پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
صدیوں تک عالم اسلام کی قیادت کرنے والے ترکی کے ایک معمولی باشندہ کوسٹ گا رڈ کے گھر میں 1954 میں ایک بچہ پیدا ہوتاہے ،بحر اسود کے ساحلی اطراف میں واقع ’’ریز‘‘ نامی گاؤں میں اس کی نشو نماء ہوتی ہے،اسلامی فکر شروع سے ان پر حاوی ہوجاتی ہے ،نماز کی ادئیگی ، مسجدوں میں جاکر خدا کی بندگی اور قرآن کریم کی تلاوت کی پابندی شروع سے ان کی زندگی میں پائی جاتی ہے ،بچپن کے اسی زمانے میں مسجد کے امام کا یہ جملہ ان کے گوش گزار ہوا’’ اگر آپ کو ترک عوام کے دلوں پر حکمرانی کرنی ہے تو پھرسیکولر قوتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بجائے اْنہیں اْنہی کے میدان میں شکست دینی ہوگی، وہ جمہوریت کانام لے کر تم پر مسلط ہیں، تم بھی عوام کی خدمت سے اپنی تعداد بڑھاؤ اور ان پر غالب آجاؤ‘‘، تیرہ سال کی عمر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ وہ ترکی کے تاریخی شہر استبول منتقل ہوگیا،استنبول کی مرمرا یونیورسیٹی میں داخلہ لیا ،طالب علمی کے دوران اپنے اخراجات کیلئے انہوں نے شکنجی اور نان فروخت کی ،فٹبال کے کھیل میں مہارت حاصل کرکے خاصی شہرت حاصل کی،یونیورسیٹی میں پڑھنے کے دوران اس نوجوان کی ملاقات نجم الدین اربکان سے ہوئی جنہوں نے اس کے اندر چھپے جوہر کو پہچان لیا اور اس تربیت وسرپرستی شروع کردی اور کچھ ہی دنوں میں قومی نجات پارٹی کی نوجوان شاخ کی ذمہ داری اس کے سپرد کردی ۔
1994 میں یہ یہ نوجوان استنبول کا میئرمنتخب ہوکر عوام کے دلوں پر حکمرانی شروع کردی ،ناقدین اور مخالفین نے بھی اس کی خوبیوں اورصلاحیتوں کا اعتراف کیا ،میئر بننے کے بعد اس نوجوان نے قومی وبین الاقوامی سیاست میں قدم رکھ دیا، اپنی سیاسی زندگی کا آغاز نجم الدین اربکان کے بتلائے ہوئے راستہ پر گامزن ہو کر کیا ،اپنے لئے نشان راہ بچپن میں مسجد کے امام سے سنے ہوئے اس جملے کو بنایا،انھوں نے سرعام وطن پرستی میں ڈوبنے کی بات کی ، مسجدیں کو چھاونیاں ، گنبدوں کو حود، میناروں کو سنگینیں اور مومن کو سپاہی قراردیا ۔اس بے مثال اقدام کے بعد کامیابی وکامرانی مسلسل اس کے قدم چومتی رہی ،قومی وبین الاقوامی سیاست میں اس کی آمد سے ہلچل مچ گئی ،اس کی حسن تدبیر اور بے مثال حکمت عملی کے سامنے دشمنوں کی تدبیریں الٹی پڑگئیں ،عالمی سیات کے ہیرو کا خطاب مل گیا،تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوکر ترکی کو معاشی اور اقتصادی سطح پر دنیا کی سپر پاور طاقتوں اور یورپین ممالک کے قریب کردیا ،ایک نیا آئین نافذ کرکے براہ راست پہلے صدر بننے کا اعزاز حاصل کیا ،اپنے اسلامی افکار ،شریعت سے ہم آہنگ مزاج اور امت مسلمہ کیلئے دردمند دل رکھنے کی بنا پر مسلم دنیا کو ایک اور صلاح الدین نظر آنے لگا۔
ان خوبیوں اور اوصاف کے حامل شخص کو دنیا رجب طیب اردگان کے نام سے جانتی ہے ،جسے مسلمان صلاح الدین ایوبی ثانی کے لقب سے نوازتے ہیں اور اہل ترکی سلطان کہ کر پکارتے ہیں ،ان کی آمد سے اہل وطن خلافت عثمانیہ کی یاد محسوس کرتے ہیں،ان کی شخصیت میں وہ فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد ثانی کا عکس دیکھتے ہیں، جس نے ترکوں کی تقدیر بدلی ہے ،وہاں کی حکومت کو مستحکم کیا ہے ،عوام کو خوشحال بنایا ہے،لوگوں کو اسلامی مزاج سے ہم آہنگ کیا ،شریعت اور اسلامی شعار پر عائد پابندیاں ختم کی ہیں، ترکی کو اس کا اصلی اقدار فراہم کیا ہے ،شامی مہاجرین اور دنیابھرکے پریشان حال مسلمانوں کی مدد کی ہے ،غزہ اور فلطسین کیلئے دست تعاون بڑھایا ہے ،اسرائیل اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کیا ہے۔
طیب اردگان کی یہ عظیم کامیابی ،ترکی میں اسلام کا احیاء ،قدیم ثقافت وکلچر کی واپسی اور مسلمانوں کی سربلندی مسلسل اسلام دشمن طاقتو ں کی نظر میں کھٹک رہی ہے ، وہ باربار ترکی کی مضبوط اور مستحکم جمہوری حکومت کو کمزور کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے،کمال پاشا کے دور میں لائی گئی سیکولزم اور جمہوریت کو برقرار رکھنے کیلئے اسلام پسندوں کو وہاں کی سیاست سے ختم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے ،گذشتہ ایک سال میں ترکی جیسے پرامن ملک میں مسلسل کئے بڑے دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں ، دہشت گردی کی شناخت کرنے والی طاقتیں ترکی کے معاملے میں دوہرے پن کا ثبوت پیش کرتی ہے ،ان تمام سازشوں کے پس پردہ صرف ایک ہی مقصد کارفرما رہی کہ ترکی کی عوام کو رجب طیب اردگان سے بدظن کردیا جائے ،انہیں کے ان کے خلاف ورغلایا جائے ،ان کے ذہن ودماغ میں یہ رچابسادیا جائے کہ طیب اردگان کی قیادت میں ترکی خانہ جنگی کا شکار ہوگیا ہے ،حکومت ان کے کنٹرول میں نہیں ہے ،ایڈمنسٹریشن کا نظام خراب ہوگیا ہے لیکن ان تمام تدبیروں اور چالوں کے الٹے پڑجانے اور ترکی کو منتشر کرنے کے منصوبہ میں ناکامی ملنے کے بعد گزشتہ 16 جولائی کو وہاں فوجی بغاوت کے ذریعہ ایک منتخب حکومت کا تختہ پلٹ کر فوجی آمریت کو بحال کرنے کی ناکام سازش کی گئی ،صدراتی محل ،پارلمینٹ ، ایئر پورٹ اور عوام مقامات پرراکٹ ڈاغے گئے ،ٹینکوں اور فوجوں سے تمام راستوں کو بند کردیا گیا ،فوج نے سرکاری ٹی وی ٹی آر ٹی پر قبضہ کرکے یہ اعلان کردیاکہ ترکی میں انسانی حقوق کی بڑھتی خلاف وروزی کے پیش نظر حکومت کو برطرف کرکے مارشل لاء نافذ کردیا گیا ہے ،امن کونسل یہاں حکومتی فرائض کو سنبھالے گی،لیکن صد سلام رجب طیب اردگان کو جنہوں نے مشکل وقت میں حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے عوام کی عدالت میں دستک دی ،سوشل میڈیا کا استعمال کرکے عوام سے تعاون کی اپیل کی،مسجد کے میناروں سے اعلان کیا گیا اور یوں تیس لاکھ سے زائد عوام سڑکوں پر نکل کر فوج سے متصاد م ہوگئی ،دنیا نے پہلامرتبہ یہ نظارہ دیکھاکہ فوج عوام کے درمیان گھر گئی تھی ،نہتے لوگ ٹینکوں اور مسلح افواج کا مقابلہ کررہے تھے ، ایک صدی قبل اتحادی افواج کو ناکوں چنے چبوانے والی ترک فوج شکست فاش تسلیم کرکے عوام سے اپنی جان کی پناہ چاہ رہی تھی۔
ترکی میں ہونے والی اس بغاوت کے پس پردہ کون ہے ،کیا اسباب وجوہات ہیں ،کون سی طاقتیں کارفرما ہیں اور ان لوگوں کا کیا انجام ہونا چاہیئے جواس میں ملوث تھے ان سب سے قطع نظر سب سے اہم اور قابل توجہ امر عوام کی رجب طیب اردگان سے پناہ اور بے لوث محبت ہے جس نے صر ف سوشل سائٹ’’ فیس ٹائم ‘‘کے ذریعہ کی گئی اپیل پر تیس لاکھ سے زائد تعداد میں نکل کر پور ی دنیا کو یہ پیغام دیاکہ ترکی کی عوام اپنے محبوب قائد کے ساتھ ہے ، اس کو کمزور کرنے کی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی ہے ۔رجب طیب اردگان کی سیاسی زندگی کا یہ سب سے قابل فخر پہلو ہے جس میں دنیا بھر کے حکمرانوں کیلئے درس عبر ت موجود ہے ، ان کیلئے ایک پیغام پنہا ہے کہ حکومت اقتدار و منصب کے حصول کا نام نہیں ہے ،صد ر جمہوریہ اور وزیر اعظم کا خطاب مل جانا کوئی معنی نہیں رکھتا ،اصل چیز عوام کے دلوں پرحکمرانی ہے ، ان کے قلوب پر فتح حاصل کرناہے اور رجب طیب اردگان کو الحمد للہ یہ خصوصیت حاصل ہے ،ان کی حکمرانی عوام کے دلوں پر چلتی ہے ۔
Stqasmi@gmail.com