مشورہ کی دوکان کھول کر بیٹھ جانا مسئلہ کا حل نہیں ہے

مدثر احمد قاسمی 

اسلام نے دنیا کو ایسے اصول فراہم کئے ہیں ،جن پرعمل پیرا ہوکر انسان اپنے بہت سارے مسائل کا حل آسانی سے تلاش کر سکتا ہے ۔انہی اصولوں میں سے ہر زمان و مکان کے لئے ایک قابل عمل اصول کسی بھی معاملہ میں “مشورہ”کا ہے۔ چونکہ یہ ضرر سے بچانے والا ایک مفید عمل ہے ،اسی وجہ سے قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مسلمانوں کی تعریف کرتے ہوئے سورہ شوریٰ میں ارشاد فرمایا ہے: “اور ان کے کام باہم مشورہ سے ہوتے ہیں۔” اسی طریقے سے اُم المو منین حضرت عائشہ ؓ نبی اکرم ﷺ کے بارے میں ارشاد فرماتی ہیں : “میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا جو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ لوگوں سے مشورہ کرنے والا ہو۔” (ترمذی(

چونکہ مشورہ ایک ایسا عمل ہے جس سے کسی کام کا بگڑنا یا بننا وابستہ ہے اسی وجہ سے سب سے پہلے مر حلے میں مشورہ دینے والے کا مخلص ہونا ضروری ہے کیونکہ کوئی ایسا شخص ہر گز مفید مشورے نہیں دے سکتا جس کے من میںکھونٹ ہو یاجو کسی کے کام کو بنانے کے بجائے بگاڑنا چاہتا ہو۔ اسی طریقے سے مشورہ دینے والے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جس معاملہ میں اس سے مشورہ طلب کیا گیا ہے وہ اس معاملے میں ماہر ہو یا کم از کم اُس کی سمجھ رکھتا ہو،بصورتِ دیگر اسے چاہئے کہ وہ صحیح شخص تک مشورہ طلب کرنے والے کی رہنمائی کر دے۔

مذکورہ معاملہ کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ہمیں مکان بنانا ہے تو مشورے کے لئے ہمیں کسی انجینئر کے پاس جانا ہوگا کیونکہ وہ اس شعبے میں ماہر ہے اور وہی صحیح مشورہ دے سکتا ہے ،لیکن اگر ہم اِس تعلق سے مشورہ لینے کسی ڈاکٹر کے پاس پہونچ جاتے ہیں تو وہ چاہے کتنا بھی ماہر ڈاکٹر ہو ،وہ ہمیں اِس حوالے سے قابلِ اعتماد اور انجینئر جیسا بہتر مشورہ نہیں دے سکتا۔بعینہ یہی معاملہ شرعی اور دینی اُمور کا ہے ،اِس کی جانکاری کے لئے معتبر اور مستند ذریعہ علمائے کرام اور مفتیانِ عظام ہی ہیں۔

انتہائی افسوس کے ساتھ اِس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ آج ہم میں سے ایک بڑے طبقے کا اور بطورِ خاص نوجوانوں کا یہ رجحان بن چکا ہے کہ وہ بِلا طلب،بِلا ضرورت اور حد تو یہ ہے کہ متعلقہ معاملے کی جانکاری کے بغیر مشورہ دینے کا عادی بن چکا ہے۔ اب تو حال یہ ہوچکا ہے ،جسے دیکھو ایسا معلوم ہوتا ہے وہ مشورے کی دوکان کھول کر بیٹھا ہے اور مفت مشورے بیچ رہا ہے۔

 جس طرح مقرر کے لئے ضروری ہے کہ سامنے سامعین ہوں ،کیونکہ اگر سب مقرر بن جائیں گے تو تقریر کون سنے گا اور تقریر کا کیا فائدہ ہوگا؛ بعینہ اسی طریقے پر مشورہ دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ مشورہ پر کچھ لوگ عمل کرنے والے بھی ہوں،کونکہ اگر سبھی صرف مشورہ دینے کا کام کرنے لگیں تو مشورہ پر عمل کون کریگا اور مشورے کا فائدہ کیا ہوگا۔

مذکورہ حوالے سے اگر ہم امت مسلمہ کا انصاف کے ساتھ جائزہ لیں گے تو اس نتیجے پر پہونچ یں گے کہ اِس ملت کی اکثریت صرف دوسروں کو مشورہ دینے اور تنقید کرنے میں لگی ہے۔مثال کے طور پر ملت کی تعلیمی پسماندگی کی سبھی دُہائی دے رہے ہیں اور اُ س کو دور کرنے کے لئے لمبے چوڑے پلان بھی پیش کر رہے ہیں لیکن گنتی کے چند لوگوں اور جماعتوں کے علاوہ کوئی اُن منصوبوں کو زمینی سطح پر اتارنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ ایسے میں محض مشورے کس کام کے ہونگے ،اِس کو ہم میں کا ہر صاحبِ عقل بآسانی سمجھ سکتا ہے۔

یہاں اِ حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ کچھ اعلیٰ دماغوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے قوم و ملت کی رہنمائی کے لئے پیدا فرمایا ہے ،اسی وجہ سے اِن لوگوں کے مشورے کو عام مشورہ سمجھ کر نظر انداز کر دینا بھی نا عاقبت اندیشی کی بڑی دلیل ہوگی۔لہذا صاحبِ وسعت افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ اـن کے مشوروں کو عملی شکل دینے کی کوشش کریں،کیونکہ عوام الناس کا مفاد اس سے وابستہ ہوتا ہے۔

زیرِ نظر مضمون میں اِس نکتے کا سمجھنا بھی اہم ہے کہ جب کوئی کام ماہرین کے مشورے سے شروع کر دیا جائے تو صرف اِس وجہ سے کہ وہ کام یا طریقہ کارہماری سوچ سے میل نہیں کھاتا ہمیںمخالفت نہیں کرنی چاہئے؛کیونکہ بہت ممکن ہے کہ آپ کی جو سوچ ہے اُس کے مقابلے میں ماہرین کی سوچ بہتر اور موقع کے مناسب ہو۔بسا اوقات ایسا ہوجاتا ہے کہ ہمارے مخالفانہ روش سے کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوجاتی ہے اور فائدے کا تناسب گھٹ جاتا ہے۔

اخیر میں ہم سب کو یہ سمجھنا ہے کہ آج ملتِ اسلامیہ کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک مشورہ دینے والے دانشمند،منصوبہ ساز اور بہترین پالیسی بنانے والے افراد موجود ہیں لیکن بطورِ ملت ہم اُن کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہیں ،اسی وجہ سے ہمارے مسائل جوں کے توں دھرے ہیں اور نتیجتاً ہمارا کام محض ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کا رہ گیا ہے۔یاد رکھئے !ہمارے اس طرزِ عمل سے ہماری زندگیوں میں تبدیلی نہیں ٓآنے والی ہے؛ کیونکہ تبدیلی کا عمل اپنی ذات سے شرع ہوتا ہے اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اُس کو دوسرے کی ذات سے شروع کرنا چاہتے ہیں ۔جتنا جلدی ہم اس حقیقت کوسمجھ اور قبول کر لیتے ہیں ،اُتناہی یہ ہمارے حق میں بہتر ہے؛کیونکہ انقلاب کا آغاز اسی نکتے سے ہوگا۔