بی جے پی کی ایک بار پھر فرقہ پرستی کی چنگاری کو ہوادینے کی کوشش

محمد نوشاد عالم ندوی
بی جے پی ہمیشہ کسی بھی انتخاب کے قریب آتے ہی مذہبی اورحساس مسئلہ کو ایشوبنا کر ملک کے عوام کے جذبات سے کھلواڑ کرکے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ آئندہ سال چونکہ اترپردیش، بنگال اور آسام وغیرہ دیگر ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں جس کی تیاری میں بی جے پی اور اس کی ہم خیال تنظیمیں اپنی سابقہ روش کے عین مطابق زمین کو ہموار کرنے میں ہمہ تن مصروف ہوگئی ہیں۔ اس حکمت عملی کو مستحکم کرنے کے لیے اس نے ایک پھر سے رام مندر جیسے حساس مسئلہ کو انتخابی موضوع بنایا ہے۔اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے دسمبرء میں مندر کی تعمیر کے لئے راجستھان سے پتھر لائے گئے ، اور شیلا جن پوجا بھی ہوا۔
اس بات سے انکار کی قطعی گنجائش نہیں کہ فرقہ واریت اور فسادات کی پشت پناہی کے پیچھے سیاست کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے اور ہندوستان میں یہ انگریزوں کی دین ہے۔ جب انگریز ہندوستان میں داخل ہوئے تو اپنی حکومت چلانے کے لیے انھوں نے ایک گھناؤنی چال چلی پھوٹ ڈالواور اقتدار حاصل کرو ، جس کو موجودہ عہد میں آرایس ایس، بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، سناتن سنستھا، اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا، گؤ رکھشا سمیتی، ہندو سوراجیہ پرتشٹھان، ہندو سینا، ابھینو بھارت اورہندو جاگرتی منچ جیسی ہندو انتہا پسند جماعتوں نے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کو آلودہ کرنے کے لیے کو اسی پالیسی کو اپنالیاہے۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ آسام اور بنگال سے قبل اترپردیش میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، یہ وہی ریاست ہے جس کا ملک کے سیاسی نظام میں ممتاز مقام ہے اور بلاشبہ مرکز پر اقتدارکے راستے اسی ریاست سے جاتے ہیں جیسا کہ ء کے عام انتخابات میں دیکھنے کو ملا، اسی کیساتھ یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ اسی ریاست نے ملک کو تقریباً وزرائے اعظم دیے ہیں۔
حالانکہ اتر پردیش میں ابھی اسمبلی انتخابات میں کافی وقت ہے، لیکن سیاسی پارٹیوں نیاس کی تیاری پوری طرح شروع کردی ہے۔ بی جے پی جس کے حوصلے مہاراشٹر، ہریانہ اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد کافی بلند تھے اور اس کے رہنما بڑی بڑی باتیں کرتے نہیں تھک رہے تھے، دہلی اور بہارکیعوام نے ایسا سبق سکھایا کہ چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں کے بھی ہوش اڑا دیے۔ امت شاہ اور مودی کی ساری تدبیریں یہاں ناکام ثابت ہوئیں۔ دہلی اور بہار کے عوام نے اپنی دانشمندی سے بی جے پی کو چاروں شانے چت کرکے بی جے پی کو جوپیغام دیاوہ اپنی مثال آپ ہے۔
اس کے لیے دہلی اوربہار کے عوام کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے،کیونکہ فرقہ پرست جماعتوں کی طرف سے یکے بعد دیگریکئی واقعات سے ملک کے جو حالات پیدا کردئے گئے تھے اس سے دانشور طبقہ و عوام دونوں بخوبی واقف ہیں۔ اگریہاں عوام سے ذرا بھی چوک ہوئی ہوتی تو کچھ نہیں کہا جاسکتا تھاکہ اس وقت ملک کے کیا حالات ہوتے۔
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
اس بات سے بھی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ مرکز میں بی جے پی کی سرکار بننے کے پیچھے جہاں متعدد وجوہات ہیں،ان میں ایک اہم وجہ مسلم اور سیکولر رائیدہندگان کا انتشار بھی ہے۔بہار کے رائے دہندگان نے اس خطرہ کے پیش نظر جس ہوشمندی اور عقل و خرد سے کام لیا اس کو تاریخ کے سنہرے اوراق میں لکھا جاچکا ہے۔
بی جے پی نے اترپردیش اسمبلی انتخابات ء کے لیے ایک بار پھررام مندر کا ایشو اچھال کر سیکولر ووٹروں کو منتشر کرنے اور اپنے حق میں فرقہ پرستوں کو متحد کرنے کا پوری طرح سے من بنالیا ہے، کیونکہ بی جے پی کی سیاست ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ فرقہ پرستی کی چنگاری کو شعلہ جوالہ بنایا جائے، تاکہ اس کی چنگاری مسلم اور سیکولر ووٹوں کے انتشار میں اہم رول ادا کرے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دینے والی بی جے پی اور مودی حکومت کی پوری توجہ بھی اسی طرف مرکوزہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے سینر لیڈر سبرامنیم سوامی نے متھرا میں کرشن مندر اور کاشی میں شیومندر کا سوشہ بھی چھوڑ دیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی نے ء کیلئے مہابھارت چھیڑ دیاہے۔ اور یہ سچ بھی ہے کہ بی جے پی کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا کامیاب فارمولہ نہیں بچا ہے۔ اسی منصوبے کے تحت بی جے پی روازنہ فرقہ پرستی کو ہوا دے کر اترپردیش سمیت پورے ملک کا ماحول خراب کرنے پر آمادہ ہے۔
آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے اس منصوبے کو مزید وسعت دینے کے لئے یونیورسٹیوں اور کالجوں کا سہارالے رہے ہیں۔ اب یہ لوگ رام مندر کے لیے تعلیمی اداروں میں سمینار اور کانفرنس کرکے طلبہ اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ پہلے یہ کام کمبھ میلوں اور مذہبی اجلاس میں ہی ہواکرتا تھا، لیکن مودی حکومت نے الہ آباد، بنارس اور پھر دہلی یونیورسٹی جیسے مشہور ومعروف تعلیمی اداروں میں اس تحریک کو فروغ دینا شروع کردیا ہے۔یہ اور بات ہے کہ سیکولر عوام کی جانب سے اس کی مخالفت بھی ہو رہی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی ملک میں سیکولر رائے دہندگان کا سیاسی شعور زندہ و تابندہ ہے۔
تند باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
مگر عوام کو بی جے پی کی سیاسی چال اور پولرائزیشن کی کوشش کو بہت سنجیدگی سے لینا ہوگا اور اس کے لیے ٹھوس اور مضبوط قدم اٹھانا وقت اور حالات کی ضرورت ہے۔بالخصوص یوپی کے عوام کو بہار الیکشن کے نتائج کے وجوہات کو سمجھنا ہوگا، اور اسی انداز میں جواب بھی دینا ہوگا۔یقین جانئے!یہ تعصب اور مسلم دشمنی نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری قوم اور ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ یاد رکھئے فرقہ پرستی کی اس آگ کو اگر بروقت نہ بجھائی گئی تو اس سینہ صرف اقلیتوں کا جینا محال ہوگا بلکہ ملک میں سالمیت اور مذہبی پاسداری خطرے میں پڑ جائے گی۔ لہٰذا آج ہندوستان کے ہرفرد کو بالخصوص اترپردیش کے نوجوانوں کو اورسیکولر ذہن رکھنے والوں کو اس کے لیے آگے آنا ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ انقلاب، دہلی میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں )

SHARE