حضرت مولانا امین اشرف قاسمی رحمۃاللہ علیہ کا سفرِ آخرت

معاذ مدثر قاسمی
مولانا امین اشرف قاسمی نہ صرف اپنے وطن مالوف مادھوپور ،سیتامڑھی بہار کے لئے ایک عظیم سرمایہ تھے، بلکہ انکا نام شمالی بہار کی علمی دنیا کے افق پر ایک جگمگاتا ستارہ تھا جو 20/ ستمبر، 2020 بروز اتوار شب ساڑھے آٹھ بجے مختصر علالت کے بعد اپنے تمام متوسلین اور اعزواقارب کو روتا بلکتا چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔
_اناللہ وانا الیہ راجعون۔_
یقینا حضرت والا کی ذات بابرکت گوں ناگوں صفات کی حامل تھی، جس کا صحیح اندازہ ان لوگوں کو زیادہ ہوگا جنہوں نے علاقے میں حضرت رحمۃ اللہ کی کی علمی، عملی، سماجی اور رفاہی خدمات کو قریب سے دیکھا ہے۔
حضرت رحمۃاللہ کی شخصیت صرف علمی دنیا ہی میں متعارف نہیں تھی، بلکہ پورے علاقے میں ملی وقومی اتحاد کے حوالے سے بھی وہ ایک عظیم ستون تھے۔
انکا علمی اور روحانی وقار، خاندانی عزت وشرافت اور رعب ودبہ ہر کس وناکس کے دل پر چھایا ہواتھا۔ انہوں نے اپنی مدبرانہ اور مشفقانہ صلاحیت کو بروئے کار لاکر کبھی بھی قومی شیرازہ کو بکھرنے نہیں دیا۔ بلکہ اپنی کوششوں سے ہر ایک کو محبت واخوت کی ایک مضبوط لڑی میں پروئے رکھا۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے وطن مادھوپور کا جائے وقوع کچھ ایسی جگہ پر ہے جہاں فرقہ پرست عناصر ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔ وہاں فرقہ پرستی پھیلانے اور ہندومسلم کے مابین دشمنی کا بیج بونے کی بارہا کوشش کی گئی لیکن مولانا مرحوم کی ذات نے علاقے کے لوگوں کواپنا ایسا گرویدہ بنارکھا تھا کہ بدخواہوں کو کبھی بھی کامیابی نہیں مل سکی۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت مرحوم کی وفات پر نہ صرف اپنوں کی آنکھیں اشکبار تھیں بلکہ راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ برادران وطن کی عورتیں اور مرد دیوانہ وار حضرت کے آخری دیدار کے لئے کھینچے چلے آرہے تھے۔
احقر راقم، حضرت مرحوم کے چھوٹے بھائی اور اپنے پھوپھا محترم جناب مولانا رزین اشرف صاحب ندوی کے ذریعہ مولانائے مرحوم کی بہت سی باتیں اور بے شمار خوبیاں سنتا آتا تھا۔
ابھی حالیہ ملاقات میں بھی پھوپھا محترم اپنے برادر معظم مولانا مرحوم سے متعلق کثرت سے تذکرے کیا کرتے تھے۔
20/ ستمبر 2020 اتوار کی رات جیسے ہی اطلاع ملی کہ مولانا امین اشرف صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ یہ خبر دل پر بجلی بن کر گری اور اپنی جگہ سے فوراکھڑا ہوگیا۔ میرے پھوپھی زاد بھائی عمران اشرف ان دنوں ہمارے گھر یعنی اپنی نانیہال ہی میں تھے، اس دردناک خبر کے سنتے ہی وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے اور کیفیت ایسی ہوگئی کہ چہرہ کبھی سیاہ پڑتا اور کبھی پیلاہوجاتا، انکی دگر گوں حالت کو دیکھ کر ہم سب تشویش میں مبتلا ہوگئے۔
ایک ارادہ یہ بھی کیا گیا کہ انہیں رات ہی میں والدین کے پاس مادھوپور پہنچایا جائے۔
مگر رات دیر ہوجانے کی وجہ سے اگلی صبح فورا ہی راقم انہیں لیکر مادھوپور نکل گیا۔
مادھوپور پہنچ کر پتہ چلا کہ حضرت رح چار پانچ روز سے کافی نقاہت محسوس کررہے تھے۔ اور مسجد میں نماز کے لیے جانا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ بیماری کے دوران ہی پھوپھا جان کو نماز میں قرآن پڑھتا دیکھ کر بطور رشک کہا کہ “رزین تم تو بہت خوش قسمت ہو کہ نماز میں طویل قرات کررہے ہواور میں معذور ہوں”، اس پر پھوپھا جان نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ “بھائی صاحب ہمارا یہ عمل آپ کی تربیت کا ثمرہ ہے اور یہ بھی آپ کے نیک اعمال میں شمار ہوگا۔ تو اس پر مولانا مرحوم نے فرمایا: “ہاں بھائی تم سب میرے لئے باقیات صالحات ہو”۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مولانا مرحوم نے اپنے تمام چھوٹے بھائیوں کی تعلیم وتربیت اور بہترنگہداشت میں جس دل سوزی سے کام لیاہے وہ انہیں کاحصہ تھا۔
اتورا کی صبح سے ہی عارضہ میں شدت پیدا ہوگئی تھی، شام تک گاؤں کے لوگوں کو جیسے جیسے پتہ چلتا گیا، گھر کے باہر ہجوم سا جمع ہوتاگیا۔ مرض کی شدت کو دیکھ کر ہاسپیٹل لے جانے کا ارادہ بھی کیا گیا، مگر مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے جانے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ مجھے اپنی قیام گاہ پر ہی رہنے دو۔ حکم کی بجاآوری کی گئی، جونہی بستر پر بیٹھایا گیا، چند ہی لمحے میں حضرت کا جسم ٹھنڈا پڑگیا۔ زبان پر کملہ جاری ہوا اور روح اس قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
وفات سے کچھ قبل سامنے کسی کے نہ ہونے کے باوجود واضح انداز میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے الفاظ زبان سے نکلے۔
یہ منظر ہر شخص کے لئے قابل رشک تھا۔
مولانا کی دینی تربیت ہی کا اثر تھا کہ وفات پر مولانا کی اہلیہ ماتم کناں ہونے کی بجائے _حسبنا اللہ ونعم الوکیل_ کا ورد کرتی رہیں۔
پھوپھی اور پھوپھاجان نے مولانا کی جدائی کا واقعہ اشکبار آنکھوں سے کافی تفصیل سے بتایا اور انہوں نے اس بات پر امتنان وتشکر کا اظہار بھی کیا کہ ان آخری دنوں میں بڑے بھائی صاحب کی خدمت کااللہ تعالی نے حتی المقدور موقع نصیب فرمایا۔
جیسے جیسے وقت گزرتاگیا، آخری دیدار کرنے والوں کا تانتا بندھتا رہا۔ قرب وجوار کے لوگ کثیر تعداد میں اکھٹا ہوتےگئے۔
مولانا مرحوم کے خاندان کے زیادہ تر افراد علی گڑھ، دبئی اور سعودی عرب میں رہتے ہیں، ان سب کی حاضری مشکل تھی اسی لئے تدفین کا وقت دوپہر دو بجے طے کردیاگیا۔ وقت متعینہ تک بڑی تعداد میں علماء وصلحاء بھی جمع ہوچکے تھے۔
عجیب بات تھی کہ اتوار کا دن گرمی کی شدت کے باعث بڑا تکلیف دہ تھا مگر ٹھیک تدفین سے پہلے موسم بالکل سہانا ہوگیا۔ بلکہ اس دن اطراف میں بڑی شدت کی بارش بھی ہوئی مگر مادھوپور میں موسم مددگارہی رہا۔ موسم کی اس حیرت انگیز تبدیلی کو دیکھ کر پھوپھا جان بول اٹھے کہ ارے صاحب دیکھیے جس نے زندگی بھر لوگوں کی خدمت کے لیے دھوپ سردی، گرمی اور بارش برداشت کیا، آج خدا نے ان پر ایسا کرم کیا کہ انکے آنے والے مہمانوں کے لیے بھینی بھینی ہواؤں کے ساتھ ہلکے بادل کی طنابیں کھینچ دی گئیں۔ اللہ اکبر۔
غسل کی سعادت حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے شب وروز کے حاضرباش فرزند ارجمند مولانا لبیب اشرف صاحب ، پھوپھا مولانا رزین اشرف صاحب اور میرے چھوٹے چچا امام عالم مہدی کونصیب ہوئی۔ بطور معاون احقر راقم، اور مبشر سلمہ اور دگر تین افراد بھی شامل رہے۔
یہ اپنی سعادت سمجھتا ہوں کہ غسل دینے سے لے کر کے اخیر تک کے تمام مرحلے میں احقر عملی طورپر شریک رہا۔
تکفین کے بعد آخری دیدار کے لیے تھوڑی دیر گھر کے صحن میں جنازے کو رکھا گیا، اسی وقت ممبئی سے مولانا مرحوم کی صاحبزای پہنچ گئیں اور آخری دیدار نصیب ہوگیا۔
میت کو گھر سے باہر لیجانے سے قبل مولانا مرحوم کی اہلیہ نے آخری دیدار کے وقت جوکلمات کہے اس سے موجود سبھی حضرات اشکبار ہوگئے۔ “الوداع ۔۔۔ اللہ حافظ ۔۔۔فی امان اللہ۔۔۔۔روز محشر میں پھر ملیں گے۔۔۔”
یقینا یہ کلمات مختصر ہیں مگر تصور کی دنیا میں جاکر دیکھیں کہ ایک بیوی کے لیے اپنے شوہر کو ہمیشہ کے لیے اپنی نگاہ سے دور ہوتا دیکھ کر کیا کیفیت ہوگی۔ اور دل مضطرب کا کیا عالم ہوگا۔۔مگر اس وقت بھی مولانا کی دینی تربیت فائق رہی۔۔۔ اور ایمان سے لبریز کلمات کہلوائے۔
جنازے کی نماز علاقے کی بزرگ ترین شخصیت حضرت مولانا اظہار الحق صاحب مہتمم مدرسہ اشرف العلوم کنہواں نے پڑھائی۔
نماز جنازہ مولانا کے قائم کردہ ادارہ دعوت الحق کے احاطہ میں اداکی گئی اور ہزاروں لوگوں نے بوجھل دلوں کے ساتھ مولانا کو انکی آخری آرام گاہ تک پہنچایا۔
وہ مدرسہ جسے انہوں نے زندگی بھر اپنے خون پسینے سے سینچا تھا، قدرت کو یہی منظور تھا کہ اسی کا احاطہ مولانا کا آخری قیام گاہ قرار پائے، چنانچہ بھائیوں کے مشورے سے احاطہ کے اندر ہی زمین کا ایک حصہ گراں قدر قیمت پر خریدا گیا، تاکہ وہ اسی پاک زمین پر آسودہ خواب رہیں۔

