ناکام بغاوت اور ترک قوم کی بے مثال شجاعت

سر دیوار:نزہت جہاں
ترکی مسلم دنیا کا ایک اہم ترین ملک ہے ،خلافت بنو امیہ اور خلافت عباسیہ کے بعد مسلم دنیا کی اہم ترین قیادت خلافت عثمانیہ کی بنیاد اسی ملک میں پڑی اور کئی صدیوں تک اس ملک نے عالم اسلام کی قیادت کی ، لیکن بیسویں صدی کے آغاز میں برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کی طاقت کو پاش پاش کرکے ٹکروں میں تقسیم کردیا اور یوں مسلمانوں کی متحدہ حکومت کا نہ صرف خاتمہ ہوگیا بلکہ خلافت کا ہی نام ونشان مٹادیا گیا آج مسلمانوں کی کمزور ی اور عالم اسلام کے زوال کی بنیاد ی وجہ اسی خلافت کا عدم وجود ہے ،مسلمان دنیابھر میں پریشان اس لئے ہے کہ خلافت کا خاتمہ ہوچکا ہے ،ان کے پاس کوئی متحدہ محاذ نہیں ہے ۔بہر حال مصطفے کمال اتاترک نے ترکی کو انگریزوں کی غلامی سے بچاتے ہوئے ایک سیکولر اسٹیٹ کی بنیاد رکھی ،سیاست میں انہوں نے عرب اور ایشائی ممالک کو نمونہ بنانے کے بجائے یورپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی ،ترکی کے مذہبی اقدار کو ختم کرکے سیکولزم اور لبرلزم کو بحال کرنے کا سلسلہ شروع کیا ،دینی تعلیم سیکھنے اور اسلامی شعائر کو اپنانے پر پابندی عائد کردی ،لیکن عوام نے مصطفے کمال اتاترک کی مذہب بیزار اور سیکولرزم تحریک پر کوئی توجہ نہیں دی ، انہوں نے مذہب بیزا ر حکومت کے زیر سایہ رہنے کے باوجود مذہب سے اپنا رشتہ ختم نہیں کیا،رفتہ رفتہ وہاں نجم الدین اربکان اور طیب اردگان جیسے باکمال اور باشعور لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے ترکوں کی سیاست کے ساتھ مذہبی دنیا میں بھی قیادت کی اور سیاست سے مذہب کو جوڑ کر تر ک قوم کو ایک نئی راہ دکھلائی ، یوں ترک قوم ایک مرتبہ پھر اپنی پرانی روشن پر گامزن ہوگئی ،انہیں مذہب پر عمل پیراہونے اور دینی علوم سیکھنے کی مکمل آزادی مل گئی ،وہ اقتصادی اور سماجی سطح دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے مساوی ہوگئے ،انہوں نے اپنا موازنہ ایشاء اور عرب سے کرنے کے بجائے یورپ سے کرنا شرع کردیا ،اپنی ترقی کا پیمانہ انہوں نے برطانیہ اور یورپ کے ملکوں سے کیا چناں چہ آج ترکی کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتاہے ،یورپین اقوام کی طرح وہ تر قی پذیر اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہے ۔
ترکی کی اس پوری کامیابی اور عظیم خوشحالی کاسہرامسلم دنیا کے ہر دلعزیز لیڈر جناب رجب طیب اردگان کے سر جاتاہے جنہوں نے تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوکر ترکی میں ایک نئے انداز کی سیاست کی ،عوام کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ،دنیا بھر کے مسلمانوں میں قبولیت ملی ،فلسطین اور شام کے مسلمانوں کیلئے دست تعاون دراز کیا ،ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف آوازیں بلندکی ،ترکی کو ہر سطح پر کامیابی دلائی ،اس طرح دنیا بھر میں طیب اردگان کی شہرت ہوگئی ،انہوں نے امریکہ ،روس اور فرانس سمیت متعدد سپر پاور طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا شروع کردیا ۔

فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے بعد عوام جشن مناتے ہو‏ئے
فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے بعد عوام جشن مناتے ہو‏ئے

ایک صحافی کے تجزیہ کے مطابق ترکی میں جب طیب اردگان نے حکومت سنبھالی تو 2002سے 2012 کے درمیان ترکی کے جی ڈی پی میں 64فیصد اضافہ ہواانفرادی سطح پر اقتصادی ترقی کی شرح میں 43فیصد اضافہ ہوا۔اردگان کے 2002میں اقتدار سنبھالتے وقت ترکی کو بھی آئی ایم ایف نے اپنے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا اور ترکی 23بلین ڈالر کا مقروض تھا، اردوغان نے حکومت سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کی سازشوں میں نہ آنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مزید قرضہ لینے سے انکار کردیا اور پرانا قرضہ ادا کرنا شروع کردیا، 2012میں یہ قرضہ صرف 9۔0بلین ڈالر رہ گیا تھا، جس کی ادائیگی کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے ترکی کے قرضہ ادا کردینے کا اعلان کردیا گیا اور اسی سال طیب اردگان نے اعلان کیا کہ اگر آئی ایم ایف کو قرضہ درکار ہو تو وہ ترکی سے رجوع کرسکتا ہے۔2002 میں ترکش سینٹرل بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 5۔26ملین ڈالر تھے جو 2011میں بڑھ کر 2۔92بلین ڈالر ہوچکے تھے اور ان میں کامیاب اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا، اسی طرح ترکی میں طیب اردگان کے حکومت سنبھالنے کے بعد صرف ایک سال میں ہی مہنگائی میں 23 فیصد کمی ہوئی جس سے ترک عوام کو براہ راست فائدہ ہوا۔ اسی طرح 2002 میں ترکی میں ہوائی اڈوں کی تعداد 26تھی جو اب بڑھ کر 50ہوچکی ہے۔ 2002سے 2011کے درمیان ترکی میں 13500کلومیٹر طویل ایکسپریس وے تعمیر کی گئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایکسپریس وے کی تعمیر کے ٹھیکے اپنے رشتہ داروں یا پارٹی رہنماؤں کو دینے کے بجائے کے میرٹ پر بین الاقوامی سطح پر اچھی شہرت کے حامل اداروں کو دئے گئے۔ ترکی کی تاریخ میں پہلی بار تیز ترین ریلوے ٹریک بچھایا گیا اور 2009میں تیز ترین ٹرین ترکی میں متعارف کرائی گئی۔عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے ان 8سالوں کے دوران تیز رفتار ٹرین کے لئے1076کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا گیا جبکہ 5449کلومیٹر طویل ٹریک کی مرمت کرکے اسے تیز ترین ٹرین کے معیار کے مطابق بنایا گیا۔ اردوگان نے عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے شعبہ صحت میں بڑے پیمانے پر کام کیا، گرین کارڈ پروگرام متعارف کرایا جس کے تحت غریب افراد کو صحت کی مفت سہولیات فراہمی کا سلسلہ شروع کردیا گیا ، صحت کی طرح تعلیم کے شعبہ پر بھی خصوصی توجہ دی گئی اور تعلیم کا بجٹ2002میں 5۔7بلین لیرا سے بڑھا نا شروع کیا اور 2011میں تعلیمی بجٹ 34 بلین لیرا تک پہنچا دیا، قومی بجٹ کا بڑا حصہ وزارت تعلیم کو دیا گیا اور قومی جامعات کا بجٹ ڈبل کردیا گیا، اسی طرح 2002 میں ترکی میں جامعات کی تعداد 86تھیں،اردگان حکومت نے ملک میں یونیورسٹیز کا جال بچھایا اور 2012تک ترکی میں 186میعاری یونیورسیٹیاں تدریسی عمل جاری رکھے ہوئے تھیں، ترکی معیشت کا اندازہ صرف اس نقطہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1996میں ایک ڈالر ، 222لیرا تھا جبکہ اردگان حکومت کی کامیاب اقتصادی پالیسیوں کے بعد آج ایک ڈالر 94۔2 لیرا کا ہے اورہندوستانی کرنسی میں ایک لیرا کی قیمت 22 روپے ہوتی ہے۔
