مدثر احمد قاسمی
ملت ٹائمز
اس وقت پورا ملک /67واں یومِ جمہوریہ کے جشن میں ڈوبا ہوا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ہر سال /26 جنوری کا د ن ہمیں وطن پرست ان عظیم رہنماؤں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے آنجہانی ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کی سرکردگی میں مساوات کا علمبردار اور ملک کی ترقی کاضامن ایک مثالی دستور وطنِ عزیز کے لئے تیار
کیاتھا جس کی بنیاد پر ہی ہندوستان کا شمار دنیا کی عظیم ترین جمہوری ملک کے طور پر ہوتا ہے۔ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ پیارو محبت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اوراسی وجہ سے خوابوں کے اس دیش کو گنگا جمنی تہذیب کا سنگم کہا جا تا ہے۔ہمیں فخر ہے کہ ہمارے اس ملک کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔تعلیم اور ٹکنالوجی کے میدان میں ہمارا یہ ملک کافی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔غربت دورکرنے اور خوشحالی لانے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کثرت میں وحدت کی مثال کو سچ ثابت کرنے کے لئے ایک سماج کے لوگ دوسرے سماج کے لوگ سے قریب بھی
ہورہے ہیں۔
آزاد ہندوستان کے معماروں نے اپنی آنکھوں میں ایک پر امن،متحداورترقی یافتہ ملک کا خواب سجا کر بے دریغ قربانیاں دی تھیں اور وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان ایک ایسا ملک بنے جہاں لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام آئیں، جہاں کبھی فرقہ وارانہ فساد نہ ہو،جہاں کبھی بد امنی نہ ہو، جہاں ہر ایک کو اسکا مکمل حق ملے، جہاں ذات پات اور رنگ و نسل کے نام پر بھید بھاو نہ ہو ،جہاں کا ہر شہری تعلیم یافتہ ہو اور جہاں کبھی چوری وڈاکہ زنی نہ ہو۔
ایک طرف ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارے ملک نے ہمیں تمام دستوری حقوق عطا کرکے ہمیں ایک باعزت شہری ہونے کا پروانہ دیا ہے لیکن کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے خوابوں کا دیش ہندوستان اُس سمت میں رواں دواں ہے جسکا خواب کبھی ان عظیم مجاہدینِ آزادی نے دیکھا تھا جنہوں نے اپنا لہو دیکرانگریزوں کے ظلم واستبداد اور ظالمانہ چنگل سے اس چمن کو آزاد کرایا تھا؟افسوس کی بات یہ ہے کہ سیکولر ازم اور گنگا جمنی تہذیب کی ارتقاء کے دشمن مسلسل اپنی تخریب کاریوں کے ذریعہ ان بے لوث مجاہدینِ آزادی کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہونے دینے کے راستہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
یومِ جمہوریہ اور یومِ آزادی کے جشن کے حوالہ سے مدارس کے خلاف ایک بے اصل بیان کے ذریعہ حالیہ دنوں ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ تاریخ کا ادنی ٰ طالب علم بھی واقف ہے کہ جنگِ آزادی میں مدارس کا کردار ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتاہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ گذشتہ دنوںآرایس ایس نے ان مدارس کے خلاف انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دیکر ایک سوالیہ نشان قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یومِ جمہوریہ اور یومِ آزادی کے موقع پر مدارس میں ترنگا نہیں لہرایا جاتا اور نہ ہی جشن منایا جا تا ہے۔ جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ ملک
کے طول و عرض میں پھیلے ان مدارس میں ان دونوں دنوں میں چھٹی بھی رہتی ہے اور جشن بھی منایا جاتا ہے اور خاصی تعداد ایسے مدارس کی ہے جہاں موقع کی
مناسبت سے خاص پروگرام کا بھی اہتمام کیا جا تا ہے اور اہلِ مدارس ایسا کیوں نہ کریں جبکہ ایسا نہ کرناجمہوری حقوق سے دست برداری کے مترادف ہے۔
اگریہاں ایک خاص پہلو کو اجا گر کر دیا جائے تو ایک چونکا دینے والی حقیقت سامنے آجائے گی، جی ہاں،ہندوستان بھر میں ایسے لوگ موجود ہیں جو یومِ جمہوریہ اور یومِ آزادی کے موقع پر جشن نہیں مناتے اور ایسے لوگ کسی ایک خاص مذہب سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ہر مذہب کے ماننے والوں میں ایسے لوگوں کی ایک تعداد موجود ہے۔ جرم یہ نہیں ہے کہ یہ جشن نہیں مناتے بلکہ جرم یہ ہے کہ ان لوگوں کو جمہوری اور دستوری حقوق سے محروم کرکے انہیں اس لائق بھی نہیں چھوڑا گیا ہے کہ وہ جشنِ جمہوریہ اور جشنِ آزادی کے بارے میں سوچیں بھی۔ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے یہ وہ لوگ ہیں جو ہر صبح کو اپنے گھروں سے خالی پیٹ نکل جا تے ہیں تاکہ شام کو ان کے گھروں میں چولہا جل سکے اور جن کے معصوم بچے یومِ جمہوریہ اور یومِ آزادی کے موقع پرجشن منانے کے
