جی 20 اور ہندوستان

پس آئینہ:شمس تبریز قاسمی
اقتصادی سطح پر مضبوط دنیا کے بیس ممالک کا گروپ جی 20 کہلاتاہے ،عالمی اقتصادی طاقت کو فروغ دینے ،معاشیات کی اصلاحات اور غربت کی شرح ختم کرنے کے مقصد کے پیش نظر 1999 میں اس تنظیم کا قیام عمل میں آیاتھا، 19 ممالک انفرادی طور پر اس کے ممبرہیں،یورپین یونین مجموعی طور پر اس کا رکن ہے ،انفرادی طور پریورپی یونین کے کسی ملک کو اس کی رکنیت حاصل نہیں ہے ،ترکی ،سعودی عرب اور انڈونیشا سمیت تین مسلم ملک کوبھی اس کی رکنیت حاصل ہے ،اس کے علاوہ ہندوستان بھی اس کا مستقل رکن ہے ،دیگر ممالک میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، جنوبی افریقہ،برطانیہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ شامل ہیں،رکن ممالک کے علاوہ ہر سال چار پانچ ملک کے سربراہوں کو یہاں مدعوی کیا جاتاہے،اس کے علاوہ اندلس،اقوام متحدہ ،افریقہ یونین سمیت کئی عالمی تنظیموں کے سربراہ خصوصی مدعو کی حیثیت سے ہرسال شرکت کرتے ہیں۔
نومبر2008 میں واشٹنگٹن کی میزبانی میں اس کا پہلا اجلاس منعقد ہواتھااس کے بعد سے ہر سال پابندی سے مختلف ملکوں میں اس کا اجلاس ہورہاہے ،اب تک کل گیارہ سربراہ اجلاس ہوچکے ہیں،گیارہویں سربراہی اجلاس کی ضیافت چین نے کی ہے ،اس سے قبل ایشا کا ایک اور ملک جنوبی کوریا2010 میں جی 20 سرابراہی اجلاس کی میزبانی کرچکا ہے ،سال گذشتہ 2015 میں یہ اجلاس ترکی کے شہر انطاکیہ میں منعقد ہواتھا، آئندہ اجلاس جرمنی اور ارجنٹائن میں ہوگا۔
یہ دنیا کے بیس طاقتور ترین ممالک کا گروپ کہلاتاہے لیکن ایسانہیں ہے کہ یہی ممالک اقتصادی سطح پر سب سے زیادہ مضبوط ہیں اوردیگر ملکوں کا نمبر اس کے بعد آتاہے ، نہ ہی یہ حقیقت ہے کہ اس میں شامل تمام ممالک اقتصادی سطح پر مضبوط ہیں،آئی ایم ایف کی عالمی اقتصادی درجہ بندی میں اسپین چودہویں نمبر پر آتاہے ،اس کی جی ڈی پی گروپ میں شامل کئی ملکوں سے بہتر ہے اس کے باوجود وہ اس کار کن نہیں ہے ،ناروے کا شمار دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتاہے ،اقوام متحدہ کا ساتواں سب سے بڑا معاون ہے ،نائدر لینڈ اور ایران کا مقام بھی بیس کے اندر ہے اس کے باوجود ان ممالک کو رکنیت نہیں دی گئی ہے ،ناروے کے وزیر خارجہ جوناس گھر اسٹور نے 2010 میں ایک انٹرویوکے دورن کہاتھاکہ جی ٹوئنٹی ایک خودساختہ گروپ ہے ،اس کا نظام اہم اور طاقتور ملکوں کی طرف سے مقرر کیا جاتاہے ، عالمی معیشت کی اصلاح سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
گروپ میں کئی ایسے بھی ملک شامل ہیں جنہیں صرف عمومی جی ڈی پی کی بنیاد پر عالمی ریکنگ میں ملنے والی درجہ بندی کو بنیادبناکر اس کی ممبر شپ دی گئی ہے ،ایسے ممالک میں سرفہرست ہندوستان ہے جس کی عمومی جی ڈی پی 2090706 ہے اور اسی بنیاد پر دنیا کے دس اہم ترین اقتصادی طاقتور ملکوں میں شامل ہے ،آئی ایم ایف (International Monetary Fund ) کے اعداد وشمار کے مطابق ساتویں رینک پر ہے ،عالمی بینک نے بھی یہی درجہ دے رکھاہے ،اقوام متحدہ کی فہرست میں آٹھواں مقام حاصل ہے ، لیکن جی ڈی پی کی دیگر اقسام جیسے GDP (nominal) per capitaاور GDP (PPP) per capita کے اعتبار سے ہندوستان کا نمبر140 کے بعد آتاہے ،جی ڈی پی (پی پی پی) فی کس کے اعتبارسے آمدنی کی شرح6162ہے اور جی ڈی پی عوامی فی کس 1617ہے ۔ غربت ،تنگ دستی ،فاقہ کشی ،بے روزگاری اور کرپشن میں بھی سرفہرست ہے ،پلاننگ کمیشن آف انڈیا کی رپوٹ کے مطابق 34 فیصد سے زیادہ عوام خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے ،42 فیصد عوام متوسط درجے کی زندگی بسرکررہی ہے ،ایشا کے مالدار ملکوں میں بیسواں مقام حاصل ہے ،دنیا بھر کے مالدار ترین ملکوں میں 130 ویں نمبر پر ہے۔چند سال قبل مغربی تحقیقی ادارے آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیویلپمنٹ انیشیٹو نے 104ایسے ممالک میں غربت کامطالعاتی جائزہ لیاتھا، جہاں دنیا کے 80فیصد لوگ آباد ہیں،مطالعاتی جائزے میں غربت کی پیمائش کے لیے صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی تک رسائی اور بجلی کی دستیابی جیسے مختلف پہلووں کو سامنے رکھا گیا، اِس جائزے کے مطابق ہندوستان کی آٹھ ریاستوں میں رہنے والے غریب افراد کی تعداد سب افریقہ کے غریب ترین 26 ممالک سے بھی کہیں زیادہ نکلی، محققین کے لئے سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ ایک ارب 70 کروڑ کی آبادی والے جنوبی ایشیا میں 51فیصد سے زیادہ لوگ غربت کے دائرے میں آتے تھے، جن میں سے ستر فیصدکا تعلق ہندوستان سے تھا، یہاں آبادی کے تیس فیصد حصے کو تعلیم، صحت، پانی، سیوریج سسٹم اور بجلی جیسی بنیادی انسانی ضروریات سرے سے دستیاب نہیں ہے،غربت کے باعث پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے،ہر سال ایک کروڑ 40 لاکھ بچے اپنی زندگی کی پانچ بہاریں بھی دیکھ نہیں پاتے اور موت کی وادی میں اتر جاتے ہیں،30 فیصد لوگوں کے پاس چھت نہیں ہے ،آسمان کے سایے میں وہ شب روزکی زندگی بسرکرتے ہیں۔ لیکن عمومی جی ڈی پی کی بنیاد پر ہندوستان کی ترقیاتی شرح ساتویں نمبر پر آگئی ہے اور اسی کو بنیاد پر ملک کے حکمراں دنیا بھر میں یہ ڈھنڈوراپیٹ رہے ہیں کہ ہندوستان جی 20 کا ممبر ہے ،دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہے ،برق رفتاری کی ساتھ ترقی کررہاہے ،پسماندہ ممالک کی فہرست سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کے صف اول میں شامل ہوگیا ہے،کچھ ماہرین اقتصادیات نے یہاں تک دعوی کردیا ہے کہ 2020 تک ہندوستان کا شمار دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت میں ہوگا۔
عالمی تنظیموں اور طاقتور ور ممالک کے فورم میں ہندوستان کی شراکت ایک خوش آئند خبر اور ہندوستان کے بڑھتے قدم کا ثبوت ہے لیکن حکمرانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان مفروضوں پر خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے بجائے حقائق کا جائزہ لیں،زمینی سطح پر ملک کی صورت حال کا تجزیہ کریں عوامی مسائل کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں ،عوامی مسائل کو دور کرنے کی فکر کریں بنگلہ دیش کے ایک رہنمانے ایک انٹر ویو کے دوران سچ کہاتھاکہ کسی ملک کی ترقی کی اندازہ اس کی جی ڈی پی سے نہیں بلکہ کیچن اور مطبخ سے لگانا چاہئے ،ملک کے حکمرانوں کو کیچن ،گھر اور ضروریات زندگی کا جائزہ لینی چاہئے ،جی ڈی پی ملکی ترقی کا پیمانہ نہیں ہے ۔ اسی جی ڈی پی کا کھیل ہے کہ غربت کے دلدل میں پھنسے ہونے کے باوجود ہندوستان ترقی یافتہ ملک میں شامل ہوگیا ہے۔
چین کے اقتصادی شہر ہانگژو میں منعقد ہونے والی جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے بارے میں چین کامیابی کا زور شور سے اعلان کر رہا ہے۔ اس اجلاس میں چین اور امریکا نے مشترکہ طور پر پیرس ماحولیاتی معاہدے کی بھی توثیق کی ہے، جسے ضرر رساں گیسوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے انتہائی اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، لیکن اس دوران دنیا کے ان طاقتور ترین لیڈروں نے ان تمام اہم مسائل کو میز کے نیچے ہی رکھا ہے، جن پر کھل کے بات چیت ہونی چاہیے تھی، شمالی کوریا کے میزائل تجربات سے لے کر شام میں خانہ جنگی کے مسائل جوں کے توں برقرار ہیں، امریکہ، روس اور دیگر بڑی طاقتیں ان معاملات کے حوالے سے کسی بھی بڑے معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہی ہیں ،صرف اپنے اتحادیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE