جمال خاشقجی
سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات استوار کرنے یا تعلقات معمول پر لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ فلسطینی نصب العین ( کاز) میں دلچسپی مسلسل کم ہوتی جارہی ہے،اس لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا ایشو بھی رو بہ انحطاط ہونا چاہیے۔
سعودی عرب کی اولین ترجیحات اقتصادی اصلاحات ، ایران کے توسیع پسندانہ عزائم اور پڑوسی ممالک کے سقوط سے لاحق سکیورٹی خطرات ہیں۔اسرائیل کا ان ایشوز میں کوئی براہ راست کردار نہیں ہے اور اس کو ان میں کوئی حصہ بھی نہیں لینا چاہیے۔
سعودی عرب کے ایک ریٹائرڈ میجر جنرل کے اسرائیل کے رضاکارانہ دورے کے بعد قومی دھارے کے ایک سعودی اخبار میں متعدد مضامین شائع ہوئے تھے۔ان میں اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کے مزعومہ فوائد وثمرات کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ پھر بین الاقوامی اخبارات اور تحقیقی مراکز نے اس ایشو پر اپنی توجہ مبذول کی اور ان میں سے بعض نے تو اس کو دوطرفہ تعلقات کے ضمن میں ایک پُرخطر پیش رفت قرار دیا۔بعض اخبارات نے ان ملاقاتوں کے بارے میں افواہیں پھیلائیں جو درحقیقت اسرائیل اور سعودی عرب کے سینیر عہدے داروں کے درمیان ہوئی ہی نہیں تھیں۔
جیسا کہ اسرائیلی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات استوار کرنے میں گریزپا رہا ہے۔سعودی مملکت اگر ایسا کرتی ہے تو اس کو اسلامی شناخت ، الحرمین الشریفین کے خادم اور ضامن کی حیثیت ،اپنی تاریخ ، ماضی کے مؤقف ،جن میں فلسطینی اور عرب حقوق کی بحالی پر زوردیا گیا تھا اور اس کی اسرائیلی عہدے داروں یا سفارت خانوں میں کسی قسم کی ملاقاتوں اور تعلقات کی استواری کو مسترد کرنے کے مؤقف کو ایک طرف رکھنا ہوگا۔اس سے سعودی مملکت کو کیا مفاد حاصل ہوگا؟
میں لوگوں سے اس بات کی توقع کرتا تھا کہ وہ یہ کہیں گے کہ اسرائیل الریاض کی اقتصادی اصلاحات اور سکیورٹی خطرات کے مقابلے میں مدد کرے گا کیونکہ اس کو مبینہ طور پر ماسکو سے واشنگٹن تک اثرورسوخ حاصل ہے۔پھر وہ فلسطینیوں کو رعایتیں دے گا تا کہ تعلقات کو معمول پر لانے کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔
تاہم اسرائیل اقتصادی اصلاحات کے معاملے میں کسی مدد کی پیش کش نہیں کر سکتا ہے۔سعودی عرب کو جن چیزوں کی ضرورت ہے ،وہ اس کی مدد کے بغیر بھی دستیاب ہے۔ اگر ہم یہ گمان کرتے ہیں کہ ہمیں سعودی عرب میں کسی تزویراتی منصوبے کی تکمیل کے لیے اسرائیل سے کسی جدید ڈیوائس خریدنے کی ضرورت ہے تو ایسی ہزاروں تھرڈ پارٹیاں ( تیسرے فریق) موجود ہیں جو اس ڈیوائس کو خریدنے اور اس کو ہمیں برآمد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اسرائیل سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی بہت کچھ نہیں کرسکتا ہے۔جب ہم مسلم اور عرب اتحاد بنائیں گے تو وہ ایک بوجھ ہوگا۔الریاض مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات عامہ کے ضمن میں جو بدترین امر کرسکتا ہے،وہ اس کا ایران کے مقابلے میں اسرائیل کے ساتھ اتحاد ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ تہران کے لیے ایک ایسا تحفہ ہوگا جس کا وہ ایک طویل عرصے سے منتظر ہے۔
اسرائیل یمن یا شام میں سعودی عرب کی حمایت کے لیے کیا پیش کرسکتا ہے؟ کیا وہ شام میں سلفی اسلامی گروپوں کے ساتھ کھڑا ہوگا اور انھیں طیارہ شکن ہتھیار مہیا کرے گا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کی مرکزی حریف فلسطینی جماعت حماس کی ہوبہو نقل ہیں۔ کیا وہ ایسی کوئی چیز مہیا کرتا ہے جو سعودی عرب ،ترکی اور قطر مہیا نہیں کرسکتے ہیں؟
