بابری مسجد کا فیصلہ گرچہ مسلمانوں کے حق میں نہیں، لیکن ایک حقیقت جس کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا

معاذ مدثر قاسمی

طویل انتظار کے بعد بالآخر بابری مسجد کافیصلہ 9/ نومبر دوہزار انیس کو آہی گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے مضبوط دلائل پیش کیے جانے کی وجہ سے جس طرح فیصلہ آنے کی امید تھی عدالت عظمی کی طرف دیا گیا فیصلہ مسلمانوں کے توقعات کے بالکل خلاف تھا۔ اس فیصلے سے مسلمانوں کو ایک بار پھر اسی طرح کی تکلیف پہنچی جو انیس سو بانوے میں پہنچی تھی۔

یقینا 6 /دسمبر 1992 کا دن مسلمانو کے لیے تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب جمہوری ملک ہندوستان کے اکثریتی فرقے سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے قانون کو بالائے طاق رکھ کر صدیوں پرانی بابری مسجد کی قدیم عمارت کو دن دھاڑے زمین بوس کردیا، جس نے واضح طور پر ہندوستانی مسلمان کے دلوں کو پارہ پارہ کردیا تھا۔ یہی نہیں، اس کے بعد تو ملک میں نفرتوں کا بازار گرم ہوگیا، کتنی ہی معصوم جانیں قربان ہوئیں۔ مسلمانوں کو ہمیشہ نشانہ بنایا گیا، زہریلے الفاظ کے نشتر لگائے گئے، مگر مسلمانوں نے ہمیشہ صبر وتحمل کادامن تھامے رکھا۔

اس ملک میں ہمیشہ قانون کی بالادستی رہی ہے، اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے قانون ہاتھ میں میں لینے کے بجائے عدالت کا رجوع ہی بہتر متادل سمجھا گیا، مسلمانوں نے بابری مسجد کی بازیابی کے لئے فرقہ پرستوں کی راہ اپنانے کے بجائے قانونی اور اصولی راہ اپنائی۔ ملک کی سالمیت اور قانون کی بالادستی کو باقی رکھنے کے لئے باعزت اور ذمہ دار شہری سے اسی کی توقع کی جاتی ہے۔

اس سلسلے میں مسلمانوں نے اپنی بساط کے مطابق، جو کچھ ان سے بن سکا قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے طویل قانونی لڑائی لڑی۔گزشتہ مہینوں میں مسلم فریق کے وکلاء نے جس طرح سے اپنی بات مدلل انداز میں رکھا ، ٹھوس ثبوت اور پوری جرات کے ساتھ جرح کی وہ یقینا قابل تعریف ہے۔عدالت کا فیصلہ آنے سے قبل تمام مسلم تنظیموں نے مشترکہ طور پر یہ واضح کردیا تھا کہ ہم نے اپنا حق ادا کردیا، اب عدالت کا جوبھی فیصلہ ہوگا بسروچشم قبول کیا جائے گا۔

چونکہ جس طرح سے مسلم تنظیموں کے وکلاء نے اپنی بات صحیح اور ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ پیش کی تھی اس سے ایک طرح کی امید بندھی تھی کہ عدالت کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں جاسکتا ہے۔ مگر عدالت کا جب فیصلہ 9/نو مبر کو سامنے آیا تو وہ مسلمانوں کے لئے 1992 /سے کم تکلیف دہ نہیں تھا، باوجود یہ کہ عدالت عظمی نے مسلمانوں کے ذریعہ پیش کیے گئے تقریبا شواہدات کو بجا تسلیم کیا پھر بھی عدالت کا فیصلہ مسلمانوں کے لئے انتہائی مایوس کن تھا۔

اس موقع پر حساس ذہن رکھنے والے بہت سے مسلمان مایوسی کے ساتھ ساتھ احساس کمتری کے شکار اورخود کو بہت سے انجانے خدشات میں گھرا ہوا محسوس کرنے لگے۔

اس واقعہ کے بعد بہت سی ایسی تحریریں منظر عام پر آئی جس میں جمہوری ملک ہندوستان کے تئیں مستقبل کے خدشات اور درپیش حالات کا اظہار کیا گیا۔ لیکن یاد رہے کہ حالات ہمیشہ ایسے نہیں ہوتے ہیں جیسا ہم سوچتے ہیں، اور مستقبل میں اسی طرح رونما نہیں ہوتے جسکی ہم توقع کر بیٹھتے ہیں، ایسانہیں کہ جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے بعینہ مستقبل میں اسی طرح رو پزیر ہوں۔

یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہے کہ دنیا میں زندگی بسر کرنے کے دو طریقے ہیں : (1) ایک طریقہ تو وہ ہے جسے اللہ نے اپنایا ۔ (2) دوسرا طریقہ وہ ہے جو انسان اپناتاہے۔ انسان ہر وہ طریقہ اپناتاہے جو اسکے مشاہدے میں آتاہے ، اور جسے وہ اپنے لئے قابل نفع تصور کرتاہے۔ اسکے تصور میں اگر کوئی بات قابل نقصان ہے تو اس سے گریز کرتاہےاور اس کو اپنانے سے احتراز کرتاہے۔ انسان اسی چیز کو اپناتا ہے جسے اسکی نگاہ یا اسکا خیال درست اور قابل نفع تصور کرے۔ یعنی بظاہر نقصان دہ اور غیر منفعت چیزوں کو خود سے دور کرتاجاتاہے ، لیکن آئندہ جو زمانہ اسکے سامنے آتاہے تو بہت سی مرتبہ اسکی رائے بدل جاتی ہے، شکلا نقصان دہ نظر آنے والی بہت سی باتیں مستقبل میں اسکو قابل نفع نظر آتی ہے، یہی سلسلہ چلتارہتاہے تاآنکہ انسان موت کے منہ میں چلاجاتاہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ موت آنے سے حالات ختم نہیں ہوتے بلکہ حالات کے انتظام کی طاقت ختم ہوجاتی ہے۔

دوسری طرف ایک وہ طریقہ جسے اللہ اپناتا ہے، حالات کا اصل منتظم اور اسکو لانے والی وہی ایک اللہ کی ذات ہے، عزت و ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے۔ بہت سی مرتبہ کسی چیز کے حوالے سے ہماری ایک رائے قائم ہوجاتی ہے کہ یہ چیز نقصان دہ ہے، یا نفع بخش ہے؛ مگر حقیقت میں اسکا نتیجہ ہمارے تصور کے بر عکس رونماہوتاہے۔ قرآن کریم ہمارے لئے منبع رشد وہدایت ہے جس میں سارے مسائل کا حل اور تسلی کا سامان موجود ہے۔ مذکورہ حقیقت کو قرآنی پیغام اور واقعات سے اگر سمجھنا چاہیں توبظاہر مختلف النوع مسائل اور حالات میں گھرا مسلمان ان سے واقعات سے تسلی کاسامان پاسکتا ہے، اگر ان کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں تو کبھی بھی مایوسی کے شکار نہیں ہونگے۔

حضرت یوسفؑ کے واقعہ سے اس کو سمجھاجاسکتاہے کہ بچپنے سے جوانی تک کا سارا نقشہ بظاہر رسوائی ، ذلت اور ناکامی کا تھا مگر نتیجہ اسکے خلاف ثابت ہوا، آج صدیوں بعد بھی انکا نام اسی طرح روشن ہے جو اس وقت تھا۔ وہیں دوسری طرف قارون کا خزانہ، عزت، دولت ، لاؤلشکر یہ سارا نقشہ بظاہر عزت کا تھا مگر انجام کار ذلت ورسوائی اسکا مقدر بنی، آج کوئی بھی شریف آدمی اپنا قارون رکھنا پسند نہیں کرتا۔

آج ظاہری طور پر کچھ لوگ ایساہی گمان کربیٹھیں ہیں کہ مسلمانوں کے لئے مایوسی مقدر ہے، پریشانیا ں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں ، یہ بھی لگ رہاہے کہ شکستگی اور ناکامی ہر دم مسلمانوں کے استقبال کے لیے منتظر کھڑی ہے۔ لیکن یادرہے کہ مسلمانوں کے لئے مایوسی قطعا زیبانہیں۔

بابری مسجد کے اس فیصلے کی وجہ سے مسلمانوں میں بےدلی کی سی کیفیت پیدا ہونا فطری بات ہے،مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس فرقہ پرست پارٹی نے بابری مسجد کے مسئلہ کو ہمیشہ اپنا سیاسی ہتھکنڈا بنایا اور اسی کو اپنی ترقی کا زینہ بنایا اور اسی پر سوار ہوکر آج تختہ سلطنت پر براجمان ہے، جس نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے اخلاقیات اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر تمام حدود کوپار کیا، اس نے گرچہ اس فیصلے کے بعد خوشی کے شادیانے بجائے، لیکن اقتدار کی حریص اس جماعت کو مہارشٹرا میں کس طرح کی خفت کا سامنا کرناپڑا، جس نے بابری مسجد کے نام پر ہی سارے الیکشن لڑا، مگر اسی فیصلہ کے آنے کے بعد ہی ملک کے اس عظیم صوبے میں دوبارہ اقتدار کے بالکل قریب پہنچ کر بھی اس طرح بے بس ہوگئی جسکا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔

بلکہ اب تو یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ گرچہ رام مندر کا راستہ انکے لئے ہموار ہوگیا مگر اس کے ساتھ انکا آپسی انتشار کھل کر سامنے آگیا۔ حتی کہ اب یہ بھی آواز اٹھ رہی ہے کہ سنتھ ہی سپریم کورٹ میں ٹرسٹ کے مسئلہ کو لیکر مقدمہ دائر کریں گے۔ جس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے کہ ہم نے اپنا کام تو کردیا، اپنی بساط کے بقدر ساری کوششیں کرلی،اب خدا جو اصل حالات کو بدلنے والا ہے وہی بہتر فیصلہ کرسکتاہے۔

یہ حقیقت ہے کہ خدا ہی اصل حالات بدلنے والا ہے مگر اس کا بھی ایک ضابطہ ہے، دنیا میں اسباب ذرائع کی موجودگی ہی وجہ سے حالات سازگار نہیں ہوتے بلکہ خدا حالات کو بندے سے صادر ہونے والے حالات کو دیکھ کر ہی بدلتاہے، اس لئے مسلمانوں نے اپنی مسجد بازیابی کے لئے اسباب کا استعمال کرلیا، لیکن قانون قدرت کےمطابق حالات ہمارے موافق ہمارے اعمال کی درستگی کے بعد ہی ہونگے۔

اب سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ بہت سے مسلمانان اچھے اعمال کے بعد بھی حالات کے شکار ہیں تو اسکا سیدھا اور سہل جواب یہی ہے کہ کا میابی وہ نہیں ہے جو آکر ختم ہوجائے اور یقینا ناکامی وہ ہے جو آکر کبھی ختم نہ ہو۔ اور درحقیقت اصل کامیابی وہی ہے جسے موت کے بعد دائمی خوشی مل جائے۔ اس لئے دنیا کی مختصر ناکامی کو حقیقی ناکامی سمجھنے کے بجائے اخروی کامیابی کی تیاری کی طرف توجہ دی جائے تو یقینی طور مسلمان حالات سے گھبرا کر کبھی بھی مایوسی کا شکار نہیں ہوگا۔