نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو

Shamsپس آئینہ :شمس تبریزقاسمی
آزاد ہندوستان میں حقیقی آزادی تک عوام کی رسائی دن بہ دن مشکل ہوتی جارہی ہے ۔ کہنے کو یہ تو یہ ملک 15 اگست 1947 کو ہی آزاد ہوگیا تھا لیکن یہ آزادی کا غذی آزادی تھی، حکومت کا تبادلہ تھا، برطانیہ نے اقتدار سے دستبردار ہوکر نظام مملکت کی سار ی ذمہ داریاں ہندوستانیوں کے حوالے کردی تھی اور بس ۔وہ آزادی جس کا عوام خواب دیکھ رہی تھی ۔ وہ آزادی جس کے حصول کے لئے اسلاف نے جد وجہد کی تھی ،وہ آزادی جس کی تحریک اٹھارہویں صدی میں شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے فتوی سے شروع ہوئی تھی، وہ آزادی جس کے لئے ٹیپوسلطان نے انگریزوں کا راستہ روکا تھا ، وہ آزادی جس کے لئے مولانا قاسم ناناتوی نے شاملی کے میدان میں جنگ لڑ ی تھی ، وہ آزادی جس کے لئے شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی نے تحریک ریشمی رومال شرو ع کی تھی ، وہ آزادی جس کے لئے ہندوستان کے تمام مسلمان اور ہندوؤں نے علم بغاوت بلند کیا تھا ۔ ۔۔۔۔وہ آزادی ایک خواب محض بن کر رہ گئی ۔آزاد فضاؤں میں سنانس لینے کی وہ آرزو آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکی،مختلف مذاہب پر مبنی جنت نشاں ہندوستان کی تعبیر اب تک نہیں مل سکی، ہندوستانی قوم کو سکون و اطمینان کے ساتھ بسرہونے والے وہ لمحات آج تک میسر نہیں ہوسکے ۔
ہر آنے والا دن یہ ایک نئی مصیبت کے ساتھ آتا ہے ۔ پریشانیوں کا پیغام لے کر وارد ہوتا ہے ۔ ہندوستان کے موجودحالات اب اس قدر سنگین ہوچکے ہیں کہ ہر قدم کو پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے ۔ کچھ بولنے ، لکھنے اور کرنے سے قبل ہزار مرتبہ یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں یہ قدم حکومت مخالف نہ ہوجائے ، اس اقدام کی وجہ سے ہماری گرفت نہ ہوجائے ، جیل کی سلاخوں میں نہ جانا پڑے ، ہمارے اس عمل کو کسی قانونی خلاف وزری میں شامل نہ کردیا جائے۔ دہشت گردی کے الزام میں گرفتارنہ کرلیا جائے ،پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر غدار وطن کے لقب سے نواز نہ دیا جائے ، ہماری شریعت پر پابندی عائد نہ کردی جائے ۔ مسجدیں مسمار نہ کردی جائے ، مدارس پر تالے نہ لگا دیے جائیں۔کب راہ چلتے کسی کو لوٹ لیا جائے ، کب کسی کی عزت و عصمت تارتار کردی جائے ، کب اکثریتی طبہ ا پنی طاقت کے زعم میں آکر اقلیتی طبقہ پر ظلم و ستم ڈھاناشروع کردے۔یہ خوف وخدشہ اور اندیشہ ہمہ وقت ایک ہندوستانی کے ذہن و دماغ میں سوار رہتا ہے ۔خاص طور پر مسلمانوں کاہر لمحہ اسی ذہنی تشویش میں گذرتا ہے ۔ آزاد ملک میں رونما اسی کیفیت کی کسی شاعرنے یو ں منظر کشی کی ہے کہ۔
کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقدیریں ہماری
ملی ہے کب غلامی سے رہائی
مسلط ہے وہی مرضی پرائی
میں اکثر اس خیال میں غرق رہتا ہوں کہ آزاد ہندوستان میں جب شب و روز کے ہر لمحے میں ذہن پر ایک بوجھ سوار رہتاہے ۔ہر وقت ایک نئے خوف و خطرے کا اندیشہ رہتا ہے ۔ قوانین کی پاسدار ی کرتے ہوئے بھی ایک خوف ذہن و دماغ میں سوار رہتا ہے، سفر اور حضر دونوں میں ذہنی تشویش لاحق ہوتی ہے تو پھر انگریزوں کے دور حکومت میں جو لوگ تھے انہیں کس قدر پریشانیوں کا سامنا کرناپڑا ہوگا ۔ کرب و الم کی کن کن وادیوں سے انہیں گذرنا پڑا ہوگا۔ زندگی کا سفر جاری رکھنے کے لئے کس قدر کٹھن راستوں پر چلنا پڑا ہوگا،ان کی ذہنی اذیت کا کیا عالم رہا ہوگا اس کا اندازہ نہیں لگا یا جاسکتا ہے ۔البتہ یہ فرق ضرور کرسکتے ہیں ان کی زندگی خوف کے ساے میں ایک غلام ملک کا شہری ہونے کے ناطے گذری تھی اور آج ہم پر یہ خوف ایک آزاد ملک کا شہری ہونے کی حیثیت سے سایہ فگن ہے۔
