مدثر احمد قاسمی
اللہ رب العزت نے حضرت انسان کو آزاد پیدا فرمایا ہے تاکہ وہ اپنی دینی و دنیوی ضروریات وسعت کے مطابق پوری کر سکے اور رضائے الٰہی کو چاہتے ہوئے ایک پر مسرت زندگی سے لطف اندوز ہوسکے ، لیکن آزادی کے تعلق سے ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انسانوں کے ایک طبقے نے محض اپنی خواہش، مقصد اور انا کے لئے اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کی آزادی پر ڈاکہ ڈال کر انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کرنے کا ایک مذموم سلسلہ قائم کر رکھا ہے۔ چونکہ زمانہ قدیم سے ہی بے گناہوں کو قید کرنے کا ظالمانہ نظام قائم رہا ہے، اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو قیدیوں کو رہا کرانے کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”قیدیوں کو چھڑاؤ۔” (بخاری)
یہاں یہ بات واضح رہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے جیل کا جو نظام قائم ہے، وہ از روئے شریعت غلط نہیں ہے کیونکہ انسانی زندگی میں امن اور انصاف کے قیام کے لئے یہ ایک معقول طریقہ کار ہے۔ اس طریقہ کار کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے جہاں سماج کے بدمعاش عناصر کو لگام دینے میں مدد ملتی ہے وہیں اس سے مظلوموں کے لئے انصاف کا حصول آسان ہوتا ہے ، لیکن اس نظام سے پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب وہاں بے اعتدالی راہ پا جائے، انصاف کے نام پر نا انصافی کی داستان رقم ہونے لگے اور ناکردہ گناہ کی سزا میں معصوموں کو حراساں کرنے کا ایک کربناک سلسلہ قائم ہوجائے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسانیت نواز اور انصاف چاہنے والوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اور انہیں معصوموں کی رہائی کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی ہوتی ہے؛ کیونکہ یہ جہاں ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے، وہیں شرعی ضرورت بھی اور اسی پر قیدیوں کو آزاد کرانے کی جو فضیلت ہے وہ حاصل ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جس نے دشمنوں کے ہاتھوں سے کسی مسلمان قیدی کو فدیہ دیکر چھڑایا تو میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) وہی قیدی ہوں۔ (الطبرانی،مجمع الزوائد) غور فرمائیں کہ اس حدیث مبارک سے قیدیوں کو چھڑانے کی کسقدر فضیلت معلوم ہو رہی ہے کہ جس نے قیدی کو چھڑایا گویا اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو چھڑایا۔حقیقتاً یہ حدیث اس باب میں ترغیب دینے کے حوالے سے نقطۂ معراج ہے۔
زیر بحث موضوع کے تناظر میں جب اس وقت احوال عالم پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک بھیانک تصویر ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہے اور وہ تصویر یہ ہے کہ دنیا کے طول و عرض میں بے گناہوں کو قید کرنے کا ایک لا متناہی سلسلہ قائم ہے۔اسرائیل کے عقوبت خانے سے لیکر گوانتا نامو بے کے تنگ و تاریک اذیت خانے تک اور عراق و شام کے جیل خانوں سے لیکر سر زمین ہند کے قید خانوں تک سیکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بے گناہ قیدی درد کی تصویر مجسم بنے ہوئے ہیں۔اس صورت حال میں پوری دنیا کے انصاف پسندوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے بے گناہوں کی رہائی کے لئے حتی الوسع کوشش کریں۔
تفسیر قرطبی میں ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کمزور مسلمان اپنی آزادی اور رہائی کے لیے بلائیں تو مسلمانوں پر ان کی مدد لازم ہے کیونکہ مسلمانوں کے درمیان رشتہ ولایت قائم ہے پس مدد کی پکار سننے کے بعد کسی مسلمان کی آنکھ کے لیے جائز نہیں کہ وہ آرام کرے بلکہ اگر ممکن ہو تو ان کی مدد کے لیے نکل پڑنا چاہئے یا اپنا مال خرچ کر دینا چاہئے یہاں تک کہ کسی مسلمان کے پاس ایک درہم باقی نہ رہے۔یہی امام مالک رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کا قول ہے۔ایک طرف علمائے امت نے اس معاملے کو اس قدر حساس قرار دیا ہے، وہیں دوسری طرف افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر وسعت کے باوجود اس باب میں مجرمانہ غفلت سے کام لے رہے ہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ ہم اس معاملہ میں قدم بڑھانے سے پہلے ملکی قوانین اور تمام احتیاطی تدابیر و حکمت کو پیش نظر رکھیں لیکن بالکل کنارہ کشی اختیار کر لینا کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں ہے۔
زیر نظر مضمون میں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ بے گناہ قیدیوں کو چھڑانے کے لئے جو افراد اور جماعتیں کوششیں کرتی ہیں، وہ خوش نصیب ہیں اور پوری ملت کی جانب سے شکریے کی مستحق ہیں۔ قیدیوں کی مدد کے تعلق سے ایک اہم پہلو یہ ہے کہ جہاں ہم انہیں قانونی، مالی و اخلاقی تعاون دینے کی کوشش کریں وہیں ان کے اہل خانہ کی بھی خبر گیری کریں۔ ماضی میں ہمارے اسلاف نے کس طرح تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے قیدیوں کی مدد کی ہے اس کی ایک مثال حضرت عمر ابن عبد العزیز رحمۃ اللہ کا ایک خط ہے۔ چنانچہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ قسطنطنیہ میں قید مسلمانوں کے نام خط میں لکھتے ہیں:
اما بعد ! ۔۔۔ یہ بات آپ کے علم میں رہنی چاہئے کہ میں جب اپنی رعایا کے درمیان کچھ تقسیم کرتا ہوں تو آپ لوگوں کے گھر والوں کو دوسروں سے زیادہ اور بہتر چیزیں دیتا ہوں میں فلاں آدمی کے ہاتھ آپ لوگوں کے لیے پانچ دینار بھجوارہاہوں اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ ظالم رومی آپ لوگوں تک یہ مال نہیں پہنچنے دیں گے تو میں اس سے زیادہ بھجواتا میں نے آپ تمام لوگوں کو منہ مانگا فدیہ دیکر چھڑانے کے لیے فلاں آدمی کو بھجوا دیا ہے۔ آپ لوگ خوش ہو جایئے اور خوش خبری پایئے۔ والسلام (ابن عساکر)
خلاصہ یہ ہے کہ دوسروں کے درد کو سمجھنا اور اس کو دور کرنے کی کوشش کرنا دین اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے، اس لئے بے گناہ قیدیوں کے لئے بقدر وسعت ہماری تگ و دو انسانی ضرورت ہی نہیں بلکہ شرعی تقاضا بھی ہے اور اسی وجہ سے اس پر اجر بھی یقینی ہے۔