ترکی کی یہ بڑھتی ہوئی کامیابی اور وہاں اسلامی اقدار کی واپسی اسلام مخالف طاقتوں کو برداشت نہیں ہوسکی اور انہوں نے ترکی کو تباہ وبرباد کرنے کیلئے فوج کا سہارا لیا ،امریکہ نے ترکی کے سب سے مطلوب شخص فتح اللہ گولین کو اپنے یہاں پناہ دیکر بغاوت کا اسٹیج تیا ر کروایا اور یوں 15 جولائی کی شب میں فوج کے ایک ٹولہ نے منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرکے یہ اعلان کردیا کہ ترکی کی حکومت کو معطل کرکے یہاں مارشل لاء نافذ کردیا گیا ہے لیکن عوام نے اس بغاوت کو بروقت ناکام بنادیا ،رجب طیب اردگان نے فیس ٹائم کے ذریعہ رابطہ کرکے عوام سے اپیل کی کہ وہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں ،سی این این چینل نے فیس ٹائم پر کئی گئی اپیل کو نشر کرکے اس سلسلے میں موئثر اقدام کیا اور یوں ترک صدر کی اپیل رات کی تاریکی میں ٹی وی دیکھنے والے تمام لوگوں تک پہونچ گئی ،سڑکوں پر تیس لاکھ عوام کا مجمع نکل کر فوج سے متصاد م ہوگیا اور صبح صبح ہوتے جھاگ کی طرح یہ فوجی بہ گئے،عوام نے بغاوت کو ناکام بنانے کی خوشی میں سڑکوں پر فجر کی نماز ادا کی اور فراخ دل صدر رجب طیب اردگان نے جمہوریت کے خلاف اس بغاوت کو ناکام بنانے کا سہرا وہاں کی بہاد اور غیور عوام کے سپرد کردیا ، باسفورس پل کا نام تبدیل کرکے شہداء پل رکھ دیا ،ترک قوم کی اس بے مثال عظمت ،جرات اور شجاعت کو ہم سلام کرتے ہیں ۔
Turkey3ترکی نے اس ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایمرجنسی نافذ کرکے بغاوت میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ بڑے پیمانے پرشروع کردیا ہے ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کسی بھی شخص کو 30دن کیلئے بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھا جاسکتا ہے، کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک 118 جرنیلوں سمیت 7500 فوجیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ 1500ججوں اور 8ہزار پولیس اہلکاروں کو اُن کے عہدے سے ہٹادیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 60ہزار سے زائد افراد حکومتی اقدامات کی زد میں آچکے ہیں۔ یہ کثیر اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بغاوت کیلئے ذمہ دار صرف فوج کو نہیں ٹھہرایا جارہا بلکہ ریاست کے کچھ دوسرے اداروں پر بھی بغاوت کی ذمہ داری عائد کی جارہی ہے، بغاوت میں فتح اللہ گولن کے حامی ترک حکومت کے فوجی و ایئر فورس مشیر اور ڈپٹی چیف آف اسٹاف بھی شامل تھے، بغاوت ختم ہونے کے بعد جس طرح کے انکشافات سامنے آرہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ منظم بغاوت تھی ، ملک کا مختلف محکمہ اس میں شریک تھا جس کے تانے بانے کسی اور ملک میں بنے گئے تھے اور کوئی بیرونی ملک اس کی قیادت وسرپرستی کا فریضہ انجام دے رہاتھا،اسی لئے بغاوت ناکام ہونے کے بعد صدر طیب اردوان نے امریکہ سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ فتح اللہ گولن منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے ذمہ دار اور ماسٹر مائنڈ ہیں جو امریکی ریاست پنسلوانیا سے بغاوت کو کنٹرول کررہے تھے۔
nuzhatjahanmt@gmail.com