سعودی عرب یمن میں ( حوثیوں کے خلاف) اتحاد کی قیادت کررہا ہے اور اس کو مزید امداد یا حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔اگر یمن میں پیچیدہ سیاسی اتھل پتھل اور اعداد وشمار آڑے نہ آتے اور یمنی شہریوں کی زندگیوں کو بچانے کا معاملہ نہ ہوتا تو سعودی عرب فوجی لحاظ سے اس جنگ کو کب کا ختم کرسکتا تھا۔ سعودی عرب اور عالمی برادری تنازعے کا کوئی پُرامن حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔اگر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی حالیہ سفارتی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں تو سعودی عرب پھر بھی اس جنگ کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ ان ہر دو صورتوں میں اسرائیل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ اسرائیل سراغرسانی میں مضبوط ہے ،مگر اس کے لیے یہ ناممکن ہے کہ اس کے پاس یمن میں وہ ڈیٹا ہو جس سے سعودی عرب بے خبر ہو اور جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اہمیت کا حامل ہو۔اس کا شام میں بھی اطلاق ہوتا ہے جہاں سعودی عرب ،اردن ،ترکی اور قطر کے شاندار انٹیلی جنس ذرائع موجود ہیں۔وہاں ایک بین الاقوامی ”حلقہ” ( سرکل) بھی بروئے کار ہے جو انٹیلی جنس ڈیٹا کا آپس میں تبادلہ کرتا ہے۔اس حلقے میں امریکا ،یورپی یونین ،سعودی عرب اور اس کے اتحادی شامل ہیں۔
اسرائیل کے اثرورسوخ کے بارے میں مبالغے سے کام لیا جاتا ہے۔اسرائیلی ،فلسطینی تنازعے پر تحقیقی کام کرنے والے مشرق وسطیٰ منصوبے کے ڈائریکٹر ڈینیل لیوی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ”عربوں کے علاوہ چین میں یہ شدید احساس پایا جاتا ہے کہ اسرائیل واشنگٹن اور لندن ایسے دارالحکومتوں میں فیصلہ ساز حلقوں میں گہرے اثر ونفوذ کا حامل ہے۔یہ ایک مبالغہ آمیز ایشو ہے اور اسرائیل کے براہ راست مفادات سے ماورا اس پر انحصار کرنا کوئی عقل مندانہ بات نہیں ہوگی کیونکہ اسرائیل صرف اپنے مفادات کا دفاع اور تحفظ کرتا ہے۔
جب اسرائیل نے ایران کے جوہری منصوبے کو رکوانے کے لیے بین الاقوامی سیاست دانوں کو بھرتی کیا تھا تو اس وقت دراصل اس کو خطے نہیں بلکہ اپنی سکیورٹی سے متعلق تشویش لاحق تھی۔ اسرائیل کو یقینی طور پر ان ہتھیاروں کے بارے میں کوئی تشویش لاحق نہیں ہے جو شامیوں کے خلاف استعمال کیے جارہے ہیں۔
الریاض کو واشنگٹن یا کسی اور یورپی دارالحکومت میں اپنے مفادات کے فروغ کے لیے اسرائیلی اثر ورسوخ کی کبھی ضرورت نہیں ہوگی۔تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ سعودی عرب کا اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنا ہی کافی اثرو رسوخ ہے۔جب کبھی اسلحے کے کسی سودے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کو ووٹ کی ضرورت پیش آئی تو اس نے اپنا یہ اثر ورسوخ استعمال کیا ہے۔
کیا اسرائیل کے شام میں وہی مقاصد ہیں جوسعودی عرب کے ہیں؟ کیا اسرائیل واقعی صدر بشارالاسد کے نظام کی رخصتی چاہتا ہے؟بالخصوص جبکہ وہ نصف صدی تک شامی صدر اور ان کے والد کے ساتھ گزارہ کرتا رہا ہے۔اسد رجیم نے اسلام پسندوں اور اسرائیل کے قبضے کے مخالف لوگوں کی بالادستی کی حامل منتخب حکومت کی جگہ لی تھی۔اسرائیلی سیاست دانوں کے بیانات اور اسرائیل کے تحقیقی مراکز کی جانب سے شائع شدہ تجزیوں کے مطابق تو اسرائیل ہرگز بھی ایسا نہیں چاہتا ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے فلسطینیوں کے لیے صورت حال میں بہتری آئے گی،انھیں لیوی کا مضمون پڑھنا چاہیے’’نیتن یاہو فلسطینیوں کے بغیر امن چاہتے ہیں‘‘۔یہ مضمون گذشتہ ماہ اسرائیلی اخبار ہارٹز میں شائع ہوا تھا۔یہ واضح ہے کہ اسرائیلی برطانوی شہری لیوی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی وکالت کرنے والے سعودیوں سے زیادہ حقیقت پسند ہیں۔ (ملت ٹائمز)
جمال خاشقجی سعودی عرب کے تجربہ کار صحافی ، کالم نگار اور مصنف ہیں،ماضی میں وہ امریکا میں سعودی عرب کے سابق سفیر شہزادہ ترکی الفیصل کے میڈیا مشیر رہ چکے ہیں۔
بشکریہ العربیہ