بجائے اپنے والدین کی مدد کے لئے آپ کے بچوں کے لئے ترنگا جھنڈا بیچتے نظر آتے ہیں۔اگر انہیں دستورِ ہند میں عطا کئے گئے دستوری حقوق مل جاتے تو کیا پھر بھی ایسا کرتے ؟ نہیں اور ہرگزنہیں۔ان لوگوں کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانے والوں نے کیا کبھی یہ کوشش کی ہے کہ یہ پچھڑے اور بچھڑے لوگ بھی جشنِ جمہوریہ میں شامل ہوسکیں؟
یومِ جمہوریہ کے موقع پر ہمیں بھرر پور یہ احساس ہے کہ حق رائے دہی نے ہندوستانیوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے حق میں جسے بہتر سمجھیں ووٹ دیں اور کرسی اقتدار تک پہونچا دیں لیکن ساتھ ہی یہ احساس بھی ہے کہ کرسی اقتدار تک پہونچنے کے بعد حکمراں جماعتیں حق دار کو مکمل حق دینے سے قاصر رہتی ہیںیہی وجہ ہے کہ آ زادی کے بعد سے اب تک بطورِ خاص مسلمان جمہوری حقوق کی کما حقہ حصولیابیوں کو ترستے رہے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کو مواقع نہیں ملے،مواقع ضرور ملے لیکن آبادی کے تناسب سے نہیں ملے،یہی وجہ ہے کہ سچر کمیٹی سے لیکر تمام انصاف پسند لوگوں کا یہ اعتراف رہا ہے کہ مجموعی طور پرمسلمان اس ملک میں انتہائی پسماندہ ہیں۔اعداد و شمار کے ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ پولس سروس میں مسلمانوں کی انتہائی کم نمائندگی فرقہ وارانہ فسادات کے بھڑکنے اور پنپنے کی بڑی وجہ ہے۔اور بارہا ماہرین نے حکومتوں کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر نظم و نسق پر قابو رکھنا ہے تو اس شعبہ میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑھائی جائے۔لیکن افسوس یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے صوبائی حکومتیں اور مرکزی حکومت بھی اقتدارا ور عہدہ حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلی کوشش یہ کرتی ہیں کہ پہلی حکومتوں کے ذریعہ مسلمانوں کے لئے کچھ حد تک کئے گئے کام کو سردبستوں میں ڈال دیں اور یہیں سے عمل اور ردِّ عمل کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجا تا ہے۔یاد رکھئے ہماری پھلتی پھولتی جمہوریت کے لئے بدلے کی سیاست دیمک کے مانندہے اور اس دیمک سے بچانے کے لئے بلاتفریقِ مذہب ہر ہندوستانی کو جشنِ جمہوریہ کے موقع پر یہ عہد کرنا ہے کہ ہم دستور اور جمہوریت کے بقاء کی جنگ کو ایک
خوبصورت اختتام تک لے جا کر ہے دم لیں گے۔
جشنِ جمہوریہ کے موقع سے اس بات کے احساس سے ہم شاداں اور فرحاں ہیں کہ دستور میں ہمارے تمام حقوق محفوظ ہیں ،آج نہیں تو کل ہمیں ہمارے حقوق ضرور مل جائینگے ۔ دستورِ ہند کے دفعہ /16میں یہ ضمانت دی گئی ہے کہ سرکاری ملازمت میں ذات پات اور مذہب کے نام پر کوئی تعصب نہیں برتاجائیگا، دفعہ29 /میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو اپنے ادارے قائم کر نے کی اجازت ہے اور اپنی تہذیب پر عمل پیرا ہونے اور اسکو محفوظ رکھنے کی بھی اجازت ہے ،دفعہ/25 اور /28 میںآزادی ء مذہب کی ضمانت دی گئی ہے (147Right to Freedom of Religion148) جسکی بنیاد پر ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور دفعہ /30میں اقلیتوں کے حقوق کو مزید مضبوطی فراہم کی گئی ہے۔
تقسیم ہند کے وقت مسلمانانِ ہند نے اس ملک میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا جس فیصلے پر انہیں ٖفخر ہے کیونکہ یہ ان کی پیدائشی سرزمین ہے اور یہ وہ سرزمین ہے جسکی آبیاری مسلمانوں کے آبا واجداد نے اپنے لہو سے کی ہے ۔ آج بھی مسلمان اس ملک کی ہمہ گیر ترقی میں اپنا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں اور نبھاتے رہیں گے۔خلاصہ یہ ہے کہ اس ملک کے لئے ہم نے جو خواب سجائے ہیں اس کو پورا کرنے کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا ۔آئیے ہم یہ احساس لئے جشن
منائیں کہ /66واں یومِ جمہوریہ کی نئی صبح ہمارے لئے امید کی نئی کرن لئے نمودارہوئی ہے۔
(مضمون نگار معروف کالم نویس اور ایسٹرن کریسنٹ ممبئی میں اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں)