عام مسلمانوں کے چند سوالات ہیں جن کے جوابات فوری طور پرضروری ہیں ۔۔۔۔ اگر خدا نخواستہ کوئی ہجومی تشدد کا شکار ہونے لگے تو وہ شخص یا اس کے ارد گرد اس کی مدد کا جذبہ رکھنے والے افراد فوری طور پر کیا کریں؟ اگر موقع پر کچھ نہیں کیا جا سکا تو بعد میں قانونی طور پر کیا کریں؟ تشدد برپا کرنے والوں کی نشان دہی ہو جانے پر کیا حکمت عملی اپنائیں؟
مدثر احمد قاسمی
اسلام نے مصیبت زدہ لوگوں کےغم اور درد کو محسوس کرتے ہو ےاُن کے ساتھ غمخواری کی واضح ہدایات جاری کی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرکے اُس کو کم کرنے یا ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ اسلام کی خوبصورت تعلیم پر عمل کر رہے ہیں اور اگر اِس حوالے سے آپ کوتاہی یا سرد مہری کے مرتکب ہورہے ہیں تو آپ نہ صرف یہ کہ اسلام کو اپنانے کے تعلق سے اپنے دعوے میں کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں بلکہ انسانیت سے آپ کا رشتہ بھی کمزور ہورہا ہے۔
دوسروں کے درد کو محسوس کرنے کے بارے میں اسلامی تعلیمات میں اِس قدر وسعت ہے کہ انسان تو انسان جانوروں کے تعلق سے بھی واضح اور دل کو چھو لینے والے ہدایات اور احکام یہاں موجود ہیں۔ نبی رحمت محمد ﷺ کی ایک حدیث سے ہمیں بخوبی اسکا علم ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ً اِن بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے خوف کرو اور اُن پر صحت کی حالت میں سواری کرو۔ً )ابو داود(
اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا حق تومسلم ہی ہے ،لہذا جب کو ئی مسلمان تکلیف میں ہو تو دوسرے مسلمان کے لئے یہ بالکل بھی روا نہیں کہ وہ بے حِس ہو کر خاموش بیٹھا رہے ۔نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ًمسلمان ایک جسم کی مانند ہیں،اگر آنکھ میں درد ہو تو پورا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے اور اگر سر میں درد ہو تو پورا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ (مسلم)
اس حقیقت سے مزید آگے بڑھتے ہیں تو ہم پر یہ بات آشکارہ ہوتی ہے کہ اسلام کی نظر میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیرمسلموں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور اُن کے غم کو غلط کرنے کی طرف صاف رہنما ئی موجود ہے ، چنانچہ سورہ ممتحنہ آیت ۸میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:ًاللہ تعالیٰ تم کو اُن لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کا برتاوکرنے سے منع نہیں کرتے، جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے لڑا ئی نہیں کی۔ً اس آیت کریمہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جو غیر مسلم مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں اور مسلمانوں کو نقصان نہیں پہو نچاتے ہیں ،اُن سے حسنِ سلوک کا معاملہ رکھنا چاہئے۔اس کا عملی نمونہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں بارہا پیش فرمایا ۔ ایک مرتبہ جب اہل مکہ قحط سے دو چار ہو ئے تو آپ ﷺ نے اُن کے لئے پانچ سو دینار بھیجے۔ (سیر کبیر)
تعلیماتِ اسلامی میں جہاں کسی کے دکھ درد میں شریک ہونے کی اہمیت مسلم ہے وہیں دوسروں کی پریشانی اور تکلیف کو دور کرنے کے لئے تگ و دو کرنے کی فضلیت بھی ثابت شدہ ہے، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا؛حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا:جو شخص کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکلیف دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے د ن کی مشکلات میں سے کو ئی مشکل دور فر مائے گا ،جو شخص دنیا میں کسی تنگ دست کے لئے آسانی پیدا کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لئے آسانی پیدا فر مائے گا ،اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فر مائے گا۔اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔ (مسلم)
اس تمہید کے بعد جب ہم کمزور ہندوستانیوں پر حالیہ حملوں کا جا ئزہ لیتے ہیں جن کو ہجومی تشدد یا ماب لنچنگ کا نام دیا گیا ہےتو اس نتیجے پر پہونچتے ہیں کہ ہم دوسروں کے درد میں شریک ہونے اور اس کو دور کرنے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل پیرا نہیں ہیں، کیونکہ کسی کی تکلیف میں شریک ہونا یا دور کرنے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ زبانی طور پر اُن کی تکلیف پر افسوس کا اظہار کردیں یا معمولی رقم اُن کو دے کر مطمئن ہوجائیں۔بلکہ اسلامی تعلیمات کا اصل مقصد اُن مسائل،مشکلات،درد اور تکلیف کا ایسا حل پیش کرنا ہے جس سے مظلوم کی اطمینان بخش حد تک دادرسی ہوجائے اور ساتھ ہی مستقبل میں اس طرح کے مصائب کے امکانات بھی کم ہوجائیں۔
اس کو ایک مثال کے ذریعے ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔اگر کہیں ایسا ہو جائے کہ ڈاکو کسی قافلہ کو راستے میں لوٹ لیں اور ان میں سے کچھ لو گوں کو موت کے گھاٹ بھی اتاردیں تو صرف ان کی مالی مدد یا درد میں شریک ہوجانا کافی نہیں ہے بلکہ مستقبل میں اس طرح کی مصیبت کے سدِ باب کے لئے کوشش بھی ضروری ہے اور اس کی صورت یہ ہوگی کہ اُن ڈاکوں کو کیفر کردار تک پہونچانے کی آپ ہر ممکن کوشش کریں؛ کیونکہ اگر آپ متا ثرین کی صرف مالی مدد یا لفظی تسلی پر اکتفا کرتے ہیں اور اُن ڈاکوں کو لگام دینے کی کوشش نہیں کرتے ہیں تو آئے دن کوئی نہ کو ئی قافلہ اُن کے ہتھے چڑھتا رہیگا اور ظلم کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری رہے گا۔
مذکورہ مثال کے آئینہ میں جب ہم عام ہندوستانی اور بطور خاص مسلمانوں کا ہجومی تشدد کے حوالے سے جا ئزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہونچتے ہیں کہ ہم نے ابھی تک صرف ایک پہلو پر تھوڑا بہت کام کیا ہے اور وہ پہلو مظلوموں کی زبانی اور کسی حد تک مالی مدد ہے لیکن دوسرے پہلو یعنی ظالموں کو ظلم سے روکنے پر ہم نے نا کے برابر کام کیا ہے۔اس تعلق سے نہ ہی ہم نے اب تک منظم پلان بنایا ہے اور نہ ہی متحد ہو کر ظلم کے اس زنجیر کو توڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔پتہ نہیں مصلحت پسندی کی کونسی چادر تانے ہم بیٹھے ہیں۔یہ سچ ہے کہ مصلحت کے دامن کو تھامے رکھنے سے غیر شعوری طور پر بہت سارے مسائل ہو تے ہیں لیکن اس کی بھی ایک حد ہے۔لہذاجب مصلحت پسندی کار گر نہ ہوتو قانونی دائرے میں حکمت کے ساتھ کسی دوسرے پلان کی طرف آنا ضروری ہوجاتا ہے۔
یہاں اہم سوال یہ ہے کہ تقریباً ہر معاملہ میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والےحضرات ہجومی تشدد کے معاملہ پر کوئی واضح گائڈ لائن مسلمانوں کو کیوں نہیں دے رہے ہیں ؟اس حوالے سے عام مسلمانوں کے چند سوالات ہیں جن کے جوابات فوری طور پرضروری ہیں۔۔۔۔اگر خدا نخواستہ کوئی ہجومی تشدد کا شکار ہونے لگے تو وہ شخص یا اس کے ارد گرد اس کی مدد کا جذبہ رکھنے والے افراد فوری طور پر کیا کریں؟ اگر موقع پر کچھ نہیں کیا جا سکا تو بعد میں قانونی طور پر کیا کریں؟ تشدد برپا کرنے والوں کی نشان دہی ہو جانے پر کیا حکمت عملی اپنائیں؟
مذکورہ سوالات کی روشنی میں بلا تفریق ذات پات اور مسلک کے،ذمہ داران کوچا ہئے کہ ہندوستان بھر کے لئے ایک گائڈ لائن تیار کریں تاکہ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی اس طرح کا حادثہ پیش آئےیکساں اور موثرردعمل سامنے آئے اور اس طرح آنے والے وقتوں میں اس خوفناک باب کا خاتمہ ہو جائےاور ہم دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونے کی عملی تصویر بن جائیں۔