مسلم مجاہدین آزای کو فراموش کئے جانے کیلئے ذمہ دار کون ؟

بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم ناناتوی 1857 کی جنگ آزادی کے سرخیل لوگوں میں شامل ہیں اور فوج کی کمان انہوں نے سنبھال رکھی تھی ،ان کے کئی علماء دوست نے 1857 کی جنگ آزادی میں سرگرم حصہ لیا تھا اور اس میں اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی،تاریخی کی کتابیں بتاتی ہے کہ علماء کرام نے 1857 کے انقلاب میں بڑی بڑی قربانیاں دیں اور ان میں سے سینکڑوں کو کالاپانی کی سزا ہوئی۔ بہت سے علماء اٹلی کے جنوب میں واقع مالٹا نامی جزیرے میں جلاوطن کئے گئے۔بیسوی صدی کے آغاز میں دارالعلوم دیوبند ،جمعیۃ علماء ہند اور دیگر تحریکات نے آزادی کی لڑائی میں سرگرم کردار ادا کیا مگر ان سبھی تنظیموں کو فراموش کیا جاچکا ہے اور مشکل ہی کوئی ان کا نام لیتاہے ،

نزہت جہاں
ہندوستان کی آزادی مسلمان اور ہندو دونوں کی مشترکہ کوششوں اور جدوجہد کا نتیجہ ہے ، تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جنگ آزادی میں ملک کے سبھی طبقات سے تعلق رکھنے والوں نے حصہ لیا ، ہندومسلم کی تفریق کے بغیر سبھی متحدہوکر انگریزوں کے خلاف صف آرا ہوئے ،لیکن یہ عجیب وغریب المیہ ہے کہ آزادی کے بعد مسلمان مجاہدین آزادی کو نظر انداز کردیا گیا، تاریخ کی کتابوں سے لے کر عجائب خانوں تک ان کے نام ونشان مٹادیئے گئے۔ کہیں اگر ذکر ملتا بھی ہے تو صرف ان مسلمانوں کا جنہوں نے آزادی کے بعد کانگریس سے وابستگی اختیار کی اور جواہر لعل نہرو کی سرکار میں حصہ داری نصیب ہوئی اور اس کے علاوہ نہ کسی کا نام لیا جاتاہے اور نہ ہی صحیح تاریخ بیانی کی جاتی ہے۔
جس اندازسے اب ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ بیانی کی جاتی ہے یا اب لکھی جاتی ہے اس سے مسلم نوجوان، طلباء اور بچے یہی تاثر لے رہے ہیں کہ انگریزی سامراج کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں مولانا ابوالکلام آزاد ،شہید اشفاق اللہ خاں کے علاوہ بس ایک دو مسلمان اور تھے ۔ ایسا تاثر لینے پر نئی نسل مجبور ہے کیوں کہ کسی اور مسلمان کا نام آتا ہی نہیں جس نے انگریزی سامراج کے خلاف سخت جدوجہد کی ہے ۔ مصیبتیں جھیلی ہیں اور جان کی بازی لگادی ہے،پھانسی کے پھندے کو چوما ہے ،انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی ہے ،قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انگریزی سامراج کے خلاف لڑائی چھیڑنے والے مسلمان، مصیبتیں اٹھانے والے مسلمان، قید و بند کی زندگی کاٹنے والے مسلمان اور جان پر کھیل جانے والے مسلمان رہے ہیں ۔ ان کی تعداد اور تناسب اتنا زیادہ ہے کہ مسلمان فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کے لیے سب سے زیادہ خون مسلمانوں نے ہی دیا ہے ۔ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے ۔
مسلمانوں کے اتنے زبردست رول کو نظرانداز کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش ہورہی ہے ۔ عہد وسطیٰ کی تاریخ آج ہمار ے اسکول ،کالجز اور یونیورسٹیز میں اس لیے نہیں پڑھائی جاتی ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کے حلق سے نہیں اترتی۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے کہا تھا کہ کسی قوم کی تاریخ اس کا اجتماعی حافظہ ہوتی ہے ۔ اگر کسی قوم کو اس کی تاریخ سے محروم کر دیاجائے تو وہ اپنی جڑ سے کٹ جاتی ہے۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ اس ملک کو آزاد کروانے میں اپنا خون بہانے اور اپنے مال و متاع کی قربانی کرنے میں مسلمان کسی سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہیں اور مسلمانوں کی نئی نسل اس احساس کمتری سے آزاد ہونا چاہئے کہ ہمارے اسلاف نے اس ملک کے لیے کچھ نہیں کیا ،یہ جدو جہد بلا لحاظ مذہب وملت سارے عوام کی ایک مشترکہ جدو جہد تھی۔ نہ صرف ہندوستانی سپاہیوں نے بلکہ عوام نے بیرونی اقتدار کے خلاف جس جوش وخروش کا مظاہر ہ کیا ۔ ایثار وقربانی ، بہادری او رجانبازی کا ثبوت دیا اس میں مذہبی تعصبات اور فرقہ وارانہ اختلافات کا کوئی دخل نہ تھا۔
بہادر شاہ ظفر پہلی جنگ آزادی کے پیشوا تھے اور ان کی قیادت میں ملک کے سبھی طبقات نے انگریزوں سے لوہا لیا تھا،بغاوت پورے ملک میں پھیلی تھی مگر آج ہمیں ان سورماؤں کے نام نہیں معلوم جنھوں نے دنیا کی سب سے بڑی سلطنت سے لوہا لیا تھا۔تاریخ کا صحیح جائزہ لیا جائے توانگریزوں کی خلاف جنگ کا آغاز سترہویں صدی میں ہی شروع ہوجاتاہے ،بنگال میں نواب سراج الدولہ اور میسور میں ٹیپوسلطان انگریزوں کے خلاف جنگ لڑنے والے عظیم اولین مجاہدآزادی ہیں ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے انگریزوں کے اردوں کو بھانپ لیاتھا اور جنگ آزادی کی تلقین کی تھی ،ان کے ہی فرزند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف جہادکا فتوی جاری کیا تھا،انگریزوں کے خلاف فتوی جاری کرنے والوں میں ایک اہم نام مولانا فضل حق خیرآبادی کا بھی ہے ۔لکھنؤ کی بیگم حضرت محل جو اخیر تک اودھ کو غیر ملکی قا بضوں سے بچانے کی کوشش میں لگی رہیں۔ کانپور کی کم سن طوائف عزیزن جس نے کانپور میں گوروں کے خلاف بغاوت کے شعلوں کو ہوا دینے کا کام کیا۔ آج ان سبھی لوگوں کو فراموش کیا جاچکا ہے جو یقیناًاس ملک کے محسن ہیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مسلم علماء کو ہزاروں کی تعداد میں پھانسیاں دی گئیں اور انھیں صفحہ ہستی سے مٹایا گیا ، ایک انگریز مصنف کے بقول دہلی کی چاندنی چوک سے لیکر پانی پت تک ہر درخت پر علماء کی لاشیں لٹکی ہوئی تھیں ،کیونکہ انگریزوں کے خلاف آواز بلند کرنے میں یہ حضرات سب سے پیش پیش رہتے تھے اور گرفتار ہونے کے بعدباضابطہ اعتراف کرتے تھے ہم آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں ،تمہاری حکومت اور تخت وتاج کوتاراج کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔
بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم ناناتوی 1857 کی جنگ آزادی کے سرخیل لوگوں میں شامل ہیں اور فوج کی کمان انہوں نے سنبھال رکھی تھی ،ان کے کئی علماء دوست نے 1857 کی جنگ آزادی میں سرگرم حصہ لیا تھا اور اس میں اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی،تاریخی کی کتابیں بتاتی ہے کہ علماء کرام نے 1857 کے انقلاب میں بڑی بڑی قربانیاں دیں اور ان میں سے سینکڑوں کو کالاپانی کی سزا ہوئی۔ بہت سے علماء اٹلی کے جنوب میں واقع مالٹا نامی جزیرے میں جلاوطن کئے گئے۔بیسوی صدی کے آغاز میں دارالعلوم دیوبند ،جمعیۃ علماء ہند اور دیگر تحریکات نے آزادی کی لڑائی میں سرگرم کردار ادا کیا مگر ان سبھی تنظیموں کو فراموش کیا جاچکا ہے اور مشکل ہی کوئی ان کا نام لیتاہے ،آج اسکولوں کے نصاب میں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ان میں صرف کانگریس اور اس کے لیڈروں کی کوششوں کا ہی بیان ملتا ہے ،تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اب آزادی کی مخالفت کرنے والے او رانگریزوں کے ایجنٹ کا کام کرنے والے آر ایس ایس لیڈران کو بھی اس صف میں شمار کیا جارہاہے اورجنگ آزادی میں نمایاں اور ناقابل فراموش خدمات انجام دینے والے حقیقی مجاہدین کو بالکل ہی بھلادیا گیا ہے، مولانا محمد قاسم نانوتوی،مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا محمودحسن،مولانا ابولمحاسن محمدسجاد، مولاناحسین احمد مدنی ،مولانا محمد علی جوہر ،مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی وغیرہ کی خدمات قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ان کا ذکر تاریخ کے صفحات میں کہیں نہیں ملے گااور نہ ہی کسی تقریب میں ان کا نام لیا جاتاہے ،ہر جگہ اور ہر جلسہ میں آزادی کی تاریخ بیان کرتے وقت چند گھسے پٹے ناموں کو گنادیا جاتاہے ۔

یہاں کلک کرکے ملت ٹائمز کا فیس بک پیج جوائن کریں اوررہیں ہر تازہ اپڈیٹ سے باخبر

اپنی تاریخ سے عدم واقفیت اور جنگ آزادی میں مسلمانوں کو کردار کو فراموش کردیئے جانے کیلئے جہاں سب سے زیادہ ذمہ دار کانگریس ہے وہیں خود مسلمان بھی ہیں جنہوں نے اپنی تاریخ فراموش کردی ہے ،اپنے بچوں کو اپنی تاریخ پڑھانے کا سلسلہ بند کردیا ہے ،نئی نسل کو عصری تعلیم دینے کے ساتھ مذہبی ،ملی اور سماجی تعلیمات سے روشنا س کرانے کی کوئی فکر مندی نہیں ہے ،آج کے بچے احساس کمتری کے شکار ہوکر اگر یہ کہتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد نے ہندوستان کی آزادی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تو اس کیلئے ذمہ والدین ہیں جنہوں نے بچوں کی صحیح تربیت نہیں کی ،ہمارا معاشرہ ہے جس نے صحیح تاریخ سے ان کی واقفیت نہیں کرائی انہیں مسلمانوں کا کارنامہ نہیں بتلایا ۔
اسکول اور کالجز میں 26 جنوری اور 15 اگست کے موقع پر ہونے والی تقریب میں اکثر میں دیکھتی ہوں کہ غیروں کے ساتھ مسلمان طلبہ اور اساتذہ بھی آزادی کی تاریخ سے ناواقف نظر آتے ہیں،ان کی زبان پر مسلمانوں میں مولانا ابوالکلام آزاد او ر اشفاق اللہ خاں کے علاوہ کسی کا نام نہیں آتاہے ،سیاسی نمائندگی کرنے والے مسلمان بھی آزادی کے موضوع پر لب کشائی کرتے وقت ایک بھی مسلم مجاہد آزای کا نام نہیں لے پاتے ہیں،انہیں نہیں معلوم کہ جس وقت ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ شروع ہوئی تھی اس وقت ان لوگوں نے دنیا میں قدم بھی نہیں رکھاتھا ،انہیں کوئی بتادے کہ آزادی کی جنگ بیسوی صد میں نہیں بلکہ اٹھارہویں صدی میں شروع ہوئی تھی جس وقت ،مہاتماگاندھی ،پنڈٹ نہرو ،سردار جی پٹیل اور مولانا ابوالکلام آزاد کا کوئی نام ونشان نہیں تھا،تاریخ کے صفحات میں پلاسی کی جنگ 1757 اوربکسرکی جنگ1764کی تفصیل موجود ہے،اس جنگ میں ہندوستانیوں کو شکست ملی تھی اور اسی کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح حاوی ہوئے تھے۔اس لئے یہ موقع ہے کہ ہم اپنی تاریخ پر نگاہ رکھیں جنگ آزادی میں مسلمان اور علماء کی قربانیوں کو یاد کریں جن کی کوشش اور جدوجہد کی بدولت آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہواہے ۔
(مضمون نگار بہار اسکول میں استاذ اور فری لانسر جرنلسٹ ہیں)
nuzhatjahanmt@gmail.com