آزادی اظہارِ رائے کا دُہرا معیار

کیا کوئی وزیر اعظم سے معافی منگوانے کے لئے اپنی رائے کے اظہار کے لئے ہمت یکجا کر پائے گا جبکہ اسی ہفتے اعظم خان سے معافی منگوانے کی نظیر ہمارے سامنے موجود ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہو پائے گا اور یہی عصر حاضر میں آزادی اظہارِ رائے کا دُ ہرا معیار ہے۔

مدثر احمد قاسمی

عصر حاضر میں آزدای اظہار رائے بحث کا ایک اہم موضوع ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے اب تمام قوموں کے ذریعہ نوعِ انسانی کا بنیادی حق مان لیا گیا ہے۔ ایک طرف جہاں کسی کے لئے اس کی اہمیت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے وہیں دوسری طرف آزادی اور استحصال کے درمیان فرق کا سمجھنا اور حد فاصل قائم کرنا بھی ضروری ہے،کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی اظہارِ رائے کسی کے لئے آزادی کا مسئلہ ہو لیکن بعینہ اسی وقت وہ کسی کے لئے دل آزاری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔حالیہ دنوںمیں بطورِ خاص اور ماضی میں بھی آزادی اظہار رائے کا سب سے زیادہ منفی استعمال انسانوں نے مد مقابل مذاہب کے لئے کیا ہے۔ دنیا بھر میں مختلف گروہوں کے ذریعہ اسلام کے خلاف زہر اُگلنا اس کی زندہ مثال ہے اور ستم یہ ہے کہ جب مسلمان دفاع میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو اسے اظہارِ رائے کے غلط استعمال کا نام دے دیا جاتا ہے۔پوری دنیامیں یہ دُہرا معیار قائم ہےاور آزاد ی اظہارِ رائے کے پسِ پردہ اسلام پر حملہ جاری ہے۔

طلاقِ ثلاثہ مخالف بل کے دونوں ایوانوں سے پاس ہو جانے کے بعد وزیر اعظم ہندوستان نریندر مودی کا ہی ٹویٹ دیکھ لیجئے جس میں انہوں نے لکھا ہے: “با لآخر ایک قدیم اور فرسودہ نظام تاریخ کے کوڑےدان تک محدود ہو کر رہ گیا !پارلیمنٹ نے طلاقِ ثلاثہ کو ختم کر دیا اور مسلم عورتوں کے ساتھ ہونے والی ایک تاریخی غلطی کو درست کر دیا۔ یہ جنس کی بنیاد پر انصاف کی ایک فتح ہے ،اس سے سماج میں مساوات کو ترقی ملے گی۔” کیا یہ اسلام کے نظام پر چوٹ نہیں ہے؟ کیا یہ آزادی اظہارِ رائے کا منفی استعمال نہیں ہے؟کیا یہ مسلمانوں کی دل آزاری نہیں ہے؟ اسلام کی تعلیمات کی گہرائی اور حکمت کو سمجھنے والا ہر فرد اس کا فیصلہ بآسانی کر سکتا ہے۔ کیا کوئی وزیر اعظم سے معافی منگوانے کے لئے اپنی رائے کے اظہار کے لئے ہمت یکجا کر پائے گا جبکہ اسی ہفتے اعظم خان سے معافی منگوانے کی نظیر ہمارے سامنے موجود ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہو پائے گا اور یہی عصر حاضر میں آزادی اظہارِ رائے کا دُہرا معیار ہے۔

اسلام کا نظریہ آزادی اظہارِ رائے کے حوالے سے با لکل مختلف ہے۔اسلام کا ماننا ہے کہ چاہے انسان مسلم ہو یا غیر مسلم اُن کے اپنے جذبات ہوتے ہیں ، جن کو نہ ہی الفاظ کے ذریعے اور نہ ہی کسی دوسرے طریقِ اظہار کے ذریعے ٹھیس پہونچا نا چاہئے۔کوئی ایسی بات جس سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوں ،اس حوالے سے اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں: ” اللہ تعالیٰ بُری بات کو زور سے کہنا پسند نہیں کرتے۔” (سورہ نسا ء 148)یعنی بُری بات کا زبان پر لانا بھی بُرا ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے دوسروں کو تکلیف پہونچتی ہے،لہذا ہر ایسی بات سے ہمیں بچنا چاہئے جو لوگوں کے لئے تکلیف دہ ہو۔

اپنی بات دوسروں کے سامنے کب رکھنی ہے یا اس کا اظہار کس مقصد سے کرنا ہے ،اُس حوالے سے بھی قرآن مجید میں اللہ تبارکو تعالیٰ نے ذمہ داری طے کر دی ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: “تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جو نیکی کی طرف بلاتی رہے،بھلائی کا حکم دیا کرے اور برائی سے روکتی رہے۔ (آل عمران 104) یہاں بات رکھنے یا اظہار رائے کی اجازت بلکہ حکم دو بنیادوں پر دی گئی ہے ۔(1)آپ کی بات سے سماج میں نیکیوں کا چلن ہوجائے (2) اور آپ کی بات سے سماج میں بُرائی کا خاتمہ ہوجائے۔ اگر اظہارِ رائے میں صرف ان دوباتوں کا خیال رکھیں گے تو دوسروں کے جذبات مجروح ہونے کے بجائے ،انہیں ایک خوشگوار احساس ہوگا اور اس طرح معاشرےمیں امن و سکون کا ماحول قائم ہوجائے گا۔

خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو اچھی چیز کے تعلق سے بولنے اور اظہارِ رائے کی آزادی دی گئی ہے،چاہے وہ بات مسلمانوں سے متعلق ہو یا اس کا تعلق پوری انسانیت سےہو۔ اسی طریقے سے مسلمانوں کو بری بات اور دل آزادی کے کلمات زبان پر لانے سے منع کیا گیا ہے چاہے ان سے کسی کے بھی جذبات مجروح ہوں۔ ایک حدیثِ پاک میں نبی اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: “جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ بھلائی کی بات کہے یا خاموش رہے۔” (متفق علیہ)

جب برائی روکنے کے حوالے سے اظہارِ رائے یا اپنی بات رکھنے کامعاملہ درپیش ہو تو اسلام نے اِس تعلق سے ایک انتہائی خوبصورت پیغام دیا ہے اور وہ یہ کہ رائے کا اظہار اُس بُرائی کے بارے میں ہونا چاہئے نہ کہ اس میں ملوث افراد کو لعن طعن کا شکار کر ۔نبی اکرم ﷺ نے اپنی پوری زندگی اسی اُسلوب پر عمل کیا اور اسی کی تعلیم دی ۔ اس کے بر خلاف جب ہم موجودہ زمانے کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہم بُرائی کے بجائے محض بُرائی کرنے والے کو اپنے الفاظ کے تیر کا نشانہ بناتے ہیں جس سے بُرائی کے کم ہونے کے بجائے بڑھنے کا امکان زیادہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کو دئے گئے حکم کے حوالے سے فرماتے ہیں: “لوگوں سے بھلی بات کرنا۔”(سورہ بقرہ 83) اس ہدایت سےحکمت اور خوش خلقی سے بات کرنے کی اہمیت جگ ظاہر ہے۔

ہر مسلمان کا یہ یقین ہے کہ اسلام ایک سچا مذہب ہے اس کے باوجود اسلام کی کسی تعلیم سے مسلمانوں کی یہ حوصلہ افزائی نہیں ہوتی کہ وہ دوسرے مذاہب کے بارے میں غلط زبان کا استعمال کریں۔اس وجہ سے مسلمانوں کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے بارے میں تلخ اور تُرش زبان استعمال کریں ۔غور کریں کہ اسلام میں جب یہ معاملہ ایک یقینی سچائی کے تعلق سے ہے تو عام سچائی اور زندگی کے دیگر حقائق کے بارے میں غلط زبان کے استعمال کی یہاں اجازت کیسے ہو سکتی ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو اچھی بات کرنے کا حکم اور بُری بات سے روکنے کی ہدایت دی گئی ہے ،لہذا مسلمان جب بھی اپنی ذمہ داری ادا کریں تو انہیں چاہئے کہ بہترین اور مہذب ترین زبان کا استعمال کریں کیونکہ بصورتِ دیگر مسلمان بھی اسی صف میں کھڑے نظر آئیں گے جہاں سے لوگ آزادی اظہار رائے کا بھر پور استحصال کرتے ہیں۔

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں