتاہے تباہی کا ،بربادی کا ، ناکامی اور غلطی کا تو اس وقت پیچھے لوٹنا اور واپس آنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ساری چیزیں تباہ ہوچکی ہوتی ہیں ۔ افسوس ، ندامت اور شرمندگی کے علاوہ کچھ اور ہاتھ نہیں آتا ہے ۔
ہندوستان کے حالات پر نظر ڈالیئے ،سوچیے یہ ملک کہاں ہے اور پھر وہ لوگ کیا کردار ادا کررہے ہیں جنہیں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں قیام امن کی ۔معاشرہ کو بہتر بنانے کی ۔ سنوارنے اور سجانے کی ۔ اہل علم ،مفکرین اور دانشوران جنہیں او لولالباب کہا گیا ہے کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرہ میں امن کے قیام کو یقینی بنائیں ۔بے امنی اور خوف کے خاتمہ کیلئے جدوجہد کریں ۔ سلامتی کے فروغ کیلئے شب وروز ایک کریں ۔تبھی ملک اور ریاست کی ترقی ہوگی ۔ انسانیت کی ترقی ہوگی ۔ عوام کو سکون ملے گا ۔ ملک کا قد دنیا میں اونچا ہوگا ۔ آئین پر عوام کا بھروسہ قائم ہوگا ۔ قانون کے تئیں بیداری پیدا ہوگی اور اس طرح ملک میں امن وسلامتی کی بحالی ہوگی ۔ فضا خوشگوار ہوگی ۔ عوام بے خوف ، آزاد اور پرسکون فضاء میں سانس لیتے ہوئے زندگی کے شب وروز گزارے گی ۔
آج کے ہندوستان میں آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ۔ دستور ہند کی کھلے عام پامالی ہورہی ہے ۔ قانون کے مطابق زندگی گزارنے کا جذبہ اور اس کے مخالفت پر سزاکا خوف ختم ہوگیاہے ۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسا معاملہ رواج پاچکاہے ۔ اکیسویں صدی کے ہندوستان میں یہ سب اس لئے ہورہاہے کہ لاء اینڈ آڈر مضبوط نہیں ہے ۔ انتظامیہ اپنا کردار صحیح سے نہیں نبھارہی ہے ۔امن وامان کی اہمیت سے سرکار او ر انتظامیہ روگردانی کررہی ہے ۔ ترقی کیلئے اولین شرط ’ قیام امن ‘ کو حکومت اہمیت نہیں دے رہی ہے ۔
برسبیل تذکرہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ امن وامان ،ریاست کی ترقی اور معاشرہ کی سلامتی کے سب سے بڑے دشمن وہ لوگ ہیں جو نسلی تفاخر ، خاندانی بالادستی اور مذہبی انتہاءپسندی کے شکار ہیں ۔ اکیسویں صدی کے ہندوستان میں بھی وہ ہزاروں سال قدیم مفروضے کو نافذ کرنا چاہتے ہیں جس میں نسل اور خاندان کی بنیاد پر ایک انسان کو دوسرے انسان پر برتری ، فوقیت ، عظمت اور مرتبہ حاصل ہے ۔ خاندان کی بنیاد پر ایک کی حیثیت آقا کی اور دوسرے کی حیثیت جانور سے بھی بدترغلام کی ہے جو تمام تر انسانی حقوق سے محروم ہوتاہے ۔ اس شرمناک مقصد کی تکمیل کیلئے سوسائٹی اور معاشرہ میں خون خرابہ ،قتل وغارت گری ،انتہاءپسندی ،نفرت اور عدوات کا ماحول بنارکھاہے اور یہی وہ گروہے جو امن وسلامتی کے فقدان کیلئے اصل ذمہ دار ہے ۔
امن وسلامتی کا فقدان ملک کیلئے سنگین خطرے کا سبب ہے ۔معاشی ترقی ، بلندی اور عالمی عظمت کے حصول کی راہ میں یہ صورت حال بہت بڑ ی رکاوٹ ہے ۔ ایسے نازک موقع پر اولو لالباب کا فرض ہے کہ وہ میدان میں آئیں اور امن کی تحریک چلائیں ۔ نفرت کے خلاف جنگ کا آغاز کریں۔ معاشرہ کو جہنم کی آگ سے نکال کر خوشگوار بنائیں ۔ تمام شہریوں کیلئے مساوات، انصاف ، آزادای اور بھائی کے حصول کو یقینی بنائیں۔ اس گروہ کے ناپاک اور شرمنا ک ایجنڈا کو ناکام بنائیں جو ایک مرتبہ پھر آزاد ملک کے عوام کو غلام بنانے اور انسانوں کو جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے کے منصوبہ پر عمل پیر ا ہیں ۔ یہی او لالباب کی ذمہ داری ہے اور ملک کے بدلتے میں ان کیلئے یہ رول نبھانا وقت کا اہم تقاضا ہے ۔