سیکولر پارٹیوں کا انتشار اور مسلم رائے دہندگان کی ذمہ داریاں

معاذ مدثر قاسمی
دوہزار انیس کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حیران کن فتح اور سیکولر پارٹیوں کی ناقص کارکردگی کے تقریباً پانچ ماہ بعد پھر ایک بار ملک کے دوصوبے مہاراشٹر اور ہریانہ میں صوبائی الیکشن ہونے جارہے ہیں جہاں چند گھنٹوں بعد ان دونوں صوبوں کے رائے دہندگان اپنا ووٹ ڈال کر سیکولر اور غیر سیکولر پارٹیوں کے نمائندوں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ 24/ اکتوبر کو ان کے نتائج بھی سامنے آجائیں گے، جس کے ساتھ یہ بھی طے ہوجائے گا کہ دونوں صوبوں میں آیا بی جے پی کی موجودہ حکومت کو دوبارہ اقتدار میں رہنے کا موقع ملتا ہے، یا چوطرفہ شکست سے پزمردہ سیکولر پارٹیوں کے اتحاد کو اقتدار نصیب ہوتا ہے۔
دو ہزار انیس کے لوک سبھا الیکشن کے نتائج آنے کے بعد سے ملک کے ہرعام وخاص فرد کے ذہن میں ایک منفی سوچ نے جگہ بنالی ہے۔ اُس وقت کے نتائج سے پہلے ملک کے جو حالات تھے اس سے ایسا لگ رہاتھا کہ کسی بڑی تبدیلی کا امکان ہے۔ اور ایسے آثار بھی ظاہر ہورہے تھے جس سے سیکولر طبقہ مثبت امید کےساتھ پرجوش تھا۔ یہ امید تھی کہ حکمران پارٹی یاتو اپنی حکومت گنوا بیٹھے گی یا پھر بیساکھی کے سہارے اسے مزید حکومت کرنے کا موقع ملے گا، مگر نتائج امید کے بالکل برعکس تھے۔ نتائج ایسے تھے کہ سارے سیاسی پنڈت، حزب مخالف قائدین کے ساتھ ساتھ عام طبقہ بھی انگلشت بدنداں تھا کہ حکومت کی چوطرفہ ناکامی اجاگر ہونے کے باوجود کس طرح اتنے بڑے فرق کے ساتھ اس کو دوبارہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا سنہرا موقع مل گیا۔ حالانکہ اُس وقت ملک میں بےروزگاری ، انارکی، تشدد کاایسا دور دورہ تھا جس سے حکومت کی ناکامی واضح طورپر ظاہر ہورہی تھی، پھر بھی اتنی بڑی کامیابی مل جانا باعث حیرت تھا۔ بہت سے ماہرین نے اپنے طور پر اس کا تجزیہ بھی کیا مگر ایم آئی ایم کےصدر اسد الدین اویسی کا تجزیہ بالکل درست تھا کہ حکومت نے ای وی ایم کے ساتھ نہیں بلکہ ہندوؤں کے ذہنوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی ہے۔ یعنی برادران وطن نے تمام حقیقی مدعوں کو بالائے طاق رکھ کر حکمراں طبقے کے مذہبی نفرت پر مبنی جذباتی بیانات کے جھانسےمیں آکر انہیں بڑی کامیابی سے ہمکنار کردیا۔
حقیت تو یہ اس نتائج نے ساری سیکولر پارٹیوں کی کمر توڑکررکھ دی تھی، ساری پارٹیاں انتشار کا شکار ہوگئیں، ہر کوئی اپنی پارٹی کی ناکامی کا ٹھیکرا دوسروں پر پھوڑنے لگا، ہرکسی کو اپنی پارٹی کا وجود خطرے میں نظر آنے لگا۔
21 اکتوبر کو 90 اسمبلی حلقوں والے ہریانہ اور 288 اسمبلی حلقوں والے مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات کے ووٹ ڈالے جائیں گے، جن کے نتائج 24 اکتوبر آجائیں گے۔ یہ دونوں صوبے مرکزی حکومت یعنی بی جے پی کے زیر اقتدار ہے۔ اس وقت دونوں صوبوں میں مہاراشٹرا کا الیکشن کئی معنی کرکے زیادہ سرخیوں میں ہے۔ یہاں ہمیشہ اور ہر الیکشن سے قبل نوراکشتی کاکھیل کھیلنے والی بی جے پی اور شیوسینا مکمل اکثریت کے ساتھ جیت درج کرانے کے عزم کے ساتھ الیکشن لڑرہی ہے، تو وہیں قومی الیکشن میں بری طرح شکست خوردہ کانگریس اور اس سے نکلی این سی پی دگر حلیف جماعتوں کےساتھ اپنا وجود باقی رکھنے کی خاطر الیکشن لڑرہی ہے۔ ان سیکولر جماعتوں کے اتحاد کافلسفہ بھی عجیب و غریب ہے۔ کانگریس اور این سی پی کے اتحاد میں سماجوادی پارٹی کو آخر وقت میں جزوی طور پر شامل کیا گیا ہے کہ کانگریس کے ساتھ اسکا اتحاد ہے مگر این سی پی کے ساتھ نہیں۔ بہت سی جگہوں پر سیکولر پارٹیاں ہی ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں۔ دو ہزار انیس کا الیکشن ساتھ میں لڑنے والی ایم آئی ایم اور پرکاش امبیڈکر کی ونچت بہوجن اگھاڑی بھی اپنا راستہ الگ کرکے علاحدہ طور پر الیکشن لڑکر اس انتخاب کو مزید پیچیدہ اور سہہ رخی بنادیا ہے۔
اس الیکشن میں بھی ماضی کی طرح حکمراں پارٹی وہی پرانا راگ الاپ رہی ہے، ہندو مسلم کا کارڈ کھیل رہی ہے، زندگی سے جڑے حقیقی مسائل کو موضوع بحث بنانے کے بجائے کانگریس پر الزام تراشی غیر ضروری پرانی باتو کو عوامی مدعا بناکر پیش کررہی ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور نوجوانوں کے مسائل کو مدعا بنانے کے بجائے رام مندر، کشمیر اور ہندومسلم جیسے جذباتی اور مذہبی نعروں کا سہارالیکر عوامی حمایت اپنے پالے میں کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یعنی برادران وطن کے ذہنوں کے ساتھ کھیلواڑ کررہی ہے، جس کا صحیح جواب ، اب تک سیکلو پارٹیاں نہیں دے سکی ہیں۔
ملک کو مسجد مندر، این آرسی اور کشمیر کے علاوہ بہت سے زمینی مسائل اورحقیقی چیلنجز درپیش ہیں مگر حکومت اس سے یکسر غافل ہے اور انہیں سرد بستے میں ڈال کر مذکورہ غیرضروری مدعے کو سنسنی خیز بناکر رائے دہندگان کو لبھارہی ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو مشترکہ طور پر سیکولر پارٹیاں عوامی مدعے کی شکل دے سکتی تھی، مگر انکا انتشار اور پے درپے شکست کی وجہ سے مورلی ڈاؤن ہونے کی وجہ سے ان سب مدعوں کو عوامی سطح پر لانے میں وہ ناکام ہیں۔ اور حکمراں پارٹی ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھاکر چوطرفہ ناکامی کے باجود عوامی سطح پر اپنی بغلیں بجارہی ہے۔
سیکولر پارٹیوں کا مکڑیوں کے جالے سے بندھا ایسا اتحاد جو دراصل ان کے انتشار کا غماز ہے نے سیکولر طبقوں کو بھی شش و پنج میں ڈال دیا ہے کہ آیا اپنا قیمتی ووٹ کس کے حق میں ڈالا جائے۔ ایسا ہمیشہ ہوتا رہا ہے کہ سیکولر طبقہ خاص کر مسلمانوں نے ان سیکولر پارٹیوں کے مفاد پرستی کا خمیازہ بھگتنے کے باجود جمہوریت کے نام اور اسکی بقا کی خاطر بھی ان کو کامیاب کیا ہے، مگر ہمیشہ ان پارٹیوں کے سامنے اپنا مفاد مقدم رہا ہے۔
یہ بھی ایک قابل غور پہلو ہے کہ مہاراشٹرا کے 288 سیٹوں میں سے چالیس سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمان فیصلہ کن اثررکھتے ہیں، مگر جب ہم ماضی کے صفحات پلٹیں گے تو افسوس ناک پہلو سامنے آئیں گے کہ 1962 سے تاحال زیادہ سے زیادہ تیرہ مسلم نمائندے اسمبلی میں پہنچ پائے ہیں۔
11.24 11.24 کڑوڑ ووٹروں والے اس صوبے میں تقریبا 1.30 آبادی مسلم ووٹروں کی ہے، پھر بھی 1962 میں 11، 1967 میں 9، 1972 میں 13 ،1978 میں 11، 1980 میں 13، 1985 میں 10، 1990 میں 7، 1995 میں 8، 1999 میں پھر 13، 2004 میں 11، 2009 میں 11 اور پھر دوہزار چودہ میں محض 9 / مسلم امیدوار کامیاب ہوسکے۔
ہمشہ مسلمانوں نے اپنا ووٹ سیکولر پارٹیوں کے نام اپنا ووٹ ڈالا، مگر ہمیشہ ان کا استحصال ہی ہوا، ان کے قیمتی ووٹوں کا فائدہ اٹھا کر سیکولر پارٹیوں نے موقع ملتے ہی اپنامفاد حاصل کر نے کی غرض سے سیکولر ووٹروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ جس کی واضح مثال ہمارے سامنے نتیش کمار اور اس کی پارٹی ہے، جس نے ووٹ تو سیکولر کے نام پر حاصل کیا اور پھر کیا ہوا وہ سب کے سامنے عیا ں ہے۔
اب مسلمان ماضی کے تجربات کو دہرانے اور ہمیشہ کی طرح غلطی کرنے کے بجائے اپنی دانشمندی کا ثبوت دیں، سیکولر پارٹیوں کو جتانے کی ذمہ داری اپنے سر لینے کے بجائے ان نمائندوں کو جتائیں جو ان کی آواز بن کر ایوان میں مضبوطی کے ساتھ آواز اٹھائیں، جن کے اندر قوم کی خدمت کاجذبہ ہو، زمینی سطح پر کام کرنے کا تجربہ اور استطاعت ہو۔ سیکولر پارٹیوں کو اقتدار دلانے کی ذمہ داری مسلمان ہی کیوں اپنے سر لیں؟ دو ہزار انیس کے الیکشن میں مسلمانوں یکطرفہ طور پر سیکولر پارٹیوں کو دینے کی کوشش کی، جہان مسلمان اکثریت میں تھے وہاں کے انہوں نے سیکولر پارٹیوں کو جیت درج کرائی، سیکولر پارٹیوں کو جتانے کے لیے برادرران وطن کو بھی ساتھ آنا ہوگا، اس لیے ماضی تجربات سامنے رکھ کر اپنے حق کا استعمال کریں۔ مسلمان اپنا ووٹ ضائع ہونے نہ دیں، اور کوشش ہو کہ زیادہ سے سے زیادہ مسلم نمائندے اسمبلی میں پہنچ پائیں۔