شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
پانچ ستمبر کی تاریخ آنے کو ہے ، یہ دن ’’ یوم اساتذہ ‘‘ (Teachers Day) کی حیثیت سے منایا جاتا ہے ، کسی خاص سلسلہ میں ’’ دن منانا ‘‘ ایک رسم سا ہوگیا ہے ؛ اس لئے سوائے اخبارات میں اکادکا رسمی بیان کے ، ایسے مواقع پر کچھ نہیں ہوتا ؛ حالاں کہ ایسے دنوں کو متعلقہ موضوعات پر سنجیدہ غور و فکر ، تبادلۂ خیال اور ان کی روشنی میں انقلابی تبدیلوں کی کوششوں کا محرک بنانا چاہئے ۔
حقیقت یہ ہے کہ تعلیم و تدریس نہایت ہی مقدس اور معزز پیشہ ہے ، ہر مذہب اور ہر سماج میں اساتذہ کو بڑا احترام حاصل رہا ہے ؛ کیوں کہ سماج میں جو کچھ بھلائیاں اور نیکیاں پائی جاتی ہیں اور خدمت خلق کا جو سروسامان موجود ہے ، وہ سب در اصل تعلیم ہی کا کرشمہ ہے اوردرسگاہیں ان کا اصل سرچشمہ ، اسلام کی نگاہ میں انسانیت کا سب سے مقدس طبقہ پیغمبروں کا ہے ، پیغمبر کی حیثیت اپنے اُمتی کی نسبت سے کیا ہوتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ اس کا ذکر فرمایا ہے اور وہ یہی کہ نبی انسانیت کا مربی اور معلم ہوتا ہے ، و ہ تعلیم بھی دیتا ہے اور انسانیت کو اس علم کے سانچہ میں ڈھالنے کی بھی کوشش کرتا ہے : ’’ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ ‘‘ ۔ ( آل عمران :۱۶۴)
اسی لئے اساتذہ کا احترام اسی قدر ضروری ہے جتنا اپنے والدین کا ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فقہاءِ صحابہ میں ہیں ، حدیث کی نقل و روایت اور فہم و درایت میں بھی بڑے اعلیٰ درجے کے مالک ہیں اور تفسیر و فہم قرآن کا کیا پوچھنا کہ اُمت میں سب سے بڑے مفسر مانے گئے ہیں ؛لیکن اس مقام و مرتبہ کے باوجود صورتِ حال یہ تھی کہ حضرت زید بن ثابت انصاری ص کی سواری کی رکاب تھام لیتے تھے اورکہتے تھے کہ ہمیں اہل علم کے ساتھ اسی سلوک کا حکم دیا گیا ہے ، (مستدرک حاکم :۳؍۴۲۳) خلف احمر مشہور امام لغت گزرے ہیں ، امام احمد ؒ ان کے تلامذہ میں ہیں ؛ لیکن علومِ اسلامی میں مہارت اور زہد و تقوی کی وجہ سے امام صاحب کو اپنے استاذ سے بھی زیادہ عزت ملی ، اس کے باوجود امام احمدؒ کبھی ان کے برابر بیٹھنے کو تیار نہیں ہوتے اور کہتے کہ آپ کے سامنے بیٹھوں گا ؛ کیوں کہ ہمیں اپنے اساتذہ کے ساتھ تواضع اختیار کرنے کا حکم ہے ، (تذکرۃ السامع و ا لمتکلم ، ص : ۸۷) امام شافعی ؒ امام مالک ؒ کے شاگردوں میں ہیں ، کہتے ہیں کہ جب میں امام مالک ؒ کے سامنے ورق پلٹتا تو بہت نرمی سے ، کہ کہیں آپؒ کو بارِ خاطر نہ ہو ، (حوالہ سابق ، ص : ۸۸) خود قرآن مجید نے حضرت موسیٰ ں اور حضرت خضر کے واقعہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے ، باوجودیکہ حضرت موسیٰ ں مقامِ نبوت پر فائز تھے ؛ لیکن انھوں نے نہایت صبر اور تحمل کے ساتھ حضرت خضر کی باتوں کو برداشت کیا اور بار بار معذرت خواہی فرمائی ، امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں منقول ہے کہ اپنے استاذ حماد ؒ کے مکان کی طرف پاؤں کرنے میں بھی لحاظ ہوتا تھا ، امام صاحب ؒ خود اپنے صاحب زادہ کا نام اپنے استاذ کے نام پر رکھا ، قاضی ابویوسفؒ کو اپنے استاذ امام ابوحنیفہؒ سے ایسا تعلق تھا کہ جس روز بیٹے کا انتقال ہوا اس روز بھی اپنے استاذ کی مجلس میں حاضری سے محرومی کو گوارا نہیں فرمایا ۔
بد قسمتی سے اب اساتذہ اور طلبہ کے درمیان محبت و احترام کا یہ جذبہ مفقود ہے ، طلبہ اپنے اساتذہ کو ایسی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ گویا وہ ان کے حریف اور فریق ہیں ، نقل و حرکت اورنشست و برخاست میں ادب و احترام تو بہت دور کی چیز ہے ، رودر رو فقرے چست کرنے اور جملے کسنے میں بھی کوئی حجاب نہیں ، ظاہر ہے اس بے احترامی اور بے اکرامی کے ساتھ کیوں کر کسی شخص سے فیض یاب ہواجاسکتا ہے ؟
جو شخص جتنے بلند مقام و مرتبہ کا حامل ہو ، اسی نسبت سے اس کی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں ، استاذ باپ کا درجہ رکھتا ہے ؛ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو وہی محبت اور پیار بھی دے ، جو ایک باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما اپنے طلبہ کی نسبت سے فرماتے تھے کہ اگر ان پر ایک مکھی بھی بیٹھ جاتی ہے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے ، (تذکرۃ السامع ،ص : ۴۹) سلف صالحین کو اپنے شاگردوں سے ایسی محبت ہوتی کہ ان کی نجی دشواریوں کو بھی حل کرتے ،امام شافعی ؒ بڑے اعلیٰ درجے کے فقیہ و محدث ہیں ، یہ حصولِ علم کے لئے مدینہ پہنچے ، غریب آدمی تھے ، امام مالک ؒ نے اپنے اس ہونہار شاگرد کو خود اپنا مہمان بنایا اورجب تک مدینہ میں رہے ، ان کی کفالت کرتے رہے ، پھر جب امام شافعی ؒ نے مزید کسبِ علم کے لئے کوفہ کا سفر کرنا چاہا تو سواری کا نظم بھی کیا اور اخراجات سفر کا بھی اور شہر سے باہر آکر نہایت محبت سے آپؒ کو رخصت کیا ، امام شافعیؒ کوفہ آئے اور امام ابوحنیفہ ؒ کے شاگردرشید امام محمد ؒ کی درس گاہ میں بحیثیت طالب علم شریک ہوگئے ، یہاں بھی امام محمد ؒ نے ذاتی طور پر امام شافعی ؒ کی کفالت فرمائی ؛ بلکہ بھر پور تعاون فرمایا، امام شافعی ؒ اس حال میں کوفہ پہنچے کہ نہایت ہی معمولی کپڑا آپ کے جسم پر تھا ، امام محمد ؒ نے اسی وقت ایک قیمتی جوڑے کا انتظام فرمایا ، جو ایک ہزار درہم قیمت کا تھا ، پھر جب امام شافعیؒ کورخصت کیا تو اپنی پوری نقدی جمع کر کے تین ہزار درہم انھیں حوالہ کئے ، (جامع بیان العلم لابن عبد البر ، ص :۲۶۸) امام ابو یوسف ؒ کے والد دھوبی کا کام کرتے تھے اور بڑی عسرت کے ساتھ گزر اوقات ہوتی تھی ؛ بلکہ اس افلاس و مجبوری کی وجہ سے ان کے والدین کو امام ابویوسفؒ کا پڑھناپسند نہیں تھا، وہ چاہتے تھے کہ آپ کسبِ معاش میں مصروف ہوں اور گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹائیں ، امام ابوحنیفہؒ ان کی ذہانت اور طلب علم کے شوق سے بہت متأثر تھے ، اس لئے آپؒ نے بنفس نفیس ان کے اخراجات برداشت کئے ۔
آج کل صورتِ حال یہ ہے کہ تدریس محض درس گاہ کی ملازمت نہیں کہ آدمی تکمیل ضرورت کے لئے کچھ تنخواہ لے لے اور بے غرضی کے ساتھ اپنے شاگردوں کو پڑھائے ؛ بلکہ تدریس ایک ایسی تجارت بن گئی ہے کہ جس کے لئے کسی سرمایہ اور دوکان کی ضرورت نہیں ، اساتذہ تاجر ہیں اور طلبہ گاہک ، اساتذہ اسکولوں اور کالجوں میں قصداً غیر معیاری اسباق دیتے ہیں اور اسباق کو تشنہ رکھتے ہیں ؛ تاکہ طلبہ ان سے ٹیوشن پڑھیں اور کم وقت کی زیادہ قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہوں ، ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض دانش گاہوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لئے بھی ’’ شایانِ شان نذرانہ‘‘ پیش کرنا ہوتا ہے !
یہ ایسی شرمناک بات ہے کہ شریف النفس لوگوں کے لئے اس کا تذکرہ بھی گراں خاطر ہے ، ایک ایسا مقدس رشتہ جو مکمل طور پر بے غرضی پر مبنی ہے ، جو ایک دوسرے سے بے لوث محبت اور بے پناہ شفقت کا متقاضی ہے اور جو تعلیم گاہیں انسانیت ، محبت اور فرض شناسی کا احساس پیدا کرنے کے لئے ہیں ، وہیں سے ایسی بد اخلاقی اور حرص و طمع کا سبق ملے تو پھر کون سی جگہ ہوگی جہاں انسان کو انسانیت کا سبق مل سکے گا ؟ حماد بن سلمہ ایک مشہور محدث گزرے ہیں ،ان کے ایک شاگرد نے چین کا تجارتی سفر کیا اور کچھ قیمتی تحائف اپنے استاذ کی خدمت میں پیش کئے ، استاذ نے فرمایا کہ اگر یہ تحفے قبول کروں گا تو آئندہ پڑھاؤں گا نہیں اورپڑھاؤں گا تو یہ تحفے قبول نہیں کرسکتا ، (الکفایۃ للخطیب ، ص : ۱۵۳) مولانامحمد قاسم نانوتویؒ (بان�ئدار العلوم دیوبند ) کا حال یہ تھا کہ صرف تیس روپے ماہانہ پر خدمت فرماتے تھے ، اس درمیان بعض رئیسوں کی طرف سے تین سو اور پانچ سو روپے ماہانہ پر کام کرنے کی درخواست کی گئی تو آپ نے معذرت کردی اور فرمایا کہ اللہ کے یہاں ان ہی پیسوں کا حساب دینا مشکل ہے ، اگر اورزیادہ پیسے لئے جائیں تو ان کا حساب تو اور بھی دشوار ہوگا ۔
مسئلہ صرف پیسوں ہی کے لین دین کا نہیں ؛ بلکہ ہر طرح کی نصح و ہمدردی کا ہے ، ابن جماعہ نے خوب لکھا ہے کہ استاذ کا فرض ہے کہ وہ اپنے لئے جو پسند کرتا ہے وہی اپنے شاگردوں کے لئے پسند کرے اور جو چیز اپنے لئے ناپسند ہے اسے اپنے شاگردوں کے لئے بھی ناپسند سمجھے ، (تذکرۃ السامع، ص : ۴۹) استاذ کواپنے شاگر د سے بے حد محبت ہونی چاہئے اور اسے ہر وقت اس کا خیر خواہ ہونا چاہئے ، جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کی ترقی پر خوش ہوتا ہے اور اس کی ناکامی پر کبیدہ خاطر ، یہی تعلق ایک استاذ کو اپنے شاگردوں کے ساتھ ہونا چاہئے ، یہ تعلق بے غرض اور بے لوث ہو اور پاکیزگی پر مبنی ہو ، اگر اساتذ ہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ طلبہ میں ان کے تئیں وہی احترام نہ پیدا ہو جن کا ذکر ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ تدریس کے لئے کسی شخص کا انتخاب اہلیت اور لیاقت کی بناء پر ہونا چاہئے نہ کہ تعلقات اور دوسری بنیادوں پر ؛ اس لئے کہ تدریس نہایت ہی اہم اورنازک کام ہے ، مشہور بزرگ ابو بکر شبلی سے منقول ہے کہ جو شخص قبل از وقت کسی منصب پر فائز ہوجائے وہ در اصل اپنی رسوائی کے درپے ہے : ’’ من تصدر قبل أوانہ فقد تصدر لھوانہ ‘‘ (تذکرۃ السامع و المتکلم :۴۵)اہلیت کا مطلب یہ ہے کہ جس مضمون کی تدریس اس کے حوالہ کی جارہی ہے ، وہ واقعی اس مضمون میں عبور رکھتا ہو اور اپنے اخلاق و عادات کے اعتبار سے بھی انگشت نمائی سے محفوظ ہو ۔
پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مضمون پر مناسب محنت کرتاہو اور اس کے مطالعہ وتحقیق میں ارتقاء اور تسلسل ہو کہ اس کے بغیر وہ اپنے طلبہ کو کما حقہ فیضیاب نہیں کرسکتا ، وہ اوقاتِ درس کا پابند ہو اور اپنے وقت کو طلبہ کی امانت تصور کرتا ہو ،قرآن مجید نے کم ناپنے تولنے کی بڑی مذمت فرمائی ہے اور اہل علم نے لکھا ہے کہ ناپ تول کی کمی میں یہ صورت بھی داخل ہے کہ وہ ملازمت کے اوقات میں سے کوئی حصہ اپنی ضرورت میں اور مفوضہ کام کے علاوہ کسی اورکام میں خرچ کرے ، یہ بھی ایک طرح کی چوری ہے اور ان اوقات کی اجرت اس کے لئے حلال نہیں ۔
اساتذہ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ طلبہ کی نفسیات کا شعور رکھتے ہوں اور عملی زندگی میں اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوں ، طالب علم کے ساتھ اہانت آمیز سلوک کرنا اور اس کی تذلیل کے درپے ہونا نہایت اوچھی بات ہے اور کسی بھی طرح استاذ کے شایان شان نہیں ، رسول اللہ ا کا معمولِ مبارک تھا کہ اگر کسی کی غلطی پر ٹوکنا ہوتا تو تنہائی میں توجہ دلاتے اور اگر متعدد افراد کو اس غلطی میں مبتلا دیکھتے تو مجمع عام میں کسی کا نام لئے بغیر مبہم انداز میں توجہ دلاتے ؛ چوں کہ مقصود اصلاح ہے نہ کہ انتقام ، ایسا بھی ہوا کہ آپ اکے بعض نو آموز رفقاء نے مسجد میں پیشاب کردیا ، آپ ا نے اس پر پانی بہانے کا حکم دیا اور کسی ناگواری کا اظہار کئے بغیر محبت کے ساتھ سمجھانے پر اکتفا فرمایا ، بعض طلبہ بظاہر شر پسند ہوتے ہیں ؛ لیکن اگر تنہائی میں بلا کر ان کی تفہیم کی جائے اور ان کی ذہانت کو تخریبی کاموں کے بجائے تعمیری کاموں کی طرف موڑ دیاجائے تو بآسانی ان کی اصلاح ہوجاتی ہے اور وہ قوم کے لئے ایک مخلص عنصر ثابت ہوسکتے ہیں ۔
اساتذہ کے لئے علمی لیاقت کے ساتھ اخلاقی اقدار بھی نہایت ضروری وصف ہے، استاذ کو اتنا باوقار ہونا چاہئے کہ اس کی ایک نگاہِ درشت سے طلبہ سہم جائیں ، اگر اساتذہ خود اخلاقی پستی میں مبتلا ہوں ، طلبہ سے سطحی گفتگو کرتے ہوں ، ان کے سامنے فحش ہنسی مذاق کیا کرتے ہوں ، ان کے کردار کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہو اور ان کی زبان و بیان سے وقتاً فوقتاً سوقیانہ پن اور پھوہڑپن کا اظہار ہوتا ہو ، تو بجا طور پر طلبہ ان کو اپنا بے تکلف دوست سمجھتے ہیں اوراستاذ کا درجہ نہیں دیتے ؛ کیوں کہ یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان خود کتنا بھی برا ہو ، وہ اپنے بزرگوں کو اس سے ماوراء دیکھنا چاہتا ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سماج اور قوم کی تعمیر میں اساتذہ کا بڑا رول ہے ،وہ نہ صرف طلبہ بلکہ سماج کے لئے بھی قابل احترام ہیں ؛ لیکن اسی قدر ضروری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مقام کو پہچانیں اور جیسے وہ اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرنے میں ذرا بھی کوتاہی نہیں برتتے ، اسی طرح ؛ بلکہ اس سے بڑھ کر وہ اپنے فرائض و واجبات پر بھی نگاہ رکھیں اور خود احتسابی سے بھی غافل نہ ہوں ۔
۔(ملت ٹائمز)