_اللھم اغفرلہ وارحمہ وادخلہ جنان الفردوس عندک ونور قبرہ وبرد مضجعہ وامطر علیہ شآبیب رحمتک!_
مولانا مرحوم نے اپنے پیچھے اہلیہ، چارصاحبزادوں اور چار صاحبزادیوں کے علاوہ ادارہ دعوت الحق کی شکل میں ایک عظیم اثاثہ چھوڑا ہے۔کم وبیش چالیس سال کے عرصے میں ادارہ دعوت الحق کو جانفشانی اور عرق ریزی سے سینچ کر مکتب سے ایک جامعہ اور ایک چھوٹے سے پودے کوایک پھل دار اور تناور درخت میں تبدیل کردیا۔
امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی فرمایا کرتے تھے کہ جب اللہ تعالی حشر میں پوچھیں گے کہ منت اللہ کیا لائےہو؟ تو میں کہہ دونگا ۔۔جامعہ رحمانی۔۔۔امید ہے کہ یہ ادارہ دعوۃ الحق بھی انشاءاللہ مولاناکے حسنات مقبولہ میں شمار کیا جائے گا۔
دعاہے کہ مولانا کے ذریعہ قائم کیا گیا یہ تعلیمی قلعہ تاقیامت پھیلتااورپھولتا رہے۔اور امت اس سے ہمیشہ ہمیش مستفیض ہوتی رہے۔آمین!

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

اے ہم نَفَسانِ صحبتِ ما
رفتید ولے نہ از دِلِ ما

جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے