سنتِ ابراہیمی جذبہ قربانی کا استعارہ ہے

مدثرا حمد قاسمی  

اسلام میں خوشی کے جتنے مواقع ہیں ،اُن سب کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی عظیم پیغام پوشیدہ ہے۔اس تناظر میں عید اور بقر عید میں بھی ہمارے لئے خوبصورت پیغامات موجود ہیں۔اگر ہم اُن کی روح کو سمجھ کرجشنِ عید مناتے ہیں تو ہم مقاصدِ شریعت کو عملی جامہ پہنانے والے قرار پاتے ہیں اور اگر مقاصد کو نظر انداز کر کےمحض خوشی میں مگن ہوکر وقت گذار دیتے ہیں تو یہ صرف ایک رسم بن جاتا ہے جو کہ اسلام میں مطلوب ہی نہیں ہے۔ اسی لئے ہمیں عید الاضحیٰ کے پُر مسرت موقع پر غور و فکر کے ساتھ اس کے پیغامات اور ہدایات کو سمجھ کر انہیں اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا چاہئے۔

جب ہم فلسفہ قربانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ محض عبادت نہیں بلکہ اللہ رب العزت سے محبت کی ایک عظیم الشان نشانی ہےجس کو خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پیش فرمایاتھا۔ عزیمت و استقامت کی اس لازوال داستان کو قرآن مجید نے انتہائی دلکش پیرائے میں بیان کیا ہے:

“چنانچہ ہم نے اُس کو ایک بردبار بیٹے کی خوشخبری دی، پھر جب وہ ابراہیم کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہونچ گیا تو ابراہیم نے کہا:اے میرے بیٹے!میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں تو تم سوچ لو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟بیٹے نے کہا:آپ کو جو حکم ہوا ہے، اسے کر گذرئے،ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے؛چنانچہ جب دونوں نے (حکم الٰہی کے سامنے) سر جھکا دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا،تو ہم نے اس کو آواز دی: اے ابراہیم!یقیناً تم نے خواب کو سچ کر دکھا یا،ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔حقیقت میں یہ ایک بڑا امتحان تھا، ہم نے ایک بڑا ذبح کیا ہوا جانور اس کے فدیہ میں دیااور ہم نے اُن کا ذکرِ خیر بعد کے آنے والوں میں باقی رکھا،سلام ہو ابراہیم پر۔”(سورہ صافات101تا 109 ترجمہ ماخوز از آسان تفسیر)

اللہ تبارک و تعالیٰ سے محبت ایمانِ کامل کی علامت ہے اور اس محبت کے کھرا اور کھوٹا ہونے کا پیمانہ احکامِ الٰہی کی تکمیل اور عدمِ تکمیل ہے۔یقیناً حکمِ الٰہی کی تعمیل کی اس سے بڑھ کر اور کوئی مثال نہیں ہوسکتی کہ ایک بوڑھےباپ کو جب اپنے لخت جگر کو قربان کرنے کا حکم دیا گیا تو وہ اس سے بھی نہ ہچکچایااور اُس منظر کا وہ لمحہ بھی حکمِ الٰہی کی بجا آوری کا انتہائی تابندہ باب تھا جب اُس اولعزم باپ کے حوصلہ مند بیٹے نے بِلا چوںو چرا سرِ تسلیم خم کر دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کو محبت میں قربانی کی یہ ادا اسقدر پسند آئی کہ نہ صرف اُن کے ذکر کو بلکہ ان کے عمل کو بھی شریعتِ محمدی میں لازوال شعار بنادیا۔

مذکورہ واقعہ کے پس منظر میں جب ہم ہر سال بقرعید کے موقع پر جانوروں کی قربانی پیش کرتے ہیں تو گویا ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اے اللہ جس طرح ہم آپ کی خوشنودی کے لئے اس جانور کی قربانی کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اسی طرح ہم آپ کے دیگر احکامات کی تکمیل میں اپنا تن من دھن سب لٹا دیں گے۔چونکہ قربانی کی روح یہی ہے کہ ہمارے اندر دیگر شعبہ ہائے حیات میں بھی قربانی دینے کا جذبہ بھی پیدا ہو ،اسی وجہ سے بقرعید کے موقع پر اُس جذبہ کو بیدار کرنے کے لئےجانور کی قربانی ہی ضروری ہے۔یہیں سے ہمیں یا بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ قربانی کا اولین مقصد غریبوں کو کھلانا نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو قربانی کی جگہ ،اس مال کے ذریعہ غریبوں کی مدد کا فی ہوجاتی لیکن شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی ہے ۔یہی نکتہ جواب ہے اُن لوگوں کا جو یہ کہتے ہیں کہ قربانی میں خطیر رقم خرچ کرنے کے بجائے اسے دیگر رفاہی کاموں میں لگایا جانا چاہئے۔

اسی طرح حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلا کے عمل سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے ک کہ قربانی دینے والے افراد آباد ہوتے ہیں برباد نہیں۔بلاشبہ اگر ہم بقرعید کے موقع پر اپنی قربانی سے اس نکتہ کے اسرار کو سمجھ لیں تو موجودہ وقت کے ہمارے بہت سارے مسائل اسی سےحل ہوجائیں گے۔ کیونکہ اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ اپنے آپ میں گم ہوجانا اور دوسروں کے لئے قربانی دینے کے جذبے کا مفقود ہوجانا ہے۔ایسے میں مسلمان آباد ہوں گے یا برباد اس کا فیصلہ ہر ذی شعور از خود کر سکتا ہے۔

آیئے عید الاضحیٰ کے اس مبارک موقع سے ہم یہ عہد کریں کہ ہم سنتِ ابراہیمی کو ادا کرنے کے ساتھ زندگی کے دوسرے شعبوں اور مواقع پر بھی قربانی پیش کریں گےاور انسانیت کی سر بلندی،کامیابی اور امن و آشتی کے لئے ہم مکمل طور پر قربانی کا استعارہ بن جائیں گے۔ ان شا ء اللہ 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں