مدثر احمد قاسمی
ہم ہر نماز میں درودِ ابراہیم پڑھتے ہیں مگر کیا کبھی غور کرتے ہیں کہ ابراہیمؑ کا اسوہ کیا ہے اور ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ کیا آپ ؑ کی پیروی صرف ذی الحجہ میں ضروری ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے پیاروں کی مکمل زندگی جد و جہد، اطاعت و فرمانبرداری اور محبت و اطاعت شعاری کی روشن علامت تو ہے ہی لیکن اُن ستودہ صفات او ر پاکیزہ نفوس کی زندگی کا سب سے زیادہ امتیازی پہلو احکاماتِ خداوندی پر بلا قیل و قال اور بغیر کسی سوال کے سرِ تسلیم خم کر دینا ہے۔ ذرا غور فرمائیں ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور اپنے شیر خوار لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی بے آب و گیاہ اور غیر آباد سرزمین پر چھوڑ کر آجائیں، تو اُنہوں نے بلاتردد اور بلا خوف و خطر اپنے سفر کا آغاز کردیا اور اُن لوگوں کو اس دور دراز بنجر زمین پرمحض اللہ کے بھروسے چھوڑ دیا تھا۔ اگر اس حکم پر عقلی گھوڑا دوڑایا جاتا تو اس میں حکمت کا کچھ بھی عکس نظر نہیں آتا؛ کیونکہ محدود انسانی عقل کے اعتبار سے ایک ناتواں عورت اور ایک معصوم بچے کو اس طرح کسی بیابان میں چھوڑنا بظاہر اُنہیں خطرات سے دوچار کرنے کا عاقبت نااندیشانہ فیصلہ قرار پاتا۔
اگر ہمارے زمانے کا کو ئی آزاد خیال مفکر ہوتا تووہ اس حکم کی کوئی نئی اور دوسری تشریح کردیتا اور بہت سارے ایسے بھی مل جاتے جو کم از کم یہ سوال کرتے کہ ہم ایسا کیوں کریں؟یا یہ کہہ دیتے کہ یہ غیر معقول حکم ہے(نعوذ با للہ)۔ یہ حضرت ابراہیم ؑہی کی شخصیت تھی جنہوں نے بغیر کسی اعتراض کے بعینہ وہ کر دکھایا جس کا اُنہیں حکم دیا گیا تھا۔ اپنے اِس عمل سے حضرت ابراہیمؑ نے در اصل اپنی اُس صفت ِ خاص کا عکس دکھلایا جس کو قرآن مجید نے ہمیشہ ہمیش کے لئے اُن کی ذات کے ساتھ وابستہ کردیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور جب ان کے رب نے ان سے فرمایا: (میرے سامنے) گردن جھکا دو، تو عرض کرنے لگے: میں نے سارے جہانوں کے رب کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا۔‘‘ (سورہ بقرہ:۱۳۱)
تفسیر ابن کثیر کے مطابق جب اُس بیابان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرتِ ہاجرہ علیہا السلام کو تنہا چھوڑ کر جانے لگے تو اُنہوں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ ہمیں اس دہشت و وحشت والے بیابان میں تنہا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ (یہ ایک فطری سوال تھا جو اُس حالت میں کوئی بھی پوچھتا)۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اولاً کوئی جواب نہ دیااور اُن کی یہ خاموشی بھی درحقیقت اطاعت شعاری کا استعارہ تھی ۔حضرت ہاجرہ ؑ کے بار بار کہنے پر بھی آپ ؑ نے التفات نہ فرمایا تو حضرت ہاجرہ ؑ نے پوچھا کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے؟ حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا : ہاں مجھے اللہ کا یہی حکم ہے۔ یہ سن کر حضرت ہاجرہ ؑ ؑ فرمانے لگیں ،پھر آپ تشریف لے جائیں، اللہ جل شانہ ہمیں ہر گز ضائع نہ کرے گا۔
حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا مذکورہ جواب اطاعت ِ الٰہی کے باب میں ایک بلند ترین معیار ہے؛ انہوں نے نہ ہی اپنی آہ وزاری سے حضرت ابرہیم ؑ کے پائوں میں زنجیر ڈالی نہ ہی اپنے ساتھ ناانصافی کا ڈھنڈورہ پیٹا؛ جیسا کہ آج کی عورتوں کے ایک طبقے کا بہت سارے شرعی معاملات میںیہی وطیرہ ہے۔
مذکورہ تمہید کے پیشِ نظر اب ہمیں بھی اپنی زندگی پر غور کرنا ہے کیونکہ مسلمان ہونے کا اقرار کرکے ہم نے بھی احکامات خداوندی کی بسروچشم تعمیل کا عہد کیا ہے۔ہمیں اِس دعوے کی سچائی تلاش کرنے کے لئے مختلف احکاماتِ خداوندی کے آئینے میں اپنے آپ کو پرکھنا ہوگا؛ تب ہی معلوم ہوسکے گا کہ ہم اپنے دعوے پر کتنا پورا اُترتے ہیں:
مثال کے طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، جو کچھ باقی سود رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔‘‘ (سورہ بقرہ:۲۷۸)۔ کیا ہم میں سے تمام لوگ سود کے چھوڑنے کے حکم کی تابعداری کرتے ہیں؟ کیا سود کے باب میں سرِتسلیم خم کرنے کا مفہوم ہم سب کی زندگی میں موجود ہے؟
اس طرح جب قرآنِ کریم مسلمان مرد و عورت کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیتا ہے تو کیا ہم سب اس پر مکمل پابند ِ عمل ہوتے ہیں؟ جب ہمیں یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ رسول اکرم ﷺ موسیقی کی آواز سن کر اپنے کانوں کو بند کرلیا کرتے تھے؛ تو کیا ہم نبی ﷺ کی اس سنت پر عمل کرتے ہیں اور موسیقی کو اپنی زندگی سے نکال با ہر کرتےہیں؟ اسی طرح کیا دیگر عبادات و معاملات میں اطاعت ِ خداوندی کاجذبۂ کامل ہماری زندگی میں موجود ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات تلاش کرتے وقت بخوبی اس بات کا علم ہوجائیگا کہ ہم میں سے اکثر لوگ احکاماتِ خداوندی کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے اور اُن کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کے تعلق سے انتہائی کمزور ہیں۔
احکاماتِ خداوندی کے سامنے سرِتسلیم خم نہ کرنے کی ہماری اسی روحانی بیماری اور شریعت پر عمل کرنے کے جذبات سے عاری زندگی نے ہی ہمیں زوال اور ناکامی کی آخری منزل پر پہنچا دیا ہے۔ اگر ہم بھی اپنی سہولت اور خود ساختہ دانائی کو کنارے رکھ کر حضرت ابراہیم ؑ اور اُن کے خاندان کی طرح شریعت پر مکمل عمل کو اپنا شعار بنا لیتے تو یقیناً ہمیں بھی وہی ابدی کامیابی، نیک نامی اور شہرت ملتی جو اُ ن کے حصے میں آئی۔ کم از کم اب ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ حقیقی کامیابی و کامرانی کا بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم احکاماتِ الٰہی کے سامنے بالکل اسی طرح سرِ تسلیم خم کردیں جس طرح حضرتِ ابراہیم ، حضرت ہاجرہؑاور حضرت اسماعیلؑ نے کیا۔ ہمیں شریعت کے معاملے میں نہ تو اگر مگرسے کام لیناچاہئے اور نہ ہی سوالات کے دام میں پھنسنا چاہئے اور نہ ہی خود ساختہ تشریحات کو بڑھاوا دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