آزادی ایک عظیم نعمت ہے ۔ ہندوستان کو بے پناہ جدوجہد کے بعد انگریزوں کے مظالم سے نجات ملی تھی۔ ایک بیرونی طاقت کے چنگل سے ہندوستان کو بالکلیہ آزاد کرانے کے لئے اسلاف نے آزادی کی یہ جنگ لڑی تھی ۔ انگریزوں سے جنگ صرف اس لئے نہیں تھی کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں بلکہ ہماری جنگ ان کے کلچر سے تھی ، ان کی پالیسی سے تھی ، ان کی ثقافت سے تھی ، ان کے نظام سے تھی۔ لیکن افسوس کہ ہندوستان کو انگریزوں سے مکمل آزادی نہیں مل سکی ، انگریزوں کے کلچر اور پالیسی سے ہندوستان نجات نہیں پاسکا ، نفرت ، تعصب ، فرقہ پرستی اور شرانگیزی کی جو پالیسی انگریزوں نے ہندوستان میں شروع کی تھی وہ آزادی کے 68 سال گذرجانے کے بعد بھی برقرار ہے ۔ آپس میں لڑاؤاور حکومت کروکی پالیسی مزید زور وشور ے جاری ہے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ رہے گا ۔
آج کے ہندوستان میں کمزورں کے حقوق دبائے جاتے ہیں ، غریبوں کا استحصال کیا جاتا ہے ۔ حق گوئی اور بے باکی کا جنازہ نکالا جاتا ہے ۔ امیروں کو تمام سہولیات دی جاتی ہے ، سماج کے پچھڑے ہوئے لوگوں کی ترقی کی بابت کوئی بات نہیں کی جاتی ہے ۔مجرموں کی عزت افزائی کی جاتی ہے ، بے گناہوں کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے ۔ اکثریت کے جذبات کا خیال کرکے اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی کی جاتی ہے ،کبھی مجرم کو ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے او ر کبھی ملزم کو تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے ۔ نفرت انگیزی کی ببیج بوئی جاتی ہے ۔ ہندوستان کی ہزاروں سالہ قدیم تاریخ سے رودگردانی کرکے مذہب کی سیاست کی جاتی ہے ۔ مذہب کے نام پر جذبا سے کھلواڑ کرکے خون کی ندیاں بہائی جاتی ہے ۔یہ سب آج کے ہندوستان کی شناخت اور پہچان بن چکی ہے ۔ لیکن ان سب کے باوجود ہم فخر کے ساتھ یہ کہتے ہیں ہم آزاد ہیں ۔ ہندوستان آزاد ہے ، ہم دنیا کے ایک آزاد اور سب سے بڑے جمہوری اور سیکولرزم کے علمبردار ملک کے شہری ہیں ۔
جشن آزادی منانے کی تاریخ قریب آچکی ہے دو دن بعد ملک کا سب سے بڑا قومی تہوار منایا جائے گا۔بغیر مذہبی تفریق کے ہر ہندوستانی اپنی آزادی کے دن پر خوشی کا اظہا ر کرے گا ،ملک کے وزیر اعظم لال قلعہ کی فصیل سے جھنڈا لہر اکر 15 اگست 1947 کی یادیں تازہ کریں گے ۔ جنگ آزادی کے مجاہدین کی قربانیوں کا ذکر کریں گے پوار ملک لال قلعہ کا وہ حسین منظر اپنی نگاہوں دیکھے گا لیکن اس خوبصورت منظر کے اس دوسرے پہلوکو دیکھ کر بہت افسوس بھی ہو گاجب وہاں ہندوستان کے اس عظیم فرماں روا کا نام نہیں لیا جائے گا جس نے ہندوستان کو لال قلعہ جیسی عظمت دی ہے ۔ جنگ آزادی کے ان اولین مجاہدین کی خدمات کو کوئی تذٖکرہ نہیں کیا جائے گا جن کے خون سے یہاں کی مٹی لالہ زار ہے ۔ ان مسلمانوں کو یکسر فراموش کردیا جائے جنہوں نے آزادی کی خاطر تن من دھن کی قربانیاں دی تھیں۔
وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا
بہاروں نے دیئے و ہ داغ ہم کو
نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو
(نوٹ یہ مضمون سال گذشتہ روزنامہ خبریں میں یوم آزادی کے موقع پر شائع ہواتھا موقع کی مناسبت سے دوبارہ یہاں شائع کیا جارہاہے۔ملت ٹائمز)
stqasmi@gmail